• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچا کون، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات

اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات


کراچی (ٹی وی رپورٹ) کون سچا اور کون جھوٹا ہے ؟۔ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں اٹارنی جنرل انورمنصور خان کے ججزپر الزامات کے معاملے پر وفاقی وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم اور انورمنصور خان آمنے سامنے ‘ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگادیئے۔

انورمنصورخان کا کہنا ہے کہ ججز پر الزامات سے متعلق ان کا بیان حکومت کا مؤقف تھا اور حکومت کے لوگ اس سے آگاہ تھے ‘ان سے کسی نے استعفیٰ نہیں لیا بلکہ وہ پاکستان بارکونسل کے مطالبے پر مستعفی ہوئے ہیں ۔

دوسری جانب فروغ نسیم نے کہا ہے کہ انورمنصورخان کا موقف مکمل جھوٹ ہے کہ ججوں سے متعلق ان کے الزام کا ہمیں پہلے سے پتا تھا‘حکومت کا ان الزامات سے کوئی تعلق نہیں ‘ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں اٹارنی جنرل کی کارکردگی اچھی نہیں تھی ‘انورمنصور خان نے اپنی خراب پرفارمنس سے ججوں کو غصہ دلایا‘انورمنصور خان سے حکومت نے استعفیٰ لیا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق جمعرات کو جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں میزبان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان کا موقف مکمل جھوٹ ہے کہ ججوں سے متعلق ان کے الزام کا ہمیں پہلے سے پتا تھا‘میں انور منصور خان کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ الٹی بات کررہے ہیں،ججوں سے متعلق نامناسب ریمارکس انہی کی اختراع تھے‘ حکومت کا نہ ان الزامات سے تعلق ہے نہ ہمیں اس بارے میں کچھ پتا تھا، اگر انہوں نے ہمیں بتایا ہوتا تو کوئی بھی ذی شعور شخص انہیں یہ بات نہیں کرنے دیتا۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ عدالت میں جب وکیل دلائل دے رہا ہوتو دوسرے لوگ اچانک مداخلت نہیں کرسکتے ‘انور منصور خان نے عدالت میں جب یہ بیان دیا تو ہمیں دھچکالگا‘ہم شروع میں ان کا یہ آرگومنٹ سمجھے ہی نہیں تھے، بنچ نے انور منصور خان سے اس پر سوال کیے تو انہوں نے اپنی بات واپس لی‘میں عدالت میں بطور وزیر قانون نہیں ذاتی حیثیت میں موجود تھا، ججوں سے متعلق انور منصور خان کی بات حکومتی سطح پر طے شدہ نہیں تھی‘یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں انور منصور خان کی کارکردگی اچھی نہیں تھی‘انہوں نے اپنی خراب کارکردگی سے ججوں کو غصہ دلادیا تھا، عدالت نے بھی انہیں کہا کہ آپ تیاری کر کے آئیں۔ 

دریں اثناء ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انورمنصورخان نے حکومت کی جانب سے ان سے استعفیٰ لئے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری وزیراعظم عمران خان ‘وزیرقانون فروغ نسیم سمیت حکومت میں کسی سے بات نہیں ہوئی ہے ‘اگر وہ کہہ رہے ہیں استعفیٰ لیا ہے تو کسی نے مجھ سے بات کی ہوگی اوراگر کسی نے نہیں کی تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجھ سے استعفیٰ لیا گیاہے ۔

انورمنصور خان کا کہنا تھاکہ انہوں نے پاکستان بار کونسل کے مطالبے پر استعفیٰ دیاہے اور اس حوالے سے انہوں نے کسی حکومتی اہلکار سے بات نہیں کی ‘عمران خان کو بھی آگاہ نہیں کیا‘استعفیٰ کا فیصلہ میرا اپنا تھا اور میں اپنے فیصلوں میں کسی کو شامل نہیں کرتا ۔

اس سوال پر کہ کیا ججوں پر الزام سے متعلق حکومت نے آپ کو بریفنگ یا احکامات دیئے تھے ،انورمنصور خان نے جواب دیاکہ دلائل کے بعد میری فروغ نسیم اور شہزاد اکبرکے ہمراہ باہرنکلنے کی ویڈیودیکھ لیں پتہ چل جائیگا یہ حکومت کا مؤقف تھا یا نہیں ۔ 

انورمنصور خان نے واضح کیا کہ ججوں سے متعلق انہوں نے جو دلائل دیئے وہ حکومت کا مؤقف تھا اور حکومت میں موجود ہر شخص اس بات سے آگاہ تھا ۔حکومت کی طرف سے یہ تمام باتیں مجھے بتائی گئیں تھیں جس کا مقصد یہ تھا میں کسی بھی سطح پر اس کا فائدہ اٹھاؤں۔

اپنے بیان کا دفاع نہ کرنے سے متعلق سوال پر اٹارنی جنرل نے بتایاکہ اگر میں کسی کا نام لے لیتاتو ایک نیا تنازع کھڑا ہوجاتا ‘اس لئے میں نے اپنا بیان واپس لے لیا تاکہ اداروں کی ساکھ خراب نہ ہو۔

ان کا مزیدکہناتھاکہ جب کوئی بات ہوتی ہے تو اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ‘میں اپنے استعفیٰ میں بہت ساری باتیں لکھ سکتا تھا مگر ساتھیوں نے کہا کہ اس بات کو ختم کریں ورنہ میں اس بات کو آگے بھی بڑھا سکتا تھا ۔میں نے اس سارے معاملے کا پس منظر نہ بتاکر اس پر پردہ ڈال دیاہے ۔

تازہ ترین