• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معلوم نہ تھا کہ وزرا اس قدر ناتواں اور ’نامکمل‘ بھی ہو سکتے ہیں۔ کوئی بیورو کریٹ جتنا بھی طاقتور ہو، کسی اعلیٰ وزیر سے زیادہ قوی نہیں ہو سکتا۔ اصل بات لیڈر شپ میں دم خم کی ہے!

کم لوگ اس سے آشنا ہیں کہ سب سے بڑے صوبے میں وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری اور محکمانہ سیکرٹری کا ٹرائیکا ہی اصل قوت ہیں۔ اس صورت میں وہ خام خیالی تو گئی تیل لینے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ وفاقی وزرا بالخصوص اور دیگر صوبوں کے وزرا روایتی طور پر بہرحال بڑے صوبے والوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ کیا اصل طاقت جو قانون و آئین اور عوام کی ہے، کی تلاش کیلئے چراغ ضروری ہے؟

ایک قابلِ اعتبار وزیر کی طاقت کا مطلب عوام ہی کی طاقت ہے لیکن ایک بیورو کریٹ کی طاقت کا مطلب بہرحال عوام کی طاقت نہیں۔ وزیر اچھا ہو یا برا، سندھی ہو یا پنجابی، وفاقی ہو یا کشمیری، جب تک وہ اپنے محکمہ کی پانچ سات ماسٹر فائلز کو سمجھ نہیں لیتا، اپنی ڈائری مرتب نہیں کرتا، فیلڈ اور آفس میں متعلقہ افسران سے بریفنگ کے اہتمام کو اپنی عادت نہیں بناتا تو تک کسی کام کا نہیں۔ ضروری نہیں وزیر پی ایچ ڈی ہو یا وکیل، تو ہی اچھا ہوگا، یہ بھی ضروری نہیں وزیر فرفر انگریزی بولنے کے فیشن سے فیضیاب ہوگا تو اچھا ہوگا۔ انگریزیاں شنگریزیاں بولنے اور لکھنے کیلئے اس کے پاس عملہ موجود ہوتا ہے، پس وزیر صاحب میں اعتماد، سوال اٹھانے کا فہم، جواب تلاش کرنے کا فن، اہنی حدود اور امور پر نظر رکھنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ پس تجربہ اور فہم ضروری ہے، بےشک وہ میٹرک ہی ہو، کوئی پروا نہیں! لیکن اس باریک سی بات کو فراموش کرنا ممکن نہیں کہ جب میرٹ پر مبنی کوئی کیس گورنر یا وزیراعلیٰ اور صدر یا وزیراعظم تک انصاف کی بھیک مانگنے کیلئے پہنچ جاتا ہے تو سمجھ لیجئے نیچے وزارت یا بیورو کریسی میں نااہلی یا بدعنوانی کے عناصر ہیں! اس بات کا ایک باریک پہلو یہ بھی ہے کہ بدعنوانی سے نااہلی زیادہ ہے، اور یہ نچلی نااہلی آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان جیسے لیڈران کو کھا جاتی ہے۔ کوئی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نہیں چاہتا کہ لا اینڈ آرڈر، صحت یا تعلیم وغیرہ کے معاملات خراب ہوں لیکن یہی خراب ہوتے ہیں کیونکہ ان کا روز مرہ اور نظر آنے والا معاملہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔

اب اس میں سیکرٹری اور وزیر کے درمیان ربط کا فقدان اور سمجھ کی کمی ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ کیا ان کو ان کے حال پر رہنے دیں کہ اعلیٰ قیادت پر حرف آئے؟ اس میں پہلی بات یہ، وزیر ایک سیاسی و سماجی قیادت ہے سو وسعتِ نظر سے حل نکالے، پرنسپل سیکرٹری برائے وزیراعلیٰ سے معاونت لے، اگر وزیر سکھا شاہی پر اترتا ہے تو چیف سیکرٹری وزیراعلیٰ سے بات کرے۔ اگر یہ باتیں متعلقہ فورم پر نہیں ہوں گی تو پھر حکومت کیلئے سب کوڑھ کی کاشت کے مترادف ہوگا اور عوام اعلیٰ قیادت کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ ایسے میں افسر شاہی کا کیا بگڑے گا؟ کیا پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انکوائری آرڈرز متعلقہ انکوائری افسر تک پہنچنے میں کم و بیش دو دو ماہ نہیں لگے؟ یہاں یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ شہباز شریف کا براہِ راست بیورو کریسی سے ربط سودمند تھا کیونکہ آج وزرائے اعلیٰ بیورو کریسی سے گریزاں، وزرا بیورو کریٹک کلیوں سے ناآشنا اور بیورو کریسی بالواسطہ نیب کی ناقد، نتیجتاً تنقید کا نشانہ عمران خان اور پریشانی کا سامنا عوام کو۔ عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانا ہے تو صوبوں کو وفاق کی طرز پر پاورفل وزرا دیں، 18ویں ترمیم کو فوقیت بخشیں اور عوامی فلاح کا بول بالا کریں، محض افسر شاہی کا نہیں۔ ایک خاص ’’فارمولے‘‘ کے تحت نیب کی توپوں کا رخ سیاستدانوں کی جانب ہے حالانکہ کچھ سیکرٹریوں کی نیب یاترا بھی ضروری ہے، (تفصیلات پھر سہی) کوئی شک نہیں خان قوم کا بھلا چاہتے ہیں، تمام وزرائے اعلیٰ بھی یہی چاہتے ہیں تو پھر رکاوٹ کون ہے؟ افسر شاہی یا وزراء یا پھر نیب؟ نیب اقدامات سے معیشت کو فرق ضرور پڑا لیکن صحت، تعلیم، انرجی سیکٹر، ٹیکسیشن، لا اینڈ آرڈر، سائنس و ٹیکنالوجی، مواصلات و نشریات اور ترقیات و تعمیرات و اصلاحات وغیرہ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 65فیصد افسر شاہی اور 35؎فیصد وزرا نااہلی کے سبب عمدہ حکومتی پالیسیوں پر حرف آ رہا ہے۔ جو فوری توجہ طلب ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف کی مضبوط دسترس کا سبب وزرا کو نظر انداز کرکے افسر شاہی پر تکیہ اور رولز آف بزنس کا مخصوص استعمال تھا جس کا خمیازہ یقیناً موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے کہ افسر شاہی غالب ہے، سیکرٹری و چیف سیکرٹری صاحبانِ کمال و جمال ہیں اور وزیراعلیٰ بڑا مالک گویا درمیان والی قیادت (وزرا) نشوونما اور بڑھوتری سے محروم۔ دیگر صوبوں میں پارلیمانی و انتظامی روایات بہرحال بہتر ہیں مگر اس کے باوجود شہباز شریف کو جس مسئلہ کی سمجھ آجاتی وہ زخم کو ناسور نہ بننے دیتے، استعفیٰ لکھوا لیتے یا ’’کالے پانی‘‘ کی سزا سے نوازتے۔ آج، اپنے اپنے مقام پر سعید غنی، فیاض الحسن چوہان، شوکت یوسفزئی اور فواد چوہدری کی باتیں چھاتی پر مونگ تو دلتی ہیں مگر وہ بات سیدھی کر جاتے ہیں، فورتھ جنریشن انٹی بایوٹک کے سائیڈ ایفیکٹس تو ہوتے ہیں مگر بیماری سے شفا مل جاتی ہے!

کب تک کلونیل سسٹم کی باقیات کو سر پر اٹھائے پھرنا ہے؟ وہ تو آقاؤں کا غلاموں پر مسلط نظام تھا۔ اب بھی؟ وفاقی وزیر چونکہ اے سی آر لکھتا ہے چنانچہ وہ کمال، اور صوبائی وزیر انچارج نہ ہونے کے سبب افسر شاہی کے سامنے کچھ نہیں۔ اس تناظر میں نیب کبھی کبھی نعمت لگتا ہے کہ ’’کچھ سیکرٹری‘‘ جو اپنے جمال سے واقف ہیں اِس آئینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ورنہ جانے کیا کر گزریں! ’’معصوم‘‘ صوبائی وزرا! وزیراعظم و وزرائے اعلیٰ کیلئے ہزیمت نہ بنیں، خود بدلیں یا اپنا سیکرٹری!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین