• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ، سنڈے میگزین کا ایک اور مقبولِ عام سلسلہ’’ غزوات و سِرایا‘‘ آج اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اس سلسلے کی 16اقساط میں  مجموعی طور پر 27غزوات اور47سِرایا کا تذکرہ کیا گیا۔ گو کہ واقعات کے بیان کے لیے مستند کُتب ہی منتخب کی گئیں، تاہم بہت سے واقعات کی تفاصیل میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے، جس کی وجہ سے قارئین کو بعض مقامات پر اشکالات درپیش آئے۔ اِس سلسلے کا بنیادی مقصد اِس حقیقت کو اجاگر کرنا تھا کہ مسلمانوں کی جنگیں محض کشت وخون، زمین پر قبضے یا مالِ غنیمت کے لیے نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے تھیں۔ پھر یہ کہ مسلمانوں نے جنگوں کے دَوران بھی انسان دوستی کی عظیم الشّان مثالیں قائم کیں۔جن کی بنیاد پر بعدازاں مہذّب دنیا نے جنگی قانون سازی بھی کی۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

غزوۂ حنین

حنین، مکّہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ اسے’’ غزوۂ ہوازن‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔فتحِ مکّہ کے بعد عرب کے اکثر قبائل نے اسلام قبول کر لیا تھا، لیکن چند ایسے متکبّر اور متعصّب قبائل بھی تھے کہ جن کی اسلام دُشمنی آخری حدوں کو چُھو رہی تھی۔ اُن میں دو بڑے قبائل، ہوازن اور ثقیف بھی تھے۔ بنو ہوازن کا تیس سالہ سردار، مالک بن عوف نہایت طاقت وَر اور پُرجوش جنگ جُو سمجھا جاتا تھا۔ اُس نے بنو ثقیف سمیت گرد و نواح کے قبائل کو مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ کرکے ایک بڑا لشکر تیار کر لیا۔ آنحضرتﷺ نے خبر کی تصدیق کے بعد مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کا حکم دے دیا۔ دس ہزار صحابہ کرامؓ آپؐ کے ساتھ مدینے سے آئے تھے، جب کہ 2 ہزار نومسلم قریشِ مکّہ بھی ساتھ ہوگئے۔

اسلامی لشکر کے لیے آزمائش:

آپﷺ6 شوال، 8 ہجری کی صبح 12 ہزار مجاہدین کے ساتھ حنین کی جانب روانہ ہوگئے۔ اس موقعے پر کچھ مسلمانوں کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے’’آج ہم پر کون غالب آ سکتا ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی۔ اُدھر، کفّار کی فوج کا سپہ سالار، مالک بن عوف اپنی سپاہ کے ساتھ وادیٔ حنین میں پہلے سے مقیم تھا اور وادی میں آنے والے تمام راستوں اور گھاٹیوں میں تیر انداز چُھپا دیئے، جن کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ آپؐ نے حنین کے قریب لشکر کی ترتیب فرمائی اور وادی کی جانب بڑھے۔ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ چاروں جانب سے تیروں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ اس اچانک اُفتاد سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی۔حضرت ابوبکرؓ، حضرت عُمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبّاسؓ اور دیگر صحابہؓ کی ایک مختصر سی جماعت آپؐﷺ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھی۔ آپﷺنے بلند آواز سے پکارا’’اے لوگو! میری طرف دیکھو۔ مَیں محمّدﷺ ہوں۔‘‘ حضورﷺ کی آوازِ مبارک سُن کر مسلمانوں کی ہمّت بڑھی۔ مسلمان دوبارہ جمع ہو کر مشرکین کے حملوں کا جواب دینے لگے اور پھر گُھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ رسول اللہﷺ نے ایک مُٹھی مٹّی اُٹھا کر دُشمن کی جانب پھینکی، جو اُڑتی ہوئی دُور دُور تک مشرکین کی آنکھوں میں گھس گئی، یہاں تک کہ کچھ دیر بعد ہی دُشمن پسپائی پر مجبور ہوگیا۔ اس جنگ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ’’اور حنین کے دن، جب کہ تمھیں اپنی کثرت پر غرور تھا، وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین باوجود فرّاخی کے تم پر تنگ ہوگئی، تو پھر تم پِیٹھ پھیر کر بھاگے، پھر اللہ نے اپنے رسولؐ پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور (تمہاری مدد کے لیے فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے، اُتارے اور کافروں کو سزا دی اور یہی کفر کرنے والوں کی سزا ہے‘‘(سورۃ التوبہ 26،25)۔غزوۂ حنین میں مسلمانوں کو بہت سا مالِ غنیمت بھی ملا۔ جس میں چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں، چار ہزار اوقیہ چاندی (ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم کے مساوی) شامل تھی۔جب کہ دُشمن کے چھے ہزار فوجیوں کو قیدی بنایا گیا۔ قیدیوں میں شیما بھی تھیں، جو رسول اللہﷺکی رضاعی بہن تھیں۔ مسلمانوں نے جب اُنھیں گرفتار کیا، تو اُنہوں نے کہا ’’مَیں تمہارے پیغمبرؐ کی بہن ہوں۔‘‘ لوگ تصدیق کے لیے آنحضرتؐ کے پاس لے آئے۔ اُنھیں دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آپؐ نے اُن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھائی۔ پھر چند اونٹ، بکریاں دے کر پیش کش کی کہ ’’دِل چاہے، تو میرے گھر چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو، تو وہاں پہنچا دیا جائے گا۔‘‘ تاہم،اُنہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش کا اظہار کیا، چناں چہ انہیں عزّت و احترام کے ساتھ اُن کے گھر پہنچا دیا گیا۔ ورید بن صمہ کئی ہزار سپاہ لے کر اوطاس آگیا تھا۔ رسول اللہﷺنے حضرت ابو عامرؓ اشعری کو تھوڑی سی فوج دے کر بھیجا۔ دونوں فوجوں میں جھڑپ ہوئی، جس میں حضرت ابو عامرؓ، ورید کے بیٹے کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ حضرت ابو موسیٰؓ اشعری نے آگے بڑھ کر ورید کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ حضرت ربیعہؓ بن رفیع نے ورید بن صمہ کو قتل کر دیا، جس کے بعد یہ لوگ بھاگ گئے۔

غزوۂ طائف

غزوۂ حنین میں کفّار کی فوج کا سپہ سالار، مالک بن عوف میدانِ جنگ سے بھاگ کر طائف کے ایک قلعے میں بند ہوگیا تھا۔ آنحضرتؐ نے حضرت خالدؓ بن ولید کی امارت میں ایک ہزار سپاہ کو طائف روانہ کیا اور پھر آپؐ خود بھی طائف تشریف لے گئے اور قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ قلعے کے اندر سے تیراندازی کی جاتی رہی، جس سے بارہ مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے۔ چناں چہ آنحضرتؐ نے قلعے کے چاروں جانب منجنیقیں نصب کروا دیں۔ محاصرے کو بیس دن ہو چُکے تھے۔ رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ قلعے کے اندر سال بھر کا سامان موجود ہے۔ چناں چہ آنحضرتﷺنے ایک صاحب الرائے صحابی، حضرت نوفل ؓبن معاویہ کو بُلا کر پوچھا’’ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ اُنہوں نے عرض کیا’’ لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر آپؐ اس پر ڈٹے رہیں گے، تو پکڑ لیں گے اور اگر چھوڑ کر چلے گئے، تو وہ آپؐ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔‘‘ یہ سُن کر نبی کریمﷺ نے محاصرہ اُٹھانے کا حکم دے دیا۔

چھے ہزار قیدیوں کی رہائی

طائف کا محاصرہ ختم کر کے آپﷺجعرانہ تشریف لائے، تو اِسی دوران بنو ہوازن کا ایک وفد بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگیا۔ اُن میں آپؐ کے رضاعی چچا، ابو برقان بھی تھے۔ آپؐ کی رضاعی والدہ، حضرت حلیمہ کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔ رئیسِ قبیلہ نے آنحضرتؐ سے درخواست کی’’ قیدیوں میں ہماری خواتین بھی ہیں، جن میں سے کچھ آپﷺ کی رضاعی خالائیں، پھوپھیاں ہیں۔‘‘ نبی کریمﷺ نے جب یہ سُنا، تو فرمایا’’ خاندانِ عبدالمطلب کا جس قدر حصّہ ہے، وہ تمہارا ہوا۔‘‘ یہ سُن کر صحابہؓ بھی بول اُٹھے کہ’’ ہمارا حصّہ بھی حاضر ہے۔‘‘ اس طرح چھے ہزار قیدی اُسی وقت رہا کر دیئے گئے۔

سَرِیّہ حضرت عینیہؓ بن حصن

اس سَرِیّہ کی وجہ یہ تھی کہ بنو تمیم نے قبائل کو بھڑکا کر جزیہ کی ادائی سے روک دیا تھا۔ چناں چہ آنحضرتؐ نے حضرت عینیہؓ کو پچاس صحابہؓ کے ساتھ بنو تمیم کی جانب روانہ کیا۔ اُنہوں نے صحرا میں مشرکین کو جا لیا، جو اپنے مویشی چَرا رہے تھے۔ مسلمانوں کو دیکھا، تو بھاگ نکلے،لیکن گیارہ مرد، اکیس عورتیں اور تیس بچّے گرفتار ہوئے، جنھیں مدینہ منوّرہ لایا گیا۔ بعدازاں، بنو تمیم کے دس سردار مدینہ منوّرہ آئے اور آنحضرتؐ سے اپنے قیدی رہا کرنے کی درخواست کی، جس پر سب رہا کر دئیے گئے۔

سَرِیّہ حضرت قطبہؓ بن عامر

قبیلہ خثعم نے بد عہدی کی، تو رسول اللہﷺ نے حضرت قطبہؓ بن عامر کی قیادت میں بیس افراد کو اُن کی طرف بھیجا۔ فریقین کے درمیان شدید جنگ ہوئی، جس میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے، خود حضرت قطبہؓ بھی شہید ہوئے۔

سَرِیّہ حضرت ضحاکؓ بن سفیان

اس سَرِیّہ کا مقصد قبیلہ بنوکلاب کو اسلام کی دعوت دینا تھا۔تاہم اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ انکار کیا، بلکہ مسلمانوں سے لڑائی بھی شروع کر دی۔ اس سَرِیّہ میں بنو کلاب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سَرِیّہ حضرت علقمہؓ بن مجرز

آنحضرتؐ نے حضرت علقمہؓ بن مجرز کو تین سو افراد کے لشکر کا امیر بنا کر جدّہ کے ساحل کی جانب روانہ کیا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ حبشیوں کا ایک دستہ جدّہ کے ساحل پر جمع ہے اور مکّہ مکّرمہ میں لُوٹ مار کرنا چاہتا ہے۔ حبشیوں کو مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ہو چُکی تھی، لہٰذا وہ وہاں سے بھاگ گئے۔

سَرِیّہ علیؓ بن ابی طالب

رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ڈیڑھ سو انصار کے ساتھ قبیلہ طی کا ایک بُت ڈھانے کے لیے بھیجا۔ مسلمان حاتم طائی کے محلّے میں جا پہنچے اور بُت گرادیا۔ وہاں کے لوگوں کو قیدی بھی بنایا، جن میں حاتم طائی کی صاحب زادی بھی شامل تھی۔قیدیوں کو بارگاہِ رسالتؐ میں پیش کیا گیا، تو حاتم کی صاحب زادی نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! میرے والد حاتم کا انتقال ہو چُکا، بھائی فرار ہوگیا۔ مَیں ضعیف ہوں۔آپؐ مجھ پر احسان فرمائیں اور مجھے آزاد کر دیں۔‘‘ اُس نے دُوسرے دن پھر رحم کی درخواست کی۔ تیسرے دن بھی یہی بات دُہرائی۔ اس مرتبہ آپؐ نے اس بُڑھیا کو آزاد کر دیا۔وہ اپنے بھائی، عدی کے پاس شام پہنچیں اور بتایا کہ اللہ کے رسولؐ اتنے رحیم اور شفیق ہیں کہ باپ بھی نہیں ہو سکتا۔ اُنہوں نے بھائی کو مشورہ دیا کہ بے خوف وخطر مدینہ جائو۔ چناں چہ،عدی مدینہ آئے اور اسلام قبول کرلیا۔

غزوۂ تبوک

مدینہ منوّرہ سے دمشق کی جانب سفر کریں، تو درمیان میں’’تبوک‘‘ نامی شہر ہے۔جنگِ موتہ غرور و تکبّر کے نشے میں مدہوش رومی بادشاہت کے لیے ایک تلخ تجربہ اور آنے والے خطرات کا پیش خیمہ تھی۔ مسلمانوں کے قدموں کی دھمک اور تلواروں کی جھنکار اُنہیں اپنی عظیم الشّان مملکت کی سرحدوں پر بڑھتی سُنائی دے رہی تھی۔چناں چہ رومی سلطنت کی بقا کے لیے قیصرِ روم نے ایک بڑی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔ اُدھر مسلمانوں کو تواتر کے ساتھ اُن کی جنگی تیاریوں کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔شام کے سوداگر مدینے میں روغنِ زیتون بیچنے آیا کرتے تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ رومیوں نے بہت بڑی فوج تیار کرلی ہے۔ آنحضرتؐ نے تصدیق کے بعد فوج کی تیاری کا حکم فرمایا۔ اُس زمانے میں اہلِ مدینہ دو طرح کی قدرتی آفات سے نبردآزما تھے۔ سخت قحط اور شدید گرمیاں۔ لہٰذا کم زور ایمان والے اور منافقین اعلانِ جنگ سے پریشان ہوگئے۔ اُنہوں نے عام مسلمانوں کو بھی جنگ میں جانے سے روکنا شروع کر دیا۔ بڑے پیمانے پر جنگی تیاریوں کے سبب آپؐ نے تمام عرب قبائل سے مالی و جانی اعانت طلب فرمائی۔ اس سلسلے میں ایثار و قربانی کے کئی ایمان افروز مناظر دیکھنے میں آئے۔ اکثر صحابہؓ نے بڑی بڑی رقمیں لا کر حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیں۔ حضرت عثمانؓ بن عفان نے دوسو اونٹ اور دو سو اوقیہ(تقریباً ساڑھے انتیس کلو) چاندی لا کر پیش کی۔ اس کے بعد پھر ایک سو اونٹ خدمت میں پیش کیے۔ پھر ایک ہزار دینار خدمتِ اقدسؐ میں لے کر آئے۔ اِس طرح اُن کے صدقے کی مقدار نقدی کے علاوہ نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑوں تک جا پہنچی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ تو اپنے گھر کا سارا سامان ہی اُٹھا لائے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا’’ اے ابوبکرؓ! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟‘‘ جواب دیا’’ اُن کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی کافی ہیں۔‘‘ حضرت عُمر فاروقؓ بھی گھر کا آدھا سامان اُٹھا لائے۔بہت سے ایسے مسلمان بھی جانے کے لیے بے قرار تھے کہ جن کے پاس سواری تھی اور نہ ہی زادِ راہ۔ بارگاہِ نبویؐ میں آکر اس طرح روتے کہ آنحضرتؐ کی چشمِ مبارک بھی نَم ناک ہو جاتی۔ اُن ہی کی شان میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ کی آیات نازل فرمائیں’’اور نہ اُن لوگوں پر کچھ اعتراض ہے کہ جب تمہارے پاس آئے کہ ہم کو سواری دیجیے اور آپﷺ نے کہا کہ میرے پاس سواری کہاں ہے، جس پر تم کو سوار کر سکوں، تو وہ واپس ہوگئے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ افسوس ہمارے پاس خرچ نہیں ہے‘‘ (آیت 92) ۔

اسلامی لشکر کی تبوک کی جانب روانگی

رسول اللہﷺ تیس ہزار مجاہدین کا عظیم الشّان لشکر لے کر مدینے سے روانہ ہوئے۔ منافقوں کے سردار، عبداللہ بن اُبی نے اپنی جماعت کے ساتھ مدینے سے کچھ دُور پہاڑی کے دامن میں خیمہ نصب کر لیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی اس جنگ میں ہم رکاب ہوگا، لیکن اُس کا مقصد لوگوں کو جنگ میں جانے سے روکنا تھا، چناں چہ مسلمانوں کا لشکر جانے کے بعد وہ واپس مدینہ آ گیا۔ تبوک کے راستے میں قومِ ثمود کے وہ مکانات بھی آئے، جو اُنہوں نے چٹانیں تراش کر بنائے تھے۔ چوں کہ اس مقام پر عذابِ الٰہی نازل ہوا تھا، اِس لیے آپؐ نے حکم دیا کہ’’ کوئی شخص یہاں قیام کرے، نہ پانی پیے اور نہ اس پانی کو کسی اور کام میں لائے، یہاں تک کہ وضو بھی نہ کرے۔ البتہ اُس کنویں سے پانی لے سکتے ہیں، جس سے حضرت صالح علیہ السّلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔‘‘ آپؐ نے اس جگہ سے تیزی سے نکلنے کا حکم دیا۔ یہ سخت ترین سفر تھا، جس کے دَوران کھانے پینے کی قلّت تھی۔ بعض اوقات درختوں کے پتّے تک کھانے پڑے۔ اسلامی لشکر تبوک پہنچ کر خیمہ زن ہوا، تو آپؐ نے سب کی ترتیب فرمائی، پھر لشکر سے ایک پُرجوش اور ایمان افروز خطاب فرمایا۔ دُوسری طرف، رسول اللہﷺ کی لشکر میں موجودگی کی خبر نے رومیوں، غسانیوں اور عرب کے عیسائیوں کو خوف زدہ کر دیا۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شاہِ مدینہؐ اتنا طویل سفر طے کر بنفسِ نفیس میدانِ جنگ میں تشریف لے آئیں گے۔ کسی میں مقابلے کی ہمّت نہ تھی اور وہ سب میدانِ جنگ سے غائب ہوگئے۔ رومی فوجوں کی اس بزدلی نے خود روم کے زیرِ اثر علاقوں اور عرب قبائل پر مثبت اثرات مرتّب کیے۔

تبوک سے واپسی پر پُرجوش استقبال

جب آپؐ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینے کے قریب پہنچے، تو لوگ عالمِ شوق میں استقبال کو نکلے۔ اُس وقت لڑکیاں یہ اشعار گا رہی تھیں’’وداع کی گھاٹیوں سے ہم پر چاند طلوع ہوا،جب تک اللہ کو پکارنے والا دُنیا میں کوئی باقی ہے، ہم پر اللہ کا شُکر فرض ہے۔‘‘آنحضرتؐ رجب میں تبوک روانہ ہوئے اور رمضان میں واپس تشریف لائے۔ اس طرح رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارکہؐ کا یہ آخری غزوہ پچاس دنوں میں مکمل ہوا ۔

مسجدِ ضرار

مدینے سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک بستی’’ ذی رواں‘‘ میں منافقین نے مسجد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا مرکز قائم کیا۔ رسول اللہﷺ غزوۂ تبوک کے سفر کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ منافقین کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی’’یارسول اللہﷺ! مسجدِ نبویؐ ہمارے گھروں سے دُور ہے۔ لہٰذا، ہم نے معذوروں، بیماروں اور ضعیف لوگوں کے لیے اپنی بستی میں ایک مسجد تعمیر کی ہے۔ آپؐ وہاں نماز کی امامت فرما دیں تاکہ وہ سب میں مقبول ہو جائے۔‘‘ آپؐ نے مسجد میں نماز کو تبوک سے واپسی تک مؤخر کر دیا۔ غزوے سے واپسی پر آپؐ نے حکم دیا کہ منافقین کی تیار کردہ مسجدِ ضرار مسمار کر دی جائے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کی حقیقت سورۃ التوبہ میں عیاں فرما دی تھی۔ غزوۂ تبوک میں تین صحابہؓ نے شرکت نہیں کی تھی، جس کا اُنہیں بے حد غم اور افسوس تھا، چناں چہ آنحضرتؐ کی واپسی پر تینوں دربارِ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور ندامت کا اظہار کیا۔ نبی کریمﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو اُن تینوں سے بات چیت کرنے سے منع فرمادیا۔ وہ تینوں پچاس دن تک توبہ استغفار کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ایک سو اٹھارہ میں اُن کی توبہ قبول کرنے کی نوید سُنائی۔

تازہ ترین