• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افسران کا تقرر میرٹ پر کیا جاتا ہے، وزارت اوورسیز پاکستانیز

اسلام آباد (بیورو رپورٹ) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوور سیز پاکستانیز ذلفی بخاری نے دی نیوز میں 14؍ فروری کو شائع ہونے والی خبر ’’پرتعیش غیر ملکی اسامیاں، حکومت کی میرٹ پر صوابدید کو ترجیح‘‘ کے حوالے سے وضاحت جاری کی ہے جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ ’’اوورسیز پاکستانیوں کی خدمت کیلئے حکومت کمیونٹی ویلفیئر اتاشیوں (سی ڈبلیو ایز) کی بھرتی کے معاملے میں صوابدید کی بجائے میرٹ کو ترجیح دیتی ہے، ان افسران کو دنیا بھر میں غیر ملکی مشنز میں پاکستان کے اہم سفیر کی حیثیت سے مقرر کیا جاتا ہے اور ان کا اہم ترین کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو انسانی بنیادوں پر معاونت فراہم کریں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کیلئے احساس کی اتنی ہی ضرورت پیش آتی ہے جتنی سفارتکاری کیلئے درکار ہوتی ہے، انتخاب کا عمل بہت ہی سخت ہوتا ہے اور ساتھ ہی اسکریننگ پراسیس بھی، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے سابقہ حکومتوں نے برسوں سے نظرانداز کیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیز کیلئے وزیراعظم کے خصوصی معاون ذلفی بخاری نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخاب کے مفصل طریقہ کار کو متعارف کرایا ہے اور اس طرح وہ وزیراعظم عمران خان کے ’’درست عہدے کیلئے درست شخص‘‘ ویژن پر عمل پیرا ہیں۔ 2016ء سے قبل، سی ڈبلیو ایز کا انتخاب صوابدیدی معاملہ سمجھا جاتا تھا اور اس عہدے پر دفتر میں بیٹھا شخص جسے مناسب سمجھتا تھا اسے مقرر کر دیتا تھا۔ سلیکشن پالیسی متعارف کرائے جانے کے باوجود درست شخص کو چھان کر سامنے لانے کا فقدان پایا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرٹ کی عدم موجودگی میں سی ڈبلیو ایز کو ہیرا پھیری کرکے مقرر کر دیا جاتا تھا جبکہ اوور سیز پاکستانیوں کی مشکلات اور پریشانیاں برقرار ر ہیں اور سی ڈبلیو ایز ان کی کوئی مدد و معاونت نہیں کرتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس وزارت میں آگہی مہم اور سلیکشن پراسیس میں تبدیلی کی تجویز پیش کیے جانے سے قبل، کئی اوور سیز پاکستانیوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ سی ڈبلیو ایز کا عہدہ بھی ہوتا ہے۔ جون 2019ء میں مختلف ممالک سے 17؍ سی ڈبلیو ایز اپنی تین سالہ مدت مکمل کرکے پاکستان واپس آنا تھے۔ 2016ء میں منظور کردہ پالیسی کے مطابق، نئے بیچ کیلئے انتخاب کا عمل اگست 2018ء میں شروع کیا گیا۔ سابق بیچ میں ہونے والی تقرریوں میں پائی جانے والی خامیوں کو دیکھتے ہوئے وزارت اوور سیز پاکستانیز اینڈ ہیومن ریسورسز نے 11؍ دسمبر 2018ء کو سلیکشن کے عمل میں تبدیلی کی تجویز پیش کی تھی۔ وزارت اور بیرون ممالک پاکستانی مشنز کو ہمیشہ سے ہی کم اسٹاف اور ملازمت کیلئے مطلوبہ اہلیت کے مقابلے میں غیر موزوں ہنر رکھنے والے سی ڈبلیو ایز کی بھرتی کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ ان میں سے ایک مثال متحدہ عرب امارات کی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ پاکستانی کمیونٹی قیام پذیر ہے، یہاں محنت کش طبقہ زیادہ ہے لیکن ان کیلئے صرف تین سی ڈبلیو ایز کام کر رہے ہیں۔ مزید برآں، یہ سی ڈبلیو ایز کا کام ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ جیلوں اور لیبر کیمپوں کا دورہ کریں، یہاں رابطہ کاری میں مشکلات ہوتی ہیں اور ثقافتی فرق بھی پایا جاتا ہے۔ وزارت نے تجویز پیش کی کہ ان عہدوں پر مناسب و موزوں افراد کو بھرتی کیا جائے جن کا کردار ایسا ہو کہ انہیں پبلک ڈیلنگ میں خصوصی تربیت حاصل ہو۔ آبادی کے تناسب کو مد نظر رکھتے ہوئے سی ڈبلیو ایز کی تعداد بڑھانے کی بھی تجویز پیش کی گئی جن میں سے سعودی عرب میں موجودہ تعداد 4؍ سے بڑھا کر 6؍ کرنے اور قطر میں ایک سے بڑھا کر 2؍ کرنے کا منصوبہ تھا۔ سلیکشن کے عمل میں تبدیلی کے حوالے سے دیکھیں تو وزارت نے تجویز دی کہ کسی بھی امیدوار کی قابلیت معلوم کرنے کیلئے زمینی سطح پر اس کی کارکردگی کے مقابلے میں صرف تحریری ٹیسٹ غیر موزوں طریقہ ہے۔ لہٰذا، وفاقی کابینہ کو یہ تجویز پیش کی گئی کہ تحریری ٹیسٹ کے ساتھ ایک پینل انٹرویو کا انتظام بھی ہونا چاہئے اور اس مقصد کیلئے ایک اعلیٰ سطح کا پینل تشکیل دیا جائے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے جہاں سرکاری و نجی شعبوں میں انٹرویو کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، حتیٰ کہ سی ایس ایس کے امتحان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ تحریری ٹیسٹ میں میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کو یقینی بنانے کیلئے یہ تجویز پیش کی گئی کہ یہ ٹیسٹ بین الاقوامی ساکھ کے حامل تیسرے فریق سے منعقد کرائے جائیں۔ پالیسی کے تحت 12؍ دسمبر 2018ء کو آئی بی اے اور ایل یو ایم ایس سے رجوع کیا گیا۔ اس ضمن میں ایل یو ایم ایس نے ٹیسٹ کے انعقاد کیلئے 90؍ لاکھ روپے جبکہ آئی بی اے کراچی نے 22؍ لاکھ روپے کے مالی اور تکنیکی اخراجات کا تخمینہ پیش کیا۔ یہ ٹھیکہ وزارت کی جانب سے کم بولی لگانے والے ادارے کو دیا گیا۔ ٹیسٹ میں 410؍ امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سے صرف 11؍ پاس ہوئے، یہ تعداد دستیاب اسامیوں کے مقابلے میں بہت کم تھی اسلئے یہ تجویز پیش کی گئی کہ معیار پر سمجھوتا کیے بغیر باقی ماندہ اسامیوں کیلئے نیا پراسیس شروع کیا جائے۔ وزیراعظم نے 3؍ جنوری 2019ء کو پینل انٹرویو کی تجویز منظور کی جس کے بعد اعلیٰ سطح کا ایک پینل تشکیل دیا گیا جس میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، سیکریٹری اوور سیز پاکستانیز، سیکریٹری خارجہ، ایڈیشنل سیکریٹری پی ایم آفس اور جوائنٹ سیکریٹری امیگریشن اینڈ او پی کو شامل کیا گیا تاکہ انٹرویوز کے ذریعے امیدواروں کی اسکریننگ کی جا سکے۔ وفاقی کابینہ کے متفقہ فیصلے کے تحت معاون خصوصی ذلفی بخاری کو سلیکشن بورڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں وزیراعظم کی جانب سے سی ڈبلیو ایز کے انتخاب کا اختیار ذلفی بخاری کو مل گیا جس میں خصوصی طور پر رولز آف بزنس 1973ء کے تحت اقدام کرنا تھا۔ وزارت کو اس سے پہلے یہ مسئلہ درپیش تھا کہ سی ڈبلیو ایز کو ان کے تحریری ٹیسٹ کے اسکور کے مطابق پوسٹنگ دی جاتی تھی نہ کہ ان کے اس کردار میں موزونیت کے مطابق۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھیں تو خلیجی ممالک میں پاکستانی کمیونٹی کی تعداد بہت زیادہ ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عہدے پر کام کی نوعیت سخت ہوگی۔ تاہم، پہلے یہ ہوتا تھا کہ تحریری ٹیسٹ میں زیادہ نمبر لینے والے امیدوار امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک میں پوسٹنگ لینے کو ترجیح دیتے تھے۔ وزارت نے اس طریقہ کار میں تبدیلی کی تجویز پیش کی کیونکہ ٹیسٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو ایسی جگہ تعینات کرنا جہاں ان کی ضرورت کم ہے بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی ٹیم میں ٹاپ بیٹسمن کو گیارہویں نمبر پر کھلایا جائے وہ بھی صرف اسلئے کیونکہ وہ ایسا چاہتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ یہ اسکریننگ پراسیس اسلئے ہے کہ منتخب ہونے والے افسران اوور سیز پاکستانیز کی وزارت میں کام کریں نہ کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے تین سال کیلئے بیرون ملک چھٹی پر چلے جائیں۔ موجودہ اسکریننگ پراسیس میرٹ پر کیے جانے والے انتخاب کی ایک مثال ہے، ساتھ ہی یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ منتخب ہونے والا امیدوار مخصوص مقام پر خدمات انجام دینا بھی چاہتا ہے یا نہیں۔ کچھ امیدواروں نے انتخابی عمل کو عدالت میں چیلنج کر دیا کیونکہ یہ لوگ پینل انٹرویوز میں ناکام ہو گئے تھے۔ ان امیدواروں سے ہٹ کر دیگر امیدواروں کی اسکریننگ سلیکشن پالیسی کے تحت کی جا رہی ہے۔ اس پالیسی کی منظوری وفاقی کابینہ نے دی تھی جس میں اچھی اور بین الاقوامی ساکھ کے حامل تیسرے فریق ادارے کے تحت تحریری انٹرویو کی اہمیت 60؍ فیصد جبکہ پینل انٹرویو کی اہمیت 40؍ فیصد رکھی گئی تھی جس میں صوابدیدی اختیار کا عمل دخل بالکل نہیں۔ یہ حکومت میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اعلیٰ سطح کے پینل انٹرویو کے ذریعے کسی بھی سی ڈبلیو اے امیدوار کی صلاحیتوں کی جانچ کی گئی، یہ بھی دیکھا گیا کہ اس میں پبلک ڈیلنگ کی کتنی صلاحیت ہے اور ساتھ ہی وہ مختلف زبانوں میں تبادلہ خیال کر سکتا ہے یا نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 3؍ جنوری 2019ء کو معاون خصوصی ذلفی بخاری کو تفویض کردہ اختیارات کی روشنی میں وزارت کیلئے یہ لازم تھا کہ وہ عہدے کیلئے موزوں اور بہترین امیدوار کو منتخب کرے نہ کہ امیدوار کی خواہش کے تحت کوئی صوابدیدی فیصلے کرے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اس منشور کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ اداروں اور طریقہ کار کو مضبوط بنایا جائے گا، یہ واحد مثال ہے کہ ڈھانچہ جاتی بہتری کیلئے کام کیا گیا ہے اور ہر کام کیلئے کتنا تفصیلی اور بہترین کام کیا جا رہا ہے۔‘‘
تازہ ترین