وہ صاحب ایک تحقیقاتی ادارے کے افسر کے سامنے بیٹھے تھے۔ چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی اور شرمندگی کے باعث نگاہیں بھی جُھکی جُھکی سی تھیں۔ ماحول پرسکوت طاری تھا، جسے افسر کے اِن الفاظ نے توڑا’’ اچھا! تو یہ وہ پارسل ہے۔‘‘ وہ صاحب ایک پیکٹ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے تھے،جس میں نیا موبائل فون تھا۔یہ پیکٹ کسی نامعلوم شخص نے اُن کی بیٹی کو کورئیر سروس کے ذریعے بھجوایا تھا اور وہ اُس شخص کے خلاف کارروائی چاہتے تھے۔ افسر نے جوان بچّی کے بوڑھے والد کو تسلّی دی اور پھر کچھ ہی دیر میں ایک ماتحت نے آکر بتایا کہ اس موبائل سیٹ میں ایک ایسا سافٹ وئیر موجود ہے، جو موبائل پر ہونے والی ہر سرگرمی سے دُور بیٹھے شخص کو آگاہ کرتا رہے گا۔بہرحال، وہ شخص ٹریس ہوا اور قانون نے اُسے اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔
نہ جانے کتنی ایسی خواتین، بچّے اور بڑے ہیں، جنھیں موبائل فون کی سہولت راس نہیں آئی اور وہ ایک ایسی اذیّت میں مبتلا ہیں کہ جسے دوسروں سے شئیر کرنے کے لیے بھی جگرا چاہیے۔ بات ڈرنے ڈرانے کی نہیں، مگر معلوم تو ہونا چاہیے کہ ہمارے اِرد گرد ہو کیا رہا ہے۔ اِس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ موبائل فون نے ہماری زندگی کے ایک لازمی جُزو کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ خاص طور پر اینڈرائیڈ فونز کے بغیر تو زندگی سُونی سُونی لگتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کی رپورٹ ہے، جس کے مطابق پاکستان میں 15 کروڑ 90 لاکھ سے زاید افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے بیش تر کے پاس اینڈرائیڈ فونز ہی ہیں۔
ایک زمانے میں موبائل کو کال سُننے یا کسی کو کال کرنے اور پیغامات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، مگر اب انٹرنیٹ کی سہولت نے اسے کمپیوٹر بنا دیا ہے اور ہر شخص دنیا کو اپنے ہاتھوں میں لیے پِھرتا ہے۔ موبائل فون کی اسکرین پوری دنیا سے رابطے کا ایک تیز ترین ذریعہ ہے۔ تاہم، اس وسعت نے جہاں رابطے، علم و آگاہی اور تفریحات کی لامحدود سہولتیں فراہم کی ہیں، وہیں اس سے جنم لینے والے مسائل بھی کم نہیں۔ ان میں سب سے اہم اور سنگین مسئلہ، موبائل فون کی پرائیویسی کا تحفّظ ہے۔ یعنی آپ جو کچھ اپنے موبائل پر کرتے ہیں، اُسے دوسروں کی پہنچ سے کیسے بچایا جائے۔
موبائل میں ہوتا کیا ہے؟
ہم موبائل فون کو صرف رابطے ہی نہیں، معلومات، تفریح اور لین دین کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس متحرّک ہوتے ہیں، جس سے ہماری سرگرمیوں اور روابط کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ اس کی گیلری تصاویر اور ویڈیوز سے بَھری ہوتی ہے، جن میں بہت سی نجی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ یعنی ہم اُنھیں محدود افراد ہی کے ساتھ شئیر کرنا چاہتے ہیں اور باقی افراد کی نظروں سے بچا کر رکھتے ہیں۔
اس میں واٹس ایپ، میسینجر، چیٹ یا ایس ایم ایس کی صورت مختلف افراد سے بات چیت کا ریکارڈ بھی ہوتا ہے اور ان میں سے ہر گفتگو پبلک کرنے کی نہیں ہوتی۔ پھر یہ کہ کاروباری افراد موبائل فون کو بینکنگ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ چوں کہ یہ ایک حسّاس معاملہ ہے، لہٰذا رقوم کی ٹرانزیکشن دیگر افراد کی نظروں سے بچ بچا کر کی جاتی ہے۔نیز، موبائل میں فون نمبرز بھی ہوتے ہیں، جن میں بعض نمبرز جیسے فیملی نمبرز، عام افراد کے ساتھ شئیر نہیں کیے جاسکتے۔ بہت سے افراد موبائل میں کاروباری، سیاسی، تنظیمی یا ملازمت وغیرہ کے حوالے سے نوٹس اور دیگر مواد محفوظ رکھتے ہیں، جو اُن کے لیے بے حد قیمتی ہوتا ہے۔
ڈیٹا کیسے چوری ہوتا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ جب موبائل فون آپ کے ہاتھ میں ہے، تو پھر اس کا ڈیٹا کسی اور کے پاس کیسے جا سکتا ہے؟ ماہرین کے مطابق اس کی بہت سی صُورتیں ہو سکتی ہیں۔ آپ نے اپنے زیرِ استعمال موبائل کو پرانا ہونے یا پھر کسی بھی وجہ سے فروخت کردیا اور اُس میں موجود ڈیٹا درست طریقے سے صاف نہیں کیا، تو اس سے آپ کی تصاویر، رابطہ نمبرز، پیغامات اور دیگر مواد غیر متعلقہ افراد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ موبائل فون چوری ہوگیا، چھین لیا گیا یا آپ اُسے کہیں رکھ کر بھول گئے، اِس صُورت میں بھی دوسرا شخص آپ کے فون میں موجود مواد کو دیکھ اور اپنے پاس محفوظ کرسکتا ہے۔
بے احتیاطی یا حد سے زیادہ اعتماد کی وجہ سے موبائل کہیں رکھ کر چلے گئے اور کسی دوسرے شخص نے اُسے اُٹھا کر کھنگالنا شروع کردیا، تو آپ کے مواد کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اُسے صرف دیکھا ہی نہیں، بلکہ کسی اور ڈیوائس میں منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ موبائل میں کچھ خرابی ہوگئی اور آپ اُس کی مرمّت کروانا چاہتے ہیں، دُکان دار کے پاس گئے اور اُس نے ایک دو گھنٹے بعد آنے کو کہا، آپ اُس پر اعتماد کرتے ہوئے چلے گئے، اب اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ڈیٹا سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی۔
کسی اَن جان شخص نے آپ کو ای میل کیا، واٹس ایپ یا کسی اور ذریعے سے کوئی لنک بھیجا، آپ نے کسی احتیاط کے بغیر اُس لنک کو کِلک کیا، تو سمجھیے کہ اُس شخص کی آپ کے موبائل تک رسائی ہوگئی۔ اسی طرح، کئی ایسی موبائل ایپلی کیشنز ہیں، جنھیں ڈاؤن لوڈ کیا جائے، تو وہ آپ کے ڈیٹا تک رسائی کی اجازت مانگتی ہیں اور ہم’’ ایکسیپٹ‘‘ یعنی’’ قبول ہے‘‘ پر کِلک کر دیتے ہیں، یوں آپ کا موبائل عملاً اُن کے پاس چلا جاتا ہے۔آگے اُن کی مرضی، وہ آپ کا ڈیٹا نظر انداز کریں یا اپنے کسی مقصد کے لیے استعمال میں لے آئیں۔ نیز، مختلف کمپنیز پر بھی صارفین کا ڈیٹا چوری کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں، مگر ثابت کچھ نہیں ہوا۔
پھر یہ کہ موبائل فون پر سوشل میڈیا کے استعمال میں بے احتیاطی سے بھی بعض اوقات پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو تو اِس معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ کون آپ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے؟ کون آپ کی پوسٹس دیکھ سکتا ہے؟ اِس طرح کی بنیادی باتوں کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے بھی بہت سی ایسی تصاویر یا مواد غیر متعلقہ افراد تک پہنچ سکتا ہے، جنھیں آپ محدود رکھنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح، فیس بُک یا واٹس ایپ گروپس کا حصّہ بننے سے قبل ایڈمن اور ممبرز کے بارے میں پوری معلومات نہ ہونے اور اندھے اعتماد کی بنیاد پر کی جانی والی پوسٹس بھی نہ جانے کہاں کہاں پہنچ جاتی ہیں۔
علاوہ ازیں، موبائل فونز میں ایسے سافٹ وئیرز بھی با ٓسانی چُھپائے جا سکتے ہیں، جن کی مدد سے موبائل پر ہونے والی ہر سرگرمی سے باخبر رہا جا سکتا ہے۔یہ سافٹ وئیر مارکیٹ میں دو، ڈھائی ہزار روپے میں دست یاب ہیں۔ پھر یہ بھی کہ آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں ، جہاں کمپیوٹرز کسی مرکزی نظام سے منسلک ہیں، تو اگر آپ اپنے موبائل کو کمپیوٹر سے منسلک کرتے ہیں، تو اِس صُورت میں بھی موبائل کا ڈیٹا دوسروں کی دست رَس میں جانے کا خطرہ ہے۔
ڈیٹا چوری ہونے سے کیا ہوتا ہے؟
آپ نے عمران خان سے متعلق اُن کی سابقہ اہلیہ، ریہام خان کی کتاب کا تو سُنا ہوگا۔ اس کتاب کا بیش تر مواد عمران خان کے اُس موبائل فون کے ڈیٹا پر مشتمل ہے، جو مبیّنہ طور پر ریہام خان اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔شاید یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ اس کتاب سے عمران خان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے دنوں گلوکارہ رابی پیرزادہ سمیت شوبز سے وابستہ چند خواتین کی نامناسب تصاویر اور ویڈیوز پبلک ہوئیں۔ اُن کے بارے میں بھی یہی کہا گیا کہ ایسا موبائل فون کا ڈیٹا ہیک ہونے سے ہوا۔اسی طرح حریم شاہ اور صندل خٹک کی موبائل فون پر وزراء کے ساتھ ہونے والی گپ شپ پبلک ہوئی، جس کی گونج آج بھی سُنائی دے رہی ہے۔
گو کہ ان مثالوں میں جس نوعیت کے مواد کا ذکر کیا گیا ہے، وہ موبائل کیا، کہیں بھی نہیں ہونا چاہیے، مگر ان مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیٹا کی حفاظت کس قدر ضروری ہے۔ آئے دن خواتین کو بلیک میل کرنے والوں کی گرفتاری کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان بلیک میلرز میں سے بیش تر وہ ہوتے ہیں، جنھوں نے موبائل فون ہی سے مواد حاصل کیا ہوتا ہے اور پھر اُس کی بنیاد پر خواتین کو پیسوں یا دیگر مذموم مقاصد کے لیے بلیک میل کرتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس صُورتِ حال کے سبب کئی ہنستے بستے گھرانے اُجڑ بھی جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ایک جاننے والے کے ساتھ پیش آیا۔ اُن کی ایک قریبی رشتے دار کو شادی کے محض دو ہفتے بعد ہی طلاق کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، جس کا سبب اُن کی وہ تصاویر تھیں، جو کسی نے سوشل میڈیا پر پھیلا دی تھیں۔ جب معاملے کی تحقیق کی گئی، تو پتا چلا یہ سب ایک فیس بُک فرینڈ کی وجہ سے ہوا۔ گزشتہ دِنوں تحقیقاتی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا’’ پچھلے دِنوں ہمارے پاس ایک عجیب نوعیت کا کیس آیا۔ بات کچھ یوں تھی کہ ایک بڑے نجی اسکول کے ساتویں کلاس کے طالبِ علم کی نہ جانے کیسے فیس بُک پر ایک شخص سے علیک سلیک ہوگئی۔
اُن کے درمیان میسیجز کا تبادلہ ہوتا رہا، پھر ایک روز اُس شخص نے بچّے کو کہا’’ اگر تم مجھے اپنی باڈی کے پرائیویٹ پارٹس کی تصاویر بھیج دو، تو بدلے میں تمھیں فلاں کھیل کے پوائنٹس دے دوں گا۔‘‘ پہلے تو بچّے نے انکار کیا، مگر پھر’’ ہاں، ناں‘‘ کے بعد بچّہ اُس شاطر شخص کی باتوں میں آگیا اور موبائل ہی سے مطلوبہ تصاویر بنا کر اُسے بھیج دیں ، جس کے ساتھ ہی وہ ایک تاریک جال میں پھنس گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُس کے ذریعے کئی اور بچّوں کو بھی اس گھناؤنے جال میں پھنسا لیا گیا۔ بچّے پڑھنے والے تھے، جب اُن کی پڑھائی میں دِل چسپی کم ہوئی، تو والدین کو فکر لاحق ہوئی۔ بچّوں کو کریدا، تو چکرا دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ قصّہ مختصر، ملزم پکڑا گیا۔‘‘ اس واقعے سے جہاں موبائل فون کے غلط استعمال کے نقصانات نمایاں ہوتے ہیں، وہیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ موبائل سے حاصل کیے گئے مواد کو کس طرح مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کاروباری افراد اور بعض اوقات ملازمت پیشہ بھی موبائل بینکنگ کی سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، یعنی وہ رقوم کی آن لائن ٹرانزیکشن کے لیے اپنے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر اُن کے پاس ورڈز کسی بھی طریقے سے کسی کے ہاتھ لگ جائیں، تو اُنھیں مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر اس بات کو محض مِزاح اور ذاتی تجربے کے طور پر نہ لیا جائے، تو یہ معاملہ بھی کم اہم نہیں کہ بعض اوقات شوہر بھی اپنے موبائل ڈیٹا کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کرتے ہیں کہ اگر اُس تک اہلیہ کی رسائی ہوگئی، تو آوازیں پورا محلّہ سُنے گا۔
ڈیٹا کیسے محفوظ کیا جائے؟
موبائل فون میں موجود مواد کی اہمیت، ڈیٹا چوری کے طریقوں اور مواد کی غلط ہاتھوں تک رسائی سے ہونے والے مسائل کے تذکرے کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ آخر ہم اپنے موبائل کو کیسے محفوظ بنا سکتے ہیں؟ دیکھیے! یہ کوئی ایسا پیچیدہ عمل نہیں کہ جس کے لیے بہت زیادہ مہارت کی ضرورت ہو۔ آپ کو اس حوالے سے کچھ بنیادی معلومات سے آگاہ رہنا اور اُس کی روشنی میں چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی، جن سے آپ کے موبائل کا ڈیٹا محفوظ ہو جائے گا۔ ایک عام اور آسان طریقہ تو محفوظ لاک اسکرین کا انتخاب ہے۔یعنی آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا فون خود بخود لاک ہوجائے اور پھر آپ کے آن کرنے ہی پر آن ہو۔ اس طرح اگر آپ فون کہیں چھوڑ جائیں، گم یا چوری ہوجائے، تو لاک اسکرین کی وجہ سے اس میں موجود مواد تک کسی اور کا پہنچنا مشکل ہوگا۔
لاک اسکرینز کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاس ورڈز کا استعمال کیا جاسکتا ہے، جو کچھ پیچیدہ سا ہونا چاہیے۔ اگر آپ اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے کہ بار بار کون پاس ورڈ لکھے، تو فنگر پرنٹس یا فیس اسکین کی سہولت سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ نیز، ان کے متبادل کے طور پر پیٹرن کا بھی استعمال کر سکتے ہیں، لیکن یہ ذرا مشکل ہونا چاہیے۔پھر یہ کہ آپ کو ہر اجنبی چیز سے دُور رہنا چاہیے۔ اجنبی افراد سے تو ہم عموماً فاصلہ رکھتے ہی ہیں، مگر موبائل فون کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی اجنبی کی جانب سے ای میل، واٹس ایپ یا کسی اور شکل میں بھیجے گئے لنک کو کِلک کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ ان غیر تصدیق شدہ لنکس کے ذریعے آپ کے ڈیٹا تک رسائی کا خطرہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں مختلف امور کی انجام دہی کے لیے ایپس کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم اس معاملے میں بھی بے حد احتیاط کی جانی چاہیے، کیوں کہ بسا اوقات ہیکرز ان ایپس کے ذریعے کوئی ایسا وائرس ہمارے موبائل میں بھیج دیتے ہیں، جس سے موبائل پر اُن کا کنٹرول ہو جاتا ہے۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف گوگل پلے جیسے قابلِ اعتماد ذرائع ہی سے کوئی ایپ انسٹال کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ ہم جب موبائل ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، تو بیش تر ایپس موبائل میں موجود نمبرز، تصاویر، کیمرے تک رسائی کی اجازت مانگتی ہیں اور ہم سوچے سمجھے بغیر اُنھیں اجازت دے دیتے ہیں۔
یوں ایپلی کیشنز کے ایڈمنز کی موبائل ڈیٹا تک رسائی ہوجاتی ہے۔اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم سِرے سے کوئی ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ ہی نہ کریں کہ تقریباً ہر ایک ہی موبائل ڈیٹا تک رسائی مانگتی ہے۔تاہم، ہمیں یہ عمل آنکھیں کھول کر انجام دینا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک تو وہی بات کہ گوگل پلے ہی سے ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کرنی چاہیے، پھر یہ کہ صرف وہی ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کریں، جس کی ضرورت ہو اور ضرورت پوری ہونے پر اُسے فوراً اَن انسٹال کردیں۔پھر یہ کہ آج کل ایسی ایپس بھی عام ہیں، جن کے ذریعے نہ صرف موبائل فون کے چوری، گم یا چھینے جانے کی صُورت میں اُس میں موجود مواد صاف کیا جاسکتا ہے، بلکہ موبائل کی لوکیشن اور جس شخص کے پاس وہ ہے، اُس کی حرکات و سکنات پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے، جس سے موبائل کی واپسی کا بھی امکان ہوتا ہے۔
تاہم، ایسی ’’ اینٹی تھیفٹ ایپلی کیشنز‘‘ قابلِ اعتماد ماہر ہی کی مشاورت سے اپنے موبائل میں انسٹال کریں۔علاوہ ازیں، ڈیٹا محفوظ رکھنے کا ایک بہتر طریقہ ’’ ایپ لاک‘‘ بھی ہے۔خاص طور پر یہ ایسی ایپس کے لیے تو ضرور استعمال کرنا چاہیے، جن میں آپ کا حسّاس ڈیٹا موجود ہو۔ اس لاک کے نتیجے میں صرف وہی شخص ان ایپس میں جھانک سکے گا، جس کے پاس ’’ پاس ورڈ‘‘ ہوگا۔نیز، اپنے موبائل کا ڈیٹا محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، تو اُسے کبھی مرمّت کے لیے دُکان دار کے پاس چھوڑ کر نہ آئیں۔خاص طور پر خواتین کو تو اِس معاملے میں ذرا سی بھی بے احتیاطی نہیں کرنی چاہیے کہ موبائل ریپئر کرنے والا کچھ اور کرے نہ کرے، تصاویر تو ضرور دیکھنے کی کوشش کرے گا۔ اِسی طرح کوئی سافٹ وئیر انسٹال کروانا ہو، تو وہ بھی اپنی آنکھوں کے سامنے ہی کروائیں۔
فون فروخت کررہے ہیں؟ ذرا ٹھہرئیے تو سہی…
فون پُرانا ہوگیا، ایک ہی سیٹ دیکھ دیکھ کر بے زار ہوگئے، نیا موبائل لینے کا بجٹ بن گیا اور اب آپ پُرانا فون بیچنا چاہ رہے ہیں،تو جلد بازی مت کیجیے، پہلے اچھی طرح تسلّی کرلیں کہ آپ کے فون میں موجودڈیٹا پوری طرح صاف ہو چُکا ہے اور اب کوئی اُس تک نہیں پہنچ پائے گا۔ نعمان حسن خان گزشتہ20 برس سے موبائل فونز کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور کراچی کی معروف’’ سرینا موبائل مارکیٹ‘‘ میں اُن کی دُکان ہے۔’’ کیا ڈیلیٹ کیا گیا ڈیٹا آسانی سے ری کور ہوجاتا ہے؟‘‘ اس سوال پر اُن کا کہنا تھا’’ اُس جی میل آئی ڈی کے بغیر ڈیلیٹ کیا گیا ڈیٹا ری کور نہیں کیا جا سکتا، جس سے موبائل فون کی سیٹنگ کی گئی تھی۔
تاہم، بعض لوگ مختلف سافٹ وئیرز کی مدد سے جی میل آئی ڈی بھی معلوم کرلیتے ہیں، لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘ اسی حوالے سے پاپوش نگر، خلافت چوک پر موبائل شاپ کے مالک، راحیل انصاری نے بتایا’’ ہمارے پا س پُرانے فون فروخت کرنے والے آتے ہیں، تو ہمارا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ’’ آپ نے اِسے صاف تو کردیا ہے ناں۔‘‘ دراصل اس میں فروخت کرنے والے کا تو فائدہ ہےہی، ہم بھی کئی طرح کی پنچائتوں سے بچ جاتے ہیں،کیوں کہ بعد میں کوئی انیس بیس ہوجائے، تو سب سے پہلے دُکان دار ہی لپیٹ میں آتے ہیں۔
ہمارے اِس سوال پر اکثر یہی جواب ملتا ہے ’’ جی ہاں! ہم نے موبائل ری سیٹ کردیا ہے۔‘‘ حالاں کہ اُنھیں اس بات کا علم نہیں کہ ری سیٹ کرنے کے بعد بھی موبائل میں ڈیٹا موجود رہتا ہے، جسے آسانی سے ری کور کیا جا سکتا ہے اور لوگ ایسا کرتے بھی ہیں۔‘‘ خود ہم بھی اپنے ایک دو موبائل فونز اِسی طرح ری سیٹ کرکے فروخت کر چُکے ہیں، اس لیے پریشان ہو کر پوچھا’’ تو پھر موبائل کو کیسے صاف کریں؟‘‘ اُنھوں نے جواباً بتایا’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ موبائل فروخت ہی نہ کریں، اُسے گھر میں پڑا رہنے دیں، مگر پھر بھی کسی مجبوری کی وجہ سے بیچے بغیر چارہ نہیں، تو ڈیٹا پوری توجّہ اور مہارت سے صاف کریں۔
عام طور پر ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے کے بعد موبائل میں فِری اسپیس نظر آنے ہی کو کافی سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ یہ کوئی محفوظ طریقہ نہیں۔ اِس طرح ڈیلیٹ کیا گیا ڈیٹا بہت آسانی سے دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بہتر طریقہ ڈیٹا کو انکرپٹ کرنا ہے، جس کے بعد اگر کوئی مواد ری کور بھی کرلے، تو اُسے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، کیوں کہ وہ مواد پڑھنے کے قابل نہیں ہوگا۔ آپ نے کرنا یہ ہے کہ سب سے پہلے موبائل کی Settings میں جائیں۔ Security پر ٹیپ کریں اور Encrypt Phone میں چلے جائیں۔ یاد رہے، اگر اس عمل کے دَوران موبائل کی بیٹری مکمل چارج نہیں ہوگی، تو اسکرین پر مکمل چارج کرنے کا پیغام آ جائے گا۔
لہٰذا، پہلے موبائل کو مکمل چارج کرلیں یا اُسے چارجنگ پر لگا دیں اور Encrypt Phone کے بٹن پر کِلک کردیں۔ پھر دوبارہ Settings میں آئیں اور سیدھے Backup & Reset پر چلے جائیں۔ Factory data reset کا آپشن نظر آئے گا، اُس پر ٹیپ کریں۔ آپ کے سامنے صاف ہونے والے ڈیٹا کی تفصیل آجائے گی۔ اب آخری مرحلے میں فون کو ری سیٹ کرنے کے لیے بٹن دبا دیں۔ کچھ ہی دیر میں موبائل صاف ہوکر واپس فیکٹری کنڈیشن پر آ جائے گا۔‘‘ ’’ مگر بعض موبائل فونز میں تو انکرپٹ کا آپشن ہی نہیں ہوتا؟‘‘ اس سوال پر اُنہوں نے بتایا’’ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
انکرپٹ کا آپشن نہ ہونے کی صُورت میں فون فیکٹری ری سیٹ استعمال کرنا ہوگا۔ مگر یاد رکھیں، اس طرح ڈیٹا ڈیلیٹ ہونے پر مطمئن نہ ہوجائیں، بلکہ اس عمل کے بعد اپنے موبائل میں اوٹ پٹانگ ڈیٹا بھر دیں، پھر فیکٹری ری سیٹ کریں۔ یہ عمل تین، چار بار دُہرائیں۔ اس سے ہوگا یہ کہ اگر کوئی ڈیٹا ری کور کر بھی لے، تو اُس کے سامنے اوور رائٹ کیا ہوا فضول مواد ہی آئے گا۔‘‘
بلیک میلرز سے تحفّظ کے لیے خواتین اور بچّوں کو اعتماد دیں
موبائل فون سے ڈیٹا چوری کے مختلف پہلو ہو سکتے ہیں، مگر یہ معاملہ اُس وقت انتہائی تشویش ناک صُورت اختیار کرلیتا ہے، جب اس مواد کے ذریعے کسی کو بلیک میل کیا جا رہا ہو۔ اور اگر متاثرین میں کوئی خاتون یا بچّہ ہو، تو پھر معاملے کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات میں عام طور پر خواتین اور بچّوں ہی کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
اگر متاثرہ فرد سے کسی کی چکنی چپڑی باتوں، اپنی نادانی، موبائل فون کے محفوظ استعمال سے عدم واقفیت کی وجہ سے کچھ غلط ہوگیا یا پھر وہ کسی قسم کی بلیک میلنگ، دھونس دھمکی کی زَد میں ہے، تو ہمارا کام اُسے اس پریشانی سے نکالنا اور اُسے سہارا دینا ہونا چاہیے، مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موبائل فونز کے متاثرین کسی کو اعتماد میں لینے کی بجائے حالات سے سمجھوتے ہی کو فوقیت دیتے ہیں اور یوں دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔
موبائل چوری، گم ہونے یا چھینے جانے کی صُورت میں کیا کیا جائے
اگر آپ کسی بھی طریقے سے اپنا موبائل فون گنوا بیٹھے ہیں، تو سب سے پہلے اپنی سِم بلاک کروا دیں،جس کے لیے سِم جاری کرنے والی کمپنی کی ہیلپ لائن سے بذریعہ فون رابطہ کرنا ہوگا۔ اس مرحلے سے فارغ ہو کر پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) کی ہیلپ لائن 0800-2526پر فون کر کے موبائل بلاک کروائیں۔
اس مقصد کے لیے سی پی ایل سی سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے، جس کا نمبر 1102 ہے، بلکہ زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ سی پی ایل سی ہی سے رابطہ کیا جائے، کیوں کہ وہ فون بلاک کرنے کے ساتھ، اُسے ری کور کرنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ یاد رہے، اس مرحلے پر ضروری ہے کہ آپ کو اپنے موبائل سیٹ کا ای ایم ای آئی نمبر یاد ہو، دوسری صُورت میں شکایت درج نہیں ہو پائے گی۔ نیز، فوری طور پر ای میل اور موبائل پر آن رہنے والی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز وغیرہ کے پاس ورڈز بھی تبدیل کر دیں۔
قانون کی مدد لینے سے مت ہچکچائیں
سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ڈیٹا چوری جرم ہے اور اگر کسی نے غیر قانونی طور پر آپ کے موبائل ڈیٹا سے کسی قسم کی چھیڑ خانی کی ہے، تو آپ اُس کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتے ہیں۔ تاہم، ہمارے ہاں اِس طرح کے معاملات کو راز میں رکھنے یا پھر اپنے طور پر نمٹانے کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کے سبب عام طور پر ملوّث افراد سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
اگر خدا نخواستہ آپ کا حسّاس ڈیٹا کسی کے ہاتھ لگ گیا ہے، خواہ اس کا سبب آپ کی غفلت، لاعلمی یا کوئی نادانی ہی کیوں نہ ہو، اور اب آپ کو بلیک میل کیا جا رہا ہے، تو اندر اندر گُھٹتے رہنے یا کسی کے ہاتھوں کھلونا بننے کی بجائے گھر کے کسی فرد یا دوست کو اعتماد میں لے کرقانون سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔
اس ضمن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے( ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے رجوع مفید رہتا ہے۔ آپ ایف آئی اے کی مدد کے لیے اُس کی ہیلپ لائن 9911پر کال کر سکتے ہیں، جب کہ helpdesk@nr3c.gov.pk پر میل کی جاسکتی ہے۔ نیز، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مُلک بھر میں 15 اسٹیشن ہیں، جہاں خود جاکر بھی درخواست دی جاسکتے ہیں۔