• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نیا ناظم آباد ہاؤسنگ پراجیکٹ، زمین جعلسازی سے لینے کا الزام، انتظامیہ نے حکم امتناع لے لیا

نیا ناظم آباد ہاؤسنگ پراجیکٹ، انتظامیہ نے حکم امتناع لے لیا


کراچی (امداد سومرو) سندھ ہائی کورٹ کےجسٹس حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے نیا ناظم آبادپراجیکٹ کے خلاف تمام اداروں کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکتے ہوئے 27 فروری کےلیےنوٹس جاری کردئیے جبکہ بنچ نےدرخواست منظورکرتےہوئےحکم امتناع جاری کردیا۔ 

دوسری جانب سرکاری ریکارڈ میں بہت سی بے قاعدگیوں اور سنگین جعلسازیاں دیکھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر ویسٹ کراچی فیاض عالم سولنگی نے میگا ہاؤسنگ پراجیکٹ نیا ناظم آباد کا معاملہ جامع انکوائری کیلئے چیئرمین سندھ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا۔ انہوں نے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو نیا ناظم آباد کے تمام لے آؤٹ منصوبے منسوخ کرنے، سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن اور سپرنٹنڈنٹ آف سروے اور سیٹلمنٹ ڈپارٹمنٹ کو اسی منصوبے کی لیز دستاویزات کی تصدیق اور قانونی حیثیت اور مزید اہم یہ کہ پانچ کمرشل بینکوں بشمول الائیڈ، سمٹ، فیصل، نیشنل بینک اور پاک بائیونک انویسٹمنٹ کمپنی کے سربراہوں کو نیا ناظم آباد پراجیکٹ کی بینکنگ ٹرانزیکشنز روکنے کا بھی کہہ دیا۔ اس میگا پراجیکٹ میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے دی نیوز چھ سال قبل خبر شائع کرچکا ہے۔

 دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے اس منصوبے کے حوالے سے سندھ حکومت کے تمام اقدامات پر کارروائیوں کو 27 فروری تک معطل کرتے ہوئے سندھ حکومت ڈپاٹمنٹ کو کسی بھی زبردستی کارروائی سے روک دیا اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور دیگر کو سماعت کی اگلی تاریخ کیلئے نوٹسز جاری کردئیے۔

 سرکاری خط و کتابت کے مطابق میگا ہاؤسنگ پروجیکٹ نیا ناظم آباد ایم ایس عارف حبیب گروپ کی ملکیت ہے جن کے اس منصوبے میں زیادہ شیئر ہیں جبکہ عقیل کریم ڈھیڈی اس میں معمولی شیئر ہولڈر ہیں۔ یہ منصوبہ کزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اور زمینی سطح پر 450 ایکڑز پر مشتمل ہے جبکہ بقیہ بڑا حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جو تقریباً 7 سو ایکڑز پر پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری خط و کتابت کے مطابق ایم ایس نیا ناظم آباد اسکیم کے حق میں گھاٹ واڈھ فارم نمبر 35 کو ڈائریکٹر سیٹلمنٹ اور سروے سندھ نے 2013 میں منسوخ کردیا تھا، پھر اسی محکمے کا ایک خط نیا نظام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے گھاٹ واڈھ فارم کی بحالی کے حوالے سے 2016 میں جمع کرایا گیا جو تصدیق کے وقت جعلی ثابت ہوا۔ ڈی سی سولنگی نے بھی اس معاملے کو اینٹی کرپشن کے سربراہ کے سامنے اٹھایا اور اس معاملے کی انکوائری کا کہا۔ ڈپٹی کمشنر نے چیئرمین اینٹی کرپشن کو اپنے خط میں لکھا کہ نیا ناظم آباد انتظامیہ کو ان کے منصوبے کے عنوان کی دستاویزات شیئر کرنے کیلئے لینڈ ریونیو ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت طلب کیا گیا۔ انتظامیہ کی جانب سے شیئر کی گئی دستاویزات نے مکمل عنوان دستاویزات میں مزید واضح خامیوں کو بے نقاب کردیا۔ خط میں کہا گیا کہ یہ اراضی سیمنٹ فیکٹری کی تشکیل کے مقصد سے دی گئی تھی لیکن اس کے بجائے ایم ایس عارف حبیب نے میگا ہاؤسنگ پراجیکٹ شروع کردیا ہے جو کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز ایکٹ 1912 کی شقوں کی خلاف ورزی ہے۔ ڈپٹی کمشنر ویسٹ فیاض سولنگی نے دی نیوز کو بتایا کہ ان کے دفتر نے نیا ناظم آباد منصوبے کے حوالے سے متعدد سنجیدہ معاملات دریافت کئے ہیں۔ ان کے دفتر نے ان سرگرمیوں کا نوٹس اس وقت لیا جب علاقے کے لوگوں نے شکایت کی کہ رہائشی یونٹوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے 700 ایکڑ پر مشتمل پہاڑیوں کو کاٹا جارہا ہے۔ پھر ایک چیز سے دوسری چیز تک رہنمائی ملی اور متعدد جعل سازیاں سامنے آئیں۔

 نیا ناظم آباد کی انتظامیہ نے سندھ ہائی کورٹ کے روبرو اپنی درخواست میں کہا کہ سوسائٹی (نیا ناظم آباد) 1366 ایکڑ اراضی کی مالک ہے اور اسے نجکاری کمیشن کے ذریعے خریدا گیا ہے۔ انتظامیہ نے مزید دعویٰ کیا کہ 2013 میں ان کا گھاٹ واڈھ فارم منسوخ ہوا تھا لیکن 2016 میں ان کی درخواست پر اسے بحال کردیا گیا تھا۔ انتظامیہ نے اپنے دعوے کو سچا ثابت کرنے کیلئے اس معاملے کو بند کرنے کے حوالے سے نیب کا خط، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا این او سی اور مختلف محکموں کی دیگر دستاویزات بھی پیش کیں۔

تازہ ترین