• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں 2020الیکشن کا سال ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی اپنے پرائمری الیکشن میں مصروف ہے تاکہ ٹرمپ کے مقابلے میں اپنا امیدوار لا سکے۔ اب تک تین ریاستوں میں الیکشن ہو چکے ہیں جن میں حیرت انگیز طور پر برنی سینڈر سب سے زیادہ مندوبین جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

کسی بھی امیدوار کو جیتنے کے لیے 3979مندوبین میں سے 1990کی حمایت حاصل کرنا ہوگی جس کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی جون میں نیشنل کنونشن منعقد کرتی ہے لیکن اگر کوئی امیدوار مطلوبہ ہدف حاصل نہ کر سکے تو حتمی فیصلے کے لیے دوسرا رائونڈ ہوتا ہے جس میں 771سپر مندوبین بھی حصہ لیں گے۔

یہ مندوبین غیر منتخب ہوتے ہیں ان میں کانگریس، سینیٹ، علاقائی اور مرکزی عہدیدار، امریکی صدور و نائب صدور شامل ہوتے ہیں۔ عام رائے یہ ہے کہ پارٹی اسٹیبلشمنٹ ان مندوبین کو برنی سینڈر کے خلاف استعمال کرے گی اور اس کے لیے فضا بھی ہموار کی جا رہی ہے۔

جس طرح پاکستان میں کسی کو بھی غدار قرار دیا جا سکتا ہے اسی طرح امریکی ریاستی مشنری بھی برنی سینڈر کو سوشلسٹ قرار دے رہی ہے تاکہ عام آدمی اس کو ووٹ دینے سے خائف رہے۔

NEVADAمیں الیکشن جیتنے کے بعد برنی سینڈر نے الیکشن ریلی میں اپنی بیوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان سے ملیے یہ ہیں امریکہ کی ہونے والی فرسٹ لیڈی جس سے ان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ڈیمو کریٹک پرائمری جیت لیں گے بلکہ ٹرمپ کو ہرا دیں گے۔برنی سینڈر کا اس وقت سب سے بڑا اور پاپولر نعرہ یہ ہے کہ صحت کا حق بنیادی انسانی حقو ق میں شامل ہے جس سے پرائیویٹ انشورنس اور فارما کمپنیاں ان کے خلاف ہو گئی ہیں۔

یاد رہے امریکی حکومت اس وقت فی کس دنیا کے باقی ملکوں کے مقابلے میں دو گنا پیسے خرچ کرتی ہے لیکن اس کے باوجود آبادی کا بہت بڑا حصہ یا تو انشورنس سے محروم ہے یا بہت کم انشورنس پر زندہ ہے۔ انشورنس اور فارما کمپنیوں نے اسپتالوں کے ساتھ مل کر پرائیویٹ انشورنس کو بہت مہنگا کر دیا ہے اور ادویات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔

نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات جوزف اسٹکلٹس لکھتے ہیں کہ امریکہ میں بہت سارے خاندان اس لیے دیوالیہ ہو گئے کہ ان کے خاندان کے کسی فرد کو موذی مرض نے گھیر لیا اور اس کا علاج اتنا مہنگا تھا کہ وہ خاندان دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا۔ امریکہ میں آج بھی بہت سارے لوگ کینیڈا اور میکسیکو صرف ادویات خریدنے کے لیے جاتے ہیں۔

صاف ظاہر ہے برنی سینڈر کے صحت کے متعلق ان اقدامات کے نتیجے میں فارما اور انشورنس کمپنیوں کی لوٹ مار ختم ہو جائے گی اور جب ریاست ہی تمام لوگوں کی صحت کی ذمہ دار ہوگی تو وہ ان کمپنیوں پر دبائو ڈال کر دوائیوں کی قیمت کم کروا لے گی۔

یاد رہے اس وقت امریکہ میں یہ کارپوریشن دونوں پارٹیوں کو سب سے زیادہ ڈونیشن دیتی ہیں تاکہ ان کا کاروبار چمکتا رہے۔ برنی سینڈر کا دوسرا نعرہ جس کو نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبولیت ملی وہ یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی نہ صرف یونیورسٹیوں کی فیسیں ختم کر دیں گے بلکہ طالبعلموں نے اب تک تعلیم کے حصول کے لیے جتنے قرض حاصل کر رکھے ہیں انہیں فوراً معاف کر دیا جائے گا۔

امریکہ میں نوجوان پہلے تعلیم کے لیے قرض لیتا ہے پھر مکان اور گاڑی کے لیے اور یوں اپنی بقیہ عمر قرضوں کی ادائیگی میں صرف کر دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ماحولیات کے بارے میں پیرس میں ہونے والے معاہدے پر فوراً عمل درآمد شروع کر دیں گے، جسے ٹرمپ نے ختم کر دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے وہ اقتدار میں آتے ہی فلسطین کو تسلیم کر لیں گے اور کشمیر کے مسئلے پر انہیں تشویش ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں بار بار امریکہ کی جنگی صنعت کا ذکر کرتے ہوئے اس کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں۔

مزید وہ اقتدار میں آتے ہی مزدور کی ایک گھنٹے کی اجرت پندرہ ڈالر کر دیں گے جو اس وقت دس سے بارہ ڈالر ہے اور اس پر انہیں ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ صاف ظاہر ہے یہ تمام اقدامات امریکہ میں بنیادی سماجی تبدیلی کاباعث بنیں گے جو نہ صرف امریکی اسٹیبلشمنٹ بلکہ دونوں پارٹیوں کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں۔ ڈیمو کریٹک پرائمری الیکشن میں باقی تمام امیدواروں نے برنی سینڈر کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے تاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں پذیرائی حاصل کر سکیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ امریکی ریاستی مشنری برنی سینڈر کو ہرانے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لے گی۔

امریکہ میں بھی پاکستان کی طرح الیکشن میں پیسے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ کھرب پتی مائیکل بلومبرگ جو 64بلین ڈالر سے اچانک الیکشن میں کود پڑے ہیں گو کہ انہوں نے پہلی تین ریاستوں میں الیکشن میں حصہ نہیں لیا لیکن میڈیا کی طرف سے حالیہ جاری ہونے والی فور کاسٹ میں انہیں 17فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر قرار دیا جا رہا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں پیسہ کس طرح بولتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ان تمام امیدواروں کو لانے کا مطلب یہ ہے کہ ڈیمو کریٹک ووٹ تقسیم ہو جائیں تاکہ پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار واضح نتائج حاصل نہ کر سکے اور پھر اسٹیبلشمنٹ کے 771ووٹوں کے ذریعے کایا پلٹ دی جائے۔

برنی سینڈر کے ان انقلابی اقدامات اور نوجوانوں کی ان کے الیکشن مہم میں شرکت نے دنیا کے دوسرے ممالک اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں ایک نئی فضا قائم کر دی ہے اور اب ایک پُرامن اور خوشحال دنیا کا خواب دیکھا جا رہا ہے اور اسی خواب کی تعبیر کیلئے ڈاکٹر اقبال احمد، نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور ہاورڈزن نے پوری زندگی جدوجہد کی ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ برنی سینڈر ان مگر مچھوں سے بچ کر امن اور خوشحالی کے نئے پیامبر بن سکیں گے کہ نہیں۔

تازہ ترین