ہماری قومی تاریخ میں 27 فروری 2019 ءکا دن مادرِ وطن کے دفاع کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے جب پاک فضائیہ کے جانباز شاہینوں نے دشمن کے جارحانہ عزائم کو ناکام بناتے ہوئے اپنے تیزرفتار اور موثر ردعمل سے دنیا کو حیران کردیا۔
گزشتہ برس بھارت میں قومی انتخابات میں ایک بار پھر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو انتخابی مہم کے طور پر استعمال کیا گیا،اپنے وقتی مفاد کی خاطر دونوں ممالک کے مابین سرحدی کشیدگی کوبڑھاوا دیا گیا، پلواما حملے کی آڑ میں پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا کھلم کھلا اظہار کیا جانے گا۔
ایسے نازک حالات میں جب مجھے کمبھ میلے میں شرکتہ کیلئے بھارت جانے کا موقع ملا تو میں نے علاقائی امن کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کی ٹھانی ،میری دارالحکومت نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ آنجہانی سشما سوراج اور امور خارجہ کے وزیر مملکت سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ سمیت دیگر حکومتی ، غیرسرکاری، میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں ۔
میں نے وہاں ہر فورم پر اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے، میں پاکستان کی جانب سے امن کا پیغام لے کر بھارت آیا ہوں، دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کو ایک نہ ایک دن مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔
بہتر ہے کہ ہم دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے امن کا راستہ اختیار کریں۔قیام امن کیلئے میری کاوشوں کو خود بھارت کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ ڈاکٹر رمیش کمارنے بھارتی حکمرانوں سے ملاقاتیں کر کے پاک بھارت کشیدگی ختم کرنےکی امید کی کرن روشن کردی ہے۔
میں نے بھارت کے لوگوں کو مہاتما گاندھی جی کے حوالے سے یاد دہانی کرائی کہ برصغیر کے دونوں ممالک برطانوی سامراج کے خلاف کامیاب جدوجہد آزادی کی تابناک تاریخ کے حامل ہیںلیکن وہ فراموش کردیتے ہیں کہ تقسیم ہند کا اصل مقصد دو متحارب دشمن ریاستیں تخلیق کرنانہیں تھا بلکہ دونوں آزاد ممالک کے مابین باہمی احترام کا رشتہ استوار کرنا، عدم استحکام سے گریز کرنا اور عوام کیلئے خوشحالی یقینی بنانا تھا۔
اگر دونوں ممالک کی قیادت ٹھنڈے دل سے غور کرے تو ترقی و خوشحالی سے دوری کی بڑی وجہ عوام کی بنیادی سہولتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے علاقائی تنازعات میں الجھنا اور مخالفانہ رویہ ہے۔میں نے بھارتی میڈیا کو انٹرویوز میں بھی واضح کیاکہ ہم بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں۔
ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال کی جائے،بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ کچھ شدت پسند عناصر دونوں ممالک میں روز اول سے سرگرم ہیں جن کا مقصد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نفرت کے ایجنڈے کو پروان چڑھانا ہے۔
دہشت گردی کے عفریت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے جس کی بہادر افواج اور عوام آج بھی قربانیاں دے رہے ہیں، بھارت کو بے بنیاد الزام تراشی اور مذاکرات سے فرار حاصل کرنے کی بجائے پاکستان سے تعاون کرنا چاہئے۔
افسوس ،بھارتی قیادت نے ہوش کے ناخن لینے کی بجائے طاقت کا راستہ اپنانے کی کوشش کی لیکن پاکستان ایئرفورس کے ردعمل نے ساری دنیا کو حیران کردیا۔
بھارت کی جانب سے 26فروری 2019ءکورات کی تاریکی میں بالا کوٹ میں مشکوک فضائی آپریشن کیا گیا اور بھارتی طیاروں نے جنگل میں پے لوڈ پھینکا۔اپنے فوری ردعمل میں پاک فضائیہ نے چوبیس گھنٹے کے اندر بھارت کے دو طیارے مار گرائے جبکہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھی زندہ حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو بحفاظت وطن واپس روانہ کرتے ہوئے ایک بار پھر امن کا پیغام بھیجا ۔
آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے وقت بھارت کا دورہ کررہے ہیں جب اس واقعے کو ایک برس گزر گیا ہے لیکن دونوں ممالک کے مابین کشیدگی دور نہیں ہوسکی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے، گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان مخالفانہ اقدامات سے ووٹ تو حاصل کئے جاسکتے ہیں لیکن اپنے عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے خطے میں امن ضروری ہے۔بھارت ایک عرصے سے پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث کرنے کے الزام لگا کر عالمی برادری کو گمراہ کرتا آیا ہے لیکن آج خطے کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
بھارت کے جارحانہ عزائم اور نفرت انگیز پالیسیوں نے پورے ملک میںآگ لگا دی ہے، ہر سمجھدار شہری متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر ہے جبکہ بھارتی حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے حالات پر قابو پانے کی ناکام کوشش کررہی ہے، جبکہ مقبوضہ وادی کشمیر کا رابطہ گزشتہ سات ماہ سے باقی دنیا سے منقطع ہے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو گزشتہ ایک برس کے دوران بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی حوالگی کے بعد عالمی برادری نے پاکستان کے قیام امن کیلئے کلیدی کردار کو تسلیم کیا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت امریکی صدر ٹرمپ کا بھارتی سرزمین پر کھڑا ہوکر پاکستان کیلئے تعریفی کلمات ادا کرنا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت مختلف عالمی رہنماء اپنے دورہ پاکستان کے دوران قیام امن کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو سراہ رہے ہیں۔
اسی طرح امریکہ، برطانیہ سمیت متعدد مغربی ممالک اپنے شہریوں کیلئے پاکستان کے سفر پر عائد پابندیاں اٹھانے کا اعلان کررہے ہیں۔ بھارت ایک طرف اپنے آپ کو سیکولر ، امن پسند اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے جبکہ دوسری طرف طاقت کے نشے میں اپنے پڑوسی ملک اور نہتے اقلیتی مسلمانوں کو برداشت کرنے کا روادار نہیں۔
بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ آج سپرپاور امریکہ بھی امن کی خاطر افغانستان میں جاری انیس سالہ طویل جنگ سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔آج 27فروری کو پاک فضائیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہر محب وطن پاکستانی کو یقین ہے کہ ہماری بہادر افواج نے ماضی میں بھی بھارت کو سرپرائز دیا ہے اور آئندہ بھی جارحانہ عزائم رکھنے والوں کوحیران کردیا جائے گا۔