• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں، سیکورٹی ادارے اور سول سوسائٹی کے تمام حلقے اب اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ہے، جسے کنٹرول کیا جانا ضروری ہے۔ اب جب اس بات پر اتفاق رائے ہوگیا ہے تو پھر اس بات پر بھی اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے کہ ملک کے داخلی امن کے لئے پولیس کا کردار بہت اہم ہے اور دیانتدار اور جانباز پولیس افسروں اور اہلکاروں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، جو پولیس میں صرف نوکری نہ کرتے ہوں بلکہ اسے ایک مشن سمجھ کر اپنے فرائض انجام دیتے ہوں۔ اس بات کا خیال راقم کو اس وقت آیا، جب ٹی وی پر یہ خبر چل رہی تھی کہ غلام شبیر شیخ کو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس کراچی رینج تعینات کیا گیا ہے۔ اس وقت ان کے پاس آئی جی سندھ کا بھی اضافی چارج ہے۔
سندھ پولیس میں اچھی ساکھ کے حامل اور بہادر افسروں کی کمی نہیں ہے، جنہوں نے اس پیشے کو پیسہ کمانے یا طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ کبھی نہیں بنایا۔ غلام شبیر شیخ بھی ان افسروں میں سے ایک ہیں جن کا پولیس اور پبلک میں بہت احترام ہے اور جنہوں نے اپنی تقرری کی ہر جگہ پر اپنے کام کی بنیاد پر اپنے محکمے اور اپنے لوگوں کا اعتماد حاصل کیا اور اپنی کارکردگی پر داد تحسین حاصل کی۔ کراچی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا تقرر بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا لیکن دیر آید درست آید کے مصداق یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کی تقرری سے کراچی کے حالات بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ وہ محکمہ پولیس کے ایک بے باک، باکردار اور باصلاحیت افسر ہیں۔ ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نیک نام بھی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن وامان کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے ایسے افسروں سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ آئندہ حکومت کے لئے ان کا نعرہ ”امن، امن اور صرف امن“ ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی 2013ء کے عام انتخابات کیلئے جس منشور کا اعلان کیا ہے، اس میں امن وامان کے قیام کو بنیادی ترجیحات میں رکھا گیا ہے۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کرنے اور ریاست کی عمل داری کو چیلنج کرنے والے عناصر سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ کراچی میں امن کا قیام بھی منشور کا بنیادی نکتہ ہے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے انتخابی منشوروں میں بھی پورے ملک خصوصاً کراچی میں امن قائم کرنے پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کی فوج نے بھی اپنا نظریہ تبدیل کردیا ہے اور دہشت گردی، بدامنی اور داخلی انتشار کو ملک کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج نے بھی اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ سرحدوں کے اندر ہونے والی خونریزی کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ ملک کے تمام تاجر، صنعت کار، دکاندار، سرکاری ملازمین، وکلاء، طلبہ، محنت کش، خواتین، بچے، نوجوان اور بوڑھے سب اس خونریزی سے پریشان ہیں اور وہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے زیادہ بڑا مسئلہ بدامنی کو تصور کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والا داخلی انتشار اب اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی کسی ایک ملک میں اتنا قتل عام نہیں ہوا ہوگا، جتنا گزشتہ 35 سالوں میں پاکستان میں ہوا ہے اور کراچی میں اس عرصے کے دوران جتنے بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں، اتنے مجموعی طور پر پورے ملک میں نہیں مارے گئے ہوں گے۔ کراچی میں آگ وخون کا اگر یہ کھیل نہ روکا گیا اور پاکستان کی سیاسی وغیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کسی مصلحت کا شکار رہی تو پاکستان میں نہ صرف امن وخوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا بلکہ پاکستان کی سلامتی کو بھی خدانخواستہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آج حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، ان میں اگرچہ افواج اور نیم فوجی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن قیام امن کیلئے ان اداروں پر مستقل انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں میں پولیس کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس کیلئے پولیس کو جدید ہتھیار، اسلحہ اور آلات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پولیس افسروں اور اہلکاروں کی صلاحیتوں میں اضافے پر بھی توجہ دینا ہوگی لیکن دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں دیانتدار اور بہادر پولیس افسروں اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی اور انہیں ایسی جگہوں پر ذمہ داریاں سونپنی ہوں گی، جہاں دہشت گردی کا چیلنج سب سے زیادہ ہے۔ اس حوالے سے غلام شبیر شیخ کی کراچی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے تقرری کا فیصلہ انتہائی درست ہے۔ اس سے قبل وہ کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ سی آئی ڈی سندھ کراچی میں اے آئی جی کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس عہدے پر تعیناتی کے دوران ان کی کارکردگی حیران کن رہی۔ انہی کی نگرانی میں سی آئی ڈی پولیس نے بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا اور دہشت گردی کے کئی خطرناک منصوبوں کو ناکام بنایا۔ حکومت سندھ ان دہشت گردوں کی گرفتاری کو اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔ وہ کوئٹہ جیسے حساس شہر میں بھی کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ کوئٹہ کے حالات بھی کم وبیش کراچی جیسے ہیں، جہاں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے نیٹ ورکس بہت مضبوط ہیں اور وہاں بھی کراچی جیسی پیچیدگیاں ہیں۔ ان کے دور میں کوئٹہ کے حالات نسبتاً بلکہ بہت حد تک بہتر رہے۔ غلام شبیر شیخ نہایت ہی اچھی شہرت کے حامل ہیں اور محکمہ میں بھی انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی اس شہرت کی وجہ سے محکمہ پولیس کی طرف سے انہیں ہمیشہ اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران ہمیشہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اچھی شہرت کے حامل اور دیانتدار افسروں کو آگے لایا جائے اور پولیس میں سیاسی مداخلت بند کی جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سندھ حکومت کے بعض دیگر وزراء بین السطور سپریم کورٹ کے ان ریمارکس پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور سپریم کورٹ کی طرف سے بعض پولیس افسروں کو ہٹانے پر یہ سوال بھی کرتے رہے ہیں کہ اگر انتظامیہ کا کام عدلیہ کرے گی تو ہم حکومت کیسے چلائیں گے اور امن وامان کیسے قائم کریں گے۔ اس طرح سپریم کورٹ کی طرف سے پولیس میں حکومتی مداخلت کی بات ہوتی رہی ہے اور حکومت کی طرف سے بین السطور انتظامی معاملات میں عدلیہ کی مبینہ مداخلت کا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے لیکن غلام شبیر شیخ کی کراچی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے تقرری کے بعد عدلیہ اور انتظامیہ میں الفاظ کی یہ جنگ بھی ختم ہوسکتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان بھی غلام شبیر شیخ کی شہرت سے یقینا آگاہ ہوں گے۔ جن لوگوں کی اپنے محکمے اور عوام میں عزت ہوتی ہے، ان پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے۔ حکومت سندھ نے جاتے جاتے ایک اچھا کام کیا ہے لیکن یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ غلام شبیر شیخ کی ریٹائرمنٹ قریب ہے۔ وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ وہ انہیں کچھ عرصے کے لئے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کریں اور ہوسکے تو انہیں آئی جی سندھ کا مکمل چارج دے دیں۔ کراچی میں بدامنی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے ان کی خدمات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
تازہ ترین