• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید محمد علی عابد ۔۔برمنگھم
پچھلے دنوں وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا کہ وہ اپنی ایک لاکھ ستانوے ہزار روپے کی تنخواہ پر بڑی مشکل سے گزارہ کررہے ہیں۔ ہمیں مالی مشکلات میں گھرے ہوئے اپنے عزت مآب وزیر اعظم کی مشکلات کے بارے میں جان کر شدید پریشانی ہوئی۔ عمران خان کا کنبہ صرف دو افراد پر مشتمل ہے ایک وہ بذات خود اور دوسری ہماری قابل احترام خاتون اول جو تقریباً26 سال تک اپنے سابقہ شوہر اور چھ بچوں پر مشتمل اس سے بہت کم تنخواہ پر کنبے کا خرچ چلاتی رہی ہیں ان کی کفایت شعاری ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہو گی اور خانہ داری کے معاملات اور اخراجات ان کے روزمرہ کے معمول بن چکے ہوںگے۔ وزیر اعظم کو شکار کا شوق ہے انہوں نے ایک اطلاع کے مطابق مختلف نسلوں کے کتے پال رکھے ہیں جن میں شیرو نامی کتا ان کا پسندیدہ ترین جانور ہے جو خان صاحب کے صوفوں اور بیڈ تک رسائی رکھتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ خاتون اول چونکہ مذہبی رہنما ہیں وہ کتے کو نجس ہونے کی وجہ سے اپنے کمرے تک رسائی برداشت نہیں فرمائیں گی، خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ان کے اس بیان سے چند سوال ذہن میں ابھرتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ سے پہلے ان کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے جو وزیراعظم بننے سے ختم ہو گئے۔22 ملین کا سوال ہے، موصوف اس وقت شکاری کتوں اور ا ن کی دیکھ بھال کرنے والے ملازمین کا خرچہ برداشت فرماتے تھے بیس کلو بکرے کا گوشت اور اتنا ہی دودھ ان کی خوراک تھی جو اب بھی ہو گی۔ہم وزیر اعظم سے عرض کرتے ہیں کہ وہ بیس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے عام پاکستانی کے بارے میں سوچیں اور بتائیں کہ وہ کنبہ کیسے گزارا کر رہا ہو گا۔ آپ کی ناکام معاشی پالیسی عوام کو مالی مشکلات کے گرداب میں دکھیل چکی ہے۔ روپے کی قدر میں 35 فیصد کمی نے ہماری معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ ہم بنیادی طور پر برآمدی معیشت نہیں، ہمارے پاس درآمد کے لئے ویلیو ایڈڈ (Value Added ) پروڈکٹس نہیں ۔ہم زرعی پیداوار گندم، چاول، فروٹ اور سبزیاں درآمد کر سکتے ہیں اللہ اللہ خیر صلہ۔ہمیں امید تھی کہ آپ ملک سے لوٹی ہوئی اربوں ڈالر کی رقم جو منی لانڈرنگ کے ذریعے دوسرے ملکوں میں بھجوائی گئی ہے حکومت سنبھالنے کے پہلے سو روز میں ہی واپس لے آئیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جیسا بڑا اور ایماندار لیڈر ایسا کو ئی وعدہ نہیں کرے گا جو وہ پورا نہ کر سکے۔ آپ نے اعلان کرنے سے پہلے ایک جامع منصوبہ بندی تیار کر لی ہو گی لیکن افسوس ہے کہ آپ کے اعلانات اور وعدے کسی مربوط پالیسی یا حکمت عملی کی پیداوار نہیں تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرچکا ہے مگر لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ آپ کا فرمان تھا کہ ملک میں تین سو ارب ڈالر کی ماہانہ کرپشن ہوتی ہے جو منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر ملکوں میں منتقل کر دی جاتی ہے، یہ سابقہ کرپٹ حکومتوں کے دور میں ہوتا ہوگا لیکن جب سے آپ کی نیک پاک حکومت آئی ہے یہ کرپشن بند ہو گئی ہے اس رقم سے ہماری معیشت خسارے کی بجائے منافع میں جانی چاہئے تھی لیکن حکومتی اخراجات زیادہ ہیں اور آمدنی کم ہے اس کا کیا جواب ہے؟۔اٹھتے بیٹھتے موقع بے موقع آپ سابقہ حکومتوں کی برائیوں کی قوالی کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی کا اپنی حکومت سے موازنہ کرنے کی کبھی زحمت نہیں فرماتے۔ جب آپ نے حکومت سنبھالی تھی اس وقت انفلیشن ساڑھے چار فیصد سالانہ تھی جو آج 17 فیصد ہو چکی ہے اور آئی ایم ایف سے تیسری قسط لینے کے لئے جن شرائط کو مانا جائے گا وہ مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گی ۔ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ آج کل آپ کے افلاطون معیشت دان روپے کی قدر میں کمی کی فاش غلطی کا دفاع کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ سابقہ حکومت مصنوعی معیشت چلا رہی تھی۔ مصنوعی معیشت نام کی کوئی چیز اکانومی میں نہیں ہے آپ چند دن تو کسی کیفیت کو روک سکتے ہیں زیادہ دیر تک نہیں اگر ایسی کو ئی چیز ہے تو آپ نے یہ کیوں نہیں اپنائی۔ کیوں عوام کو معاشی بھنور میں پھینک دیا ہے۔ آپ نے ایک سال میں ساڑھے گیارہ سو ارب قرض لیکر سابقہ چور لٹیرے اور ڈاکو ئوں کو اس میدان میں بھی مات کر دیا ہے ۔روپے کی قدر میں کمی کی غلطی ذوالفقار بھٹو کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے بھی فرمائی تھی، انہوں نے ڈالر کی قیمت پانچ روپے سے گیارہ روپے کر دی تھی اور بعد میں 10 روپے کر دی تھی یہ ڈاکٹر صاحب کا معاشیات سے لاعلمی کا مظاہرہ تھا موصوف مکینکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل تھےجوان کی معیشت کے بارے میں لاتعلقی اور نا اہلی کا ثبوت تھی ۔اس وقت ہماری معیشت کا حجم بہت کم تھا اور درآمد اور برآمد ہر ملک کے اپنے اختیار میں تھی کیونکہ WTO کے نفاذ سے کو ئی ملک اپنی مرضی سے کسی ملک کی درآمد کو رو ک سکتا تھا۔عزت مآب وزیر اعظم! آپ سچے پکے ایماندار پاکستانی ہیں آپ مان لیں کہ آپکی پالیسی ناکام ہو چکی ہے اس لئے باعزت طور پر مستعفی ہو جائیں، اسمبلیاں تحلیل فرما دیں اور صاف شفاف الیکشن کروانے کا بندوبست فرمائیں، وسط مدتی انتخابات جمہوریت کی تقویت کا باعث بنیں گے حال ہی میں برطانوی حکومت نے تین وسط مدتی انتخابات منعقد کر کے ایک بہت بڑے فیصلے کی منظوری کی راہ ہموار کی ہے۔آئندہ الیکشن میں عوام کا اجتماعی شعور جس پارٹی کو بھی اکثریت دے گا وہ ملک کے لئے فائدہ مند ہو گی اور مشکلات پر قابو پانے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے میں با اختیار ہو گی۔ 
تازہ ترین