سب سے پہلے ایک تصحیح بلکہ بے ضرر سی وضاحت۔ برادر خورد و خوبرو کامران شاہد کے پروگرام میں سیلف میڈ اور سدابہارسیاستدان شیخ رشید نے اپنے وقت کے مقبول ترین ماہنامہ ’’دھنک‘‘ کو حسن نثار کا دھنک قراردیا جو میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے لیکن میں اس کا مستحق نہیں کیونکہ ’’دھنک‘‘، ’’اے ٹو زی‘‘ سرور بھائی (سرور سکھیرا) کی تخلیقی قوت کا کمال تھا۔ ’’دھنک‘‘ میری اولین تربیت گاہ ضرور تھااورمیں اس کی ٹیم کا حصہ جو ’’معاونین‘‘ کی صف سے نکل کر اس کی ادارت تک پہنچا لیکن یہ سو فیصد سرور بھائی کا ’’بے بی‘‘ تھا۔ اس کی ہر ’’شرارت‘‘ کے پیچھے خود سکھیرا صاحب موجود ہوتے۔ یہاں تک کہ اس کے شہرہ ٔ آفاق کارٹونوں میں بھی ان کی ’’اِن پٹ‘‘ شامل ہوتی۔ لیجنڈ کارٹونسٹ جاوید اقبال کے ہر کارٹون کے پیچھے جیدی کی اپنی ذہانت و مہارت تو ہوتی ہی تھی لیکن انسپائریشن کا سورس وہی ہوتے۔ اس ٹائپ کے میگزین کے لئے منیرنیازی، ظفراقبال اور نذیر ناجی صاحب جیسے ہیوی ویٹس کو انگیج کرکے ان کے ساتھ ہم جیسوں کو بھی رواں کردینا، انہی کا کمال تھا۔ سرور بھائی شاید ایسے پہلے ایڈیٹر اورپبلشر تھے جو اپنی ٹیم کو ’’محنت‘‘ سے روکتے اور کم کام کرنے کا مشورہ دیتے۔ ایک بار کہا..... ’’آپ لوگ میری موم بتیاں ہو او ر میں نہیں چاہتا کہ میری کوئی موم بتی دونوں طرف سے جلائے جانے کے بعد قبل از وقت ختم ہو جائے۔‘‘ ایساانسپائرنگ ایڈیٹر بھی پھر نہیں دیکھا اور جو پذیرائی ان کے ذاتی کالم ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کو ملی، وہ بھی شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوئی ہو۔اب چلتے ہیںصحیح معنوں میں درویش صفت سراج الحق کی طرف جو جماعت اسلامی کے امیر ہیں او ر دل کی گہرائیوں سے اس ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ان کے خلوص اورمحنت میں کسی شک کو میں اپنے لئے گناہ سمجھتا ہوں لیکن ان کی حکمت عملی؟؟؟ مجھے حق پہنچتا ہے کہ اس پر سوال اٹھائوں۔سراج الحق صاحب ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ جیسی ملین ڈالر مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔ پہلی بات جو شاید میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ کرپشن فری معاشرہ کے لئے کرپشن فری لوگ ضروری ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انسانی معاشرہ کرپشن فری ہو ہی نہیں سکتاکیونکہ جہاں انسان ہوگا وہاں جرم بھی ہوگا اور گناہ بھی۔ اصل چیلنج ہے اسے کم ترین سطح پر لانا لیکن یہ ایک اور موضوع ہے۔سراج الحق یہ مہم جاری رکھیں، سر آنکھوں پر، ہم جیسے بھی اس میں اپنی اوقات بساط کے مطابق حصہ ڈالیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اک اورفکری ایکسرسائز بہت ضروری ہے۔ چندسوالوں کے جواب تلاش کئے بغیر ساری کوشش سراب ثابت ہوگی اوروہ سوال کچھ یوں ہیں:بہترین دین ..... دین کامل ہمارابہترین، حرفِ آخر، آخری کتاب بھی ہماریانبیا ؑ کے سردار، آخری پیغمبر ﷺاور کامل ترین رہنماﷺبھی ہمارابہترین اسلاف بھی ہمارے کہ انسانی تاریخ میں اس سے پہلے اور بعدایسے لوگ کہیں دکھائی نہیں دیتےمیکرو سے یکدم مائیکرولیول اور ماضی سے حال تک آ جائیں تو بابائے قوم محمد علی جناح ؒ جیسی فراست،محنت، دیانت کی مثال بھی خال خال ہی ملےگی۔تو سوال یہ ہے کہ..... ہم کیسے ہیں؟ اوراگر ہم ایسے ہیںجیسے کہ ہیں تو ایسے کیوں ہیں؟ جینز کاجھگڑا ہے؟ڈی این اے کا مسئلہ ہے؟ماحول کاکمال ہے؟لیڈرشپ کا کارنامہ ہے؟یا ان پارسائوں کا قصور ہے جو اپنے عصر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں؟ان کی سٹریٹجی ناقص ہے؟ مائینڈسیٹ ناقابل قبول ہے؟ جس دنیا میں زندہ ہیں اس کی حقیقتوں، تقاضوں، ضرورتوں سے بے خبر اور بے بہرہ ہیں؟ وہ کون سی ایسی وجوہات ہیں کہ عوام خود کو ان کے ساتھ ’’ریلیٹ‘‘ ہی نہیں کرپاتے؟ کیا ان لوگوں نے کبھی علی شریعتی صاحب کے اس قول پر جرأت مندی سے غور کرنے کی کوشش کی ہے کہ:"Changing rules for the changing needs and unchanging rules for the unchanging needs."پر عمل کئے بغیر ہم یونہی بھٹکتے رہیںگے۔مغرب اور اہل مغرب کے بارے میں ’’ہمارے‘‘ رویئےبے شمار گھسی پٹی اصطلاحوں کو Redefine اور Revisit کرنے کی اہمیتقدم قدم پر ’’سازشیں‘‘ سونگھنے کی بے فیض عادت ایک دوسرے کو ’’کافر‘‘ قرار دینے یا قابل نفرت و مذمت ٹھہرانے سے اوپر اٹھ کر بے شماربنیادی سوالوں پر سیر حاصل مکالمہ کی ضرورت ہے۔ اچھا معالج پہلے مرض بلکہ امراض کی تشخیص کرتا ہے۔ علاج کامرحلہ بعد کی بات ہے۔یہ ایک دن کی زندگی پر مشتمل معمولی سا کالم ہے، پی ایچ ڈی کا تھیسز نہیں سو صرف چنداشاروں کے اشاروں پر اکتفا کر رہا ہوں کہ یہاں تو سوال اٹھاتے ہی صلیب اٹھ جاتی ہے۔سب سے پہلے ’’سوال‘‘ ڈھونڈیں اور اس تلاش میں ان کو بھی اپنےساتھ شامل کریں جو بظاہر آپ کو ’’اپنے جیسے‘‘ دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ ہود بھائی کو بھی بٹھائیں اور جب ’’صحیح سوالوں‘‘ پر متفق ہو جائیں تو دل پر پتھر رکھ، صحیح جوابوں کے زہر کا پیالہ بھی پیئیں کہ وہی ’’آب ِ حیات‘‘ ثابت ہوگا۔ یہ سب اس اعتمادکے ساتھ کریں کہ ہر کلمہ گو اندر سے آپ ہی کی طرح بے چین اور بے قرار ہے۔’’کرپشن فری پاکستان‘‘ کی مہم میں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن کچھ اور قسم کی ایکسرسائز کے بغیر یہ مہم ناکام رہے گی۔ جیسے اس سے پہلے ایسی بہت سی مہمات مکمل ناکامی سے دوچار ہوئیں۔