• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1920میں قائم ہونے والی لیگ آف نیشنز کی عالمی امن قائم رکھنے میں ناکامی اور دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے پر گزشتہ 26سال کے تلخ تجربات کی روشنی میں اقوامِ عالم نے آنے والے وقتوں میں نسلِ انسانی کو جنگوں کی تباہ کاریوں سے بچانے اور انصاف مساوات اور انسانی حقوق کی پاسداری پر مبنی پائیدار امن یقینی بنانے کے لئے اقوامِ متحدہ کے ادارے کی بنیاد رکھی تھی جس کے مقاصد میں جنگ و جدل روکنے کے علاوہ ایسے اقدامات بھی شامل تھے جن کے تحت تمام چھوٹی بڑی قوموں کی سلامتی کا تحفظ اور بنی نوع انسان کی سماجی ترقی اور بہتر معیارِ زندگی کا فروغ ممکن بنایا جا سکے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں جموں و کشمیر کا مسئلہ سامنے آیا۔ بھارت نے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا جس نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کشمیری عوام کو رائے شماری کے ذریعے حقِ خود ارادیت کے استعمال کا موقع دیا جائے وہ اپنی آزادانہ مرضی سے فیصلہ کریں کہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ بعد میں بھی کئی بار کونسل نے اس قرار داد کی توثیق کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتیں جن کا اپنا مفاد ہو تو برسوں اور مہینوں نہیں، دنوں میں اسرائیل، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان جیسی ریاستیں اسلامی دنیا کے نقشوں میں گاڑھ دیتی ہیں، اس قرار داد پر عمل کراتیں اور آج کشمیری عوام آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے مگر پاکستان اور بھارت میں تین بڑی جنگوں اور 72سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو آج بھی یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسئلہ پر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کیا جائے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے عالمی ادارے کے سربراہ پیش کش کر رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت چاہیں تو وہ دونوں ملکوں میں امن کی بحالی اور کشیدگی کے خاتمے کے لئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اپنے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد میں اقوامِ متحدہ کی بری طرح ناکامی کا واضح اعلان نہیں تو کیا ہے؟ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ہے جو بذاتِ خود اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کے فیصلوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس نے 200دنوں سے مقبوضہ ریاست کے 80لاکھ انسانوں کو لاک ڈائون کے ذریعے یرغمال بنا رکھا ہے اور 9لاکھ بھارتی فوج سرچ آپریشنز کے نام پر ان کا قتل عام کر رہی ہے۔ عالمی برادری اس حقیقت کا اعتراف تو کرتی ہے مگر بھارت پر دبائو ڈالنے کے لئے کوئی عملی کارروائی نہیں کرتی، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے بنیادی حقوق کا ویسا ہی احترام کرے جیسا پاکستان آزاد کشمیر میں کررہا ہے اور مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرے مگر یہ زبانی جمع خرچ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باہمی ملاقات کے دوران انتونیو گوتریس کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جابرانہ اقدامات، ایل او سی اور ورکنگ بائونڈریز پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیزیوں اور جنگ کی دھمکیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کیا اور وزیراعظم عمران خان بھی اس معاملے کی نزاکت واضح کر چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار ثالثی کی پیشکش کی ہے بشرطیکہ بھارت بھی آمادہ ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی قرار داد بھارت ہی کی درخواست پر منظور ہوئی تھی اب یہ معاملہ اس کی صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے اس پر عملدرآمد کرائے اور مظلوم کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت دلائے۔

تازہ ترین