• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ہمسایہ برادر اسلامی ملک افغانستان میں 19سال کی طویل جنگ اور خانہ جنگی کے بعد بالآخر امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا میں امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس کے مطابق طالبان افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، 135دن میں 8ہزار امریکی فوجی ہی رہ جائیں گے جو 9ماہ میں نکل جائیں گے۔ حاصلِ جنگ اس کا یہ رہا کہ اب یہ حقیقت پوری دنیا پر عیاں ہو گئی کہ طالبان ہی افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی اور کسی بیرونی حملے اور مداخلت کے خلاف غالب مزاحمتی قوت ہیں۔ معاہدے میں دستخط شدہ مندرجات کے مطابق اب اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ افغان سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی نوعیت کی لمبی موجودگی، ماسوائے سفارتی مشن کے ہوگی۔ امریکہ کی موجودگی نہیں ہوگی تو پھر نیٹو کے رُکن ممالک کی بھی ایسی ہی موجودگی کا نہ ہونا طویل جنگ اور خانہ جنگی کا ایک اور منطقی انجام ہے۔ رہی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے والے بھارت کی موجودگی، اس کا خاتمہ معاہدہ دوحا کا حصہ تو نہیں لیکن ایک اور بڑا انجام ہوگا۔ بھارتی سفارتخانہ اور ’’سرمایہ کاری فقط سرمایہ کاری‘‘ آنے والی افغان حکومت کی تجارتی اور سرمایہ کاری کی پالیسی کے تابع ہو گی۔ یہ بھی کہ بھارت کی سفارتی موجودگی کا حجم کتنا ہونا چاہئے اور نئی دہلی میں افغان سفارتی مشن کتنا ہو، یہ کچھ خود مختار ملکوں کی قومی مفادات کے پیش نظر ہونے والے بیرونی اثر سے آزاد فیصلوں کے ماتحت ہی ہوگا، جو افغانستان میں تو ہوگا لیکن بھارت نے افغان عوام اور اب انہی کی فلاح اور افغانستان میں امن کو یقینی بنانے میں سرگرم ہونے والی حکومت کے خلاف اگر ذرا سا بھی تجاوز کیا تو یقیناً افغان بطور قوم ملک اور حکومت کا جواب اپنے ملک میں نہیں، وہیں دیں گے جہاں سے ایسا شر اٹھے گا۔ ایک تو اب کوئی طاقتور سے طاقتور ملک بھی افغانستان میں معمول کی سفارتی اور تجارتی، عالمی قبولیت کی حامل ہونے والی سرگرمی کے علاوہ کسی اور نوعیت کی مداخلت، سرگرمی یا خفیہ ایجنڈے کی پیروی کرنے کے شر پر ہزار بار سوچے گا کہ یہ پیغام پوری دنیا کو امریکہ نے طالبان سے معاہدے کیلئے اختیار کیے گئے رویے، اقدامات اور پالیسی سے دیدیا کیونکہ امریکہ اور اس کی موجود قیادت کا یہی رویہ خود پچھلی سب امریکی حکومتوں کے بہت جذباتی غلط فیصلوں اور غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے تحت اقدامات کا ازالہ ثابت ہوا۔ اسی راہ سے امریکہ، افغان سرزمین کی سخت گیر غالب سیاسی و عسکری قوت کے لپٹے کمبل کو اُتارنے میں کامیاب ہوا ہے۔ واشنگٹن کیلئے لازم ہو گیا ہے کہ وہاں کوئی بھی حکومت ہو، مسئلہ فلسطین و کشمیر کے حوالے سے امریکہ کو ہر دو عالمی مسائل پر جس میں اب بھارت اور میانمار میں مذہبی آزادی کی بدترین کیفیت بھی شامل ہو گئی ہے، اپنی جاری پالیسی پر نظر ثانی کرے اور طاقتور امریکہ کے روایتی پاور بروکرز سے آزادی حاصل کرکے اسٹیچو آف لبرٹی کے بےاثر ہو جانے والے پیغام کو پھر سے بااثر بنائے۔ رہا معاملہ بعد از معاہدۂ دوحا کے امکانی فارن فری افغانستان کا تو 20سال سے طرح طرح کے جنگ و جدل اور اس سے قبل گیارہ سالہ افغان جہاد سے سوویت جارحیت اور قبضے کا خاتمہ کرنیوالی امن کی شدید پیاسی افغان قوم نے اپنے لئے امن و آتشی کے جام اور استحکام و خوشحالی کے سبھی ذرائع، خود باہمی اتحاد و یکجہتی سے کرنی ہے جو اب افغان قوم کی اتنی ہی بڑی ضرورت بن گئی ہے، جیسے عشروں سے ان کی امن و استحکام کی ضرورت سے بڑھ کر افغان آزادی و خود مختاری بنی رہی اور بن کر بڑھتی ہی گئی۔ اس اضافے نے ان خصوصاً طالبان کی ورطہ حیرت میں ڈالنے والی مزاحمت کو ممکن بنایا، جس کا ذریعہ محویت افغان قوم کیلئے ہمیشہ ہی اپنی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کیلئے جان سے بےنیاز رہا۔ تبھی تو اللہ تبارک تعالیٰ نے وہ حالات پیدا کیے کہ ہمسایہ ملک پاکستان میں عمران خان کی ’’حکومت کی صلح جوئی اور جنگ نہیں امن میں اشتراک کی پالیسی‘‘ پر عملدرآمد کے تعاون سے امریکیوں اور خود طالبان قیادت کو وہ باہمی اعتماد مل گیا کہ حقیقی آزادی اور محفوظ راستے کے متلاشی دونوں ہی فریق میز پر آمنے سامنے فقط بیٹھے ہی نہیں بلکہ بیٹھ کر اپنی اپنی ضرورت، عزت اور وقار کے مطابق معاہدۂ دوحا کرنے کے قابل بھی ہو گئے۔ اللہ اکبر!

بلاشبہ معاہدۂ دوحا نے افغانستان سے قابض روسی افواج کے مکمل انخلا 1989-90کے بعد پھر ایک بار آج کی دنیا پر واضح کیا کہ اب قبضے، قبضہ گروپ، مافیا کا زمانہ بیت گیا، جو نہیں مانے گا اور اپنی طاقت اور اہداف کی مغلوب حیثیت و کیفیت کو ہی اپنی سپرمیسی اور شیطانی اقدامات کی کامیابی سے تعبیر کرتا ہے اسے بالآخر طالبان والی مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ اتنے بڑے سبق کے باوجود بھارت اور اسرائیل، زمانے کے برعکس الٹ چلتے ہوئے اپنے قرب میں کیا، اندر ہی افغانستان اور پاکستان خود ہی تشکیل دے رہے ہیں اور دنیا اور خود کو بھی تشویش میں رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کا حاصل کوئی افغانستان کی آخری کامیابی نہیں، یہ ساری دنیا کو سبق ہے جو عالمی امن و استحکام کیلئے دنیا کو پڑھنا، سمجھنا اور سمجھ کر اس پر چلنا بھی ہے۔ افغانیوں کا یہ معرکہ بےپناہ نتائج کا حامل اتنا عظیم سبق ہے کہ غلبے کے نشے میں من گھڑت قومی مفاد اور منڈی کتنی بھی بڑی ہو، انسان کے پیدائشی حق اور حق کی حقیقت کو دنیا میں کچلا نہیں جا سکتا۔ اب دنیا کو سمجھ آئے گی کہ اقبال نے یہ کیوں کہا تھا، افغان باقی، کہسار باقی، الحکم للہ، الملک للہ!

تازہ ترین