• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم صاحب !اس مرہم سے زخم نہیں بھرے گا

ایک زمانہ تھا حکیم مرض کو جڑ سے ختم کرنے کی دوا دیتے تھے آج کے حکیم سٹیرائڈز اور فوری درد ختم کرنے کی دوا دیتے ہیں،حکمران بھی قوم کے حکیم ہوتے ہیں، انہیں چاہئے کہ تشخیص کے بعد ایک جامع علاج شروع کریں، قرضے، وظیفے، انڈے، مرغیاں، گائے، بھینس اور بکریاں دیگر کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔نظام کو درست کیا جائے، ذرائع ابلاغ کو اعتماد میں لیکر ایک ایسا پروگرام دیا جائے جسے میڈیا نسیم و صبا کی طرح مثل بہار چلے، ملک سے خزاں ختم ہو خوشحالی کا موسم آئے، یہ وہم بھی دماغ سے نکال دیا جائے کہ میڈیا میں مافیا سرگرم مخالفت حکومت، تنقید اور مخالفت میں فرق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، تعلیم، صحت اور عام آدمی کی ہر سہولت گزربسر کیلئے انقلابی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جائے، آج کے مسائل 15صدیاں پہلے جیسے نہیں، اب تو دریا کے کنارے کیا گلی کوچوں میں انسان سسک رہے ہیں اسپتالوں میں غریب جاتے ہیں امراء تو باہر سے علاج کراتے ہیں، مفت علاج کا اعلان کیا جائے، مفت تعلیم عام کرنے کیلئے حکومت سرکاری تعلیم گاہوں کا جال بچھانے کا کام شروع کرے، تعلیم کو منافع در منافع کاروبار بنانے والے خود بخود اپنے نرخ( فیسیں) کم کر دینگے، چیک اینڈ بیلنس کا نظام مستقل بنیادوں پر کھڑا کیا جائے، وقتی چھاپوں ،پکڑدھکڑ سے ماسوا اس کے کچھ نہیں ملتا کہ انتظامی اداروں کی چاندی ہو جاتی ہے میڈیا کی تنقید مرہم ہے حکومتی زخموں کیلئے جو گھائو بنتے جا رہے ہیں۔ جائیداد میں اب تک کتنی خواتین کو حصہ مل گیا ہے ان کے کوائف میڈیا کے حوالے کئے جائیں، جامع رپورٹ یا مشاہدہ تو یہ ہے کہ حکومت کو ووٹ دینے والے پچھتا وے کا سرعام اظہار کر رہے ہیں، یوٹیلٹی سٹوروں میں ارزانی لانے کے بجائے پوری کھلی مارکیٹ کو کنٹرول کیا جائے لوگوں کو وظیفے دینے کی جگہ روزگار دیا جائے، بھکاری نہ بنائیں وظیفہ خوار پیدا نہ کریں کمائو پتر پیدا کریں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

بنیادی طور پر عشق ایک قسم کی بیل عشقہ سے نکلا ہے، یہ بیل اپنی زرد زلفوں کی لپیٹ میں لیکر ہرے بھرے درخت کو اُلوئوں کا ٹھکانہ بنا دیتی ہے، گویا یہ بربادی کا نشان بن جاتا ہے، اگر عشق کو محبت سے بدل دیا جاتا تو بہتر نتائج نکلتے، عربی زبان میں لفظ عشق، بازاری ہے، یہی وجہ ہے کہ آج جو بھی اظہار عشق کرتا ہے وہ دوسرے کا بیڑہ غرق کر دیتا ہے۔ عشق کو محبت کا جامہ فارسی زبان کے شعراء نے پہنایا جو آج تک کسی جسم پر فٹ نہیں بیٹھا، قرآن حکیم نے کہیں لفظ عشق استعمال نہیں کیا، حُب کا لفظ ہی محبت کیلئے استعمال کیا اور اس کے مشتقات پر انحصار کیا۔ غالب جیسے عربی، فارسی، اردو پر قدرت رکھنے والے شاعر نے عشق، عاشقی اور معشوق سے اپنی شاعری میں خوب کام چلایا رومی نے بھی کہا عشق پہلے معشوق کے دل میں پیدا ہوتاہے، گویا یہ فتنہ روح فرسا دراصل محبوب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، جبکہ حُب یا محبت، محب کا حق ہے بہرحال محبت کرنے والوں سے محبت چھین کر محبوب کو دے دینا محبانِ مخلص کو کنگال کرنے کے مترادف ہے، ہمارے ادب میں بہت سے الفاظ کو غلط معانی دیکر کام چلایا جاتا ہے، بہرحال لفظ عشق نے جس قسم کے عشاق پیدا کئے انہوں نے خود کو بھی اور معشوق کو بھی زرد چہرہ بنا دیا، اور یہ بھی اس لفظ کی دین ہے کہ اکثر عاشق جھوٹے اور ہوس پرست ہوتے ہیں، ہمارے جیسوں نے اس ملک سے عشق کیا اس کے نتیجے میں ملک کی حالت آپ کے سامنے ہے، خودشاعروں نے بھی اسے عشق خانہ خراب قرار دیا، غم پرستی، ہجر کا شوق، زندگی برباد کر لینا کیا کوئی فائدہ مند فعل ہے؟ بلکہ اس عشق رائج الوقت نے آج ہمارا دیوالیہ نکال دیا ہمارا خیال ہے کہ کسی بھی عاشق سے ہوا نکال دی جائے تو وہ معشوق کا نام سنتے ہی منہ دوسری جانب پھیرے لے، اکثر عاشقوں کے اپنے گھر تباہ ہو جاتے ہیں اور غالب بھی یوں کہتے تو قرین قیاس ہوتا؎

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

گھر کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

٭٭ ٭ ٭ ٭

ہم ہر رنگ میں عریاں نکلے

ہولناک خبر ہے کہ بہنوئی کی محبت کی خاطر 29سالہ صبا نے بڑی بہن صائمہ کو برطانیہ میں چھری کے 68وار کرکے قتل کیا، اس دلدوز واقعے پر ڈاکیومینٹری فلم بھی منظر عام آ چکی ہے، برطانیہ میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے سب نہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو ننگ، اسلاف پر مبنی کام کرتے ہیں، اس خبر کی تفصیلات پڑھی جا سکتی ہیں نہ فلم کے پردے پر دیکھی جا سکتی ہیں، حیرانی ہے کہ بہنوئی صاحب کے بارے میں راوی خاموشی نہیں لکھتا ، تفصیلات بیان کرتا ہے اکثر سنتے ہیں بیرونی ممالک میں گرین پاسپورٹ کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، گو پاسپورٹ کی بےحرمتی ہوتی ہے تو پاکستانیوں کی کس قدر عزت افزائی ہوتی ہو گی، آخر اتنا احترام پاکستانی تارکین وطن کا ہی کیوں کیا جاتا ہے ؟اس سوال کے جواب سے کوئی آگاہ نہیں پھر ہم کیوں اس جانب کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے، برطانیہ میں مقیم کمیونٹی میں کئی سربرآوردہ افراد موجود ہیں وہ پاکستانیوں کو پردیس میں اپنی قومی عزت اور وقار کا خیال رکھنے کیلئے کوئی ایسا سیل قائم کریں جس سے گرین پاسپورٹ اور اس کے ہولڈر کےساتھ بدسلوکی نہ ہو،کراچی کی رہنے والی یہ دونوں سگی بہنیں برطانیہ کے شہر لوٹون میں رہائش پذیر تھیں ،چھوٹی بہن بہنوئی کو اور بہنوئی چھوٹی سالی کو حاصل کرنا چاہتا تھا، قتل کے وقت بڑی بہن صائمہ اپنے چار بچوں کے ساتھ اپنے کمرے میں سو رہی تھی ،اگر ہم بُرا نہ مانیں تو یہ مان جائیں کہ ہماری اخلاقیات کب کی رخصت ہو چکیں۔بہرحال عشق نے کیا کیا ڈرائونے خواب دکھائے کہ صبا نے اپنی بڑی بہن کوبرائے حصول بہنوئی قتل کر دیا کیا اب ہم یہ موقف اختیار نہ کرلیں کہ

بھولے سے بھی کرنا نہیں پیار کوئی ،

٭٭ ٭ ٭ ٭

وغیرہ وغیرہ

٭...یورپ میں نفرت پر مبنی میوزک سفید فام شدت پسندی کا باعث۔

کیا موسیقی میں بھی نفرت کا سرُہوتا ہے؟

٭...بسنت بہار کا پہلا تحفہ مبارک ہو

مصری شاہ میں نوجوان کے گلے پر ڈور پھر گئی،

٭...ہم نے شریعت کو اتنا زیادہ سمجھ لیا ہے کہ اپنے بچے اپاہج کر بیٹھے ۔

اچھا ہوا علماء کرام اور مشائخ عظام نے پولیو ویکسین کو حلال قرار دیدیا ہے، ہماری گزارش ہے کہ بالخصوص کے پی کے اور باقی صوبوں کی تمام مساجد میں جمعتہ المبارک کےاجتماعات میں خطیب پولیو کے قطرے پلانے کو شرعی فریضہ کے طور پر بیان کریں، صرف فتوے سے کام نہیں چلے گا۔

٭...جلسوں میں کمپیئرنگ کرنے والے سینیٹر فیصل جاوید کرکٹ کمینٹیٹر بن گئے۔

آگے آگے دیکھئے کہ وہ کیا کیا بنتے ہیں، باقی سینیٹرز لمحہ فکریہ کو آواز دیں۔

٭...ہالینڈ نے 21سال قبل چوری ہونے والا شاہی تاج ایتھوپیا کے حوالے کر دیا۔

ایتھوپیا کی بھوک تو اس سے نہیں مٹے گی مگر ہالینڈ کی چوری تاریخ میں زندہ رہے گی۔

تازہ ترین