اسلام آباد، واشنگٹن، کابل(اے ایف پی، خبرایجنسیاں، جنگ نیوز)امن معاہدے کو دوسرا دھچکا،طالبان کا اشرف غنی کو جواب، افغان فورسزپر حملے شروع ہوگئے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ معاہدے میں قیدیوں کو 10مارچ تک رہا کرنے کا طے ہواتھا، عمل نہ کیا تو انٹرا افغان مذاکرات کا حصہ بھی نہیں بنیں گے جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ معاہدے پر پیشرفت نہ ہوئی تو فوج کا انخلاء روک دینگے۔
دوسری جانب امریکی جنرل کاکہناہےکہ افغانستان سے تشدد کا مکمل خاتمہ فوری نہیں ہوسکتاکیوں کہ افغانستان میں صرف طالبان ہی نہیں، دیگر کئی دہشت گرد تنظیمیں کام کررہی ہیں لہٰذا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ تشدد کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا تو یہ ممکن نہیں۔
افغانستا ن کے صوبے خوست میں فٹبال میچ کے دوران بم حملے میں 3بھائی جاں بحق ،11 زخمی ہوئے، بادغیس میں ایک دوسرے حملے میں افغان فوجی ماراگیا۔
ادھر امریکی وزیرخارجہ نے کہاہےکہ طالبان اور افغان فورسز پر تشدد واقعات میں کمی لائیں، جبکہ امریکی وزیر دفاع نے کہاہےکہ امریکا امن معاہدے پر قائم ہے اور افغانستان سے فوجی انخلاء فوری کیا جائیگا۔
ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہےکہ پاک افغان معاملات کے حل کیلئےادارہ جاتی میکانزم موجود، واشنگٹن کی ضرورت نہیں، کابل ہم سے بات کرسکتا ہے۔
تفصیلات کےمطابق افغانستان میں 7روزہ امن معاہدہ ختم ہوتے ہی ایک جان لیوا حملہ دیکھنے کو ملا جبکہ طالبان نے افغان فورسز کیخلاف آپریشنز دوبارہ شروع کرنے کےاحکامات جاری کردیئے ہیں، کسی بھی گروپ کی جانب سے اب تک مشرقی افغانستان کے علاقےخوست کے فٹبال اسٹیڈیم میں ہونیوالے اس جان لیوا حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے، یہ بم حملہ اسی وقت ہوا جب طالبان نے افغان فوج اور پولیس اہلکاروں پر حملے شروع کرنے کے احکامات دیے۔
اس سلسلے میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کاکہناہےکہ7دن میں تشدد میں کمی لانے والا معاہدہ اب باضابطہ طور پر ختم ہو چکا ہے ، اب ہمارے آپریشنز اب معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔
امریکاطالبان معاہدے کے مطابق ہمارے مجاہدین غیرملکی افواج کو نشانہ نہیں بنائینگےلیکن ہمارے آپریشن کابل حکومتی فورسز کیخلاف جاری رہیں گے۔
غیرملکی خبررساںادارے کو ملنے والے دستاویزات کے مطابق طالبان ملٹری کمیشن نے اپنے جنگوئوں کو آپریشنز بحال کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
اس کےفوری بعد ایک افغان فوجی کمانڈر نے غیرملکی خبررساں ادارے کو بتایاکہ طالبان شمال مغربی صوبے میں افغان فوجی مقامات کو نشانہ بنارہے ہیں اور ایک فوجی مارا جاچکا ہے۔
دوسری جانب امریکانے اس امید کا اظہار کیاہےکہ طالبان انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز سے قبل تشدد میں کمی کو برقرار رکھےگا۔
افغانستان میں امریکی فوج کا کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر کاکہناہےکہ تشدد میں کمی ایک اعتماد سازی تھی، ہم اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ طالبان بھی اپنی ذمہ داریوںکے حوالے سے سنجیدہ ہونگے، امریکا اپنی امیدوں کے حوالے سے بہت واضح ہےکہ تشدد میں لازمی کمی رہنی چاہیے۔
قبل ازیں امریکا یہ کہہ چکاہےکہ اگر افغان شراکتداروں پر حملے ہوئے تو وہ انکا دفاع کریگا۔دوسری جانب خوست کے پولیس سربراہ سید احمد بابازئی نے کہاہےکہ فٹبال میچ کےدوران ہونےوالے بم حملے میں 3افراد جاں بحق اوردیگر 11 زخمی ہوگئے، بم حملے میں موٹر سائیکل کااستعمال کیاگیا۔
خوست فٹبال فیڈریشن کاکہناہےکہ جاںبحق ہونےوالے تینوں افراد بھائی ہیں۔بم حملے کے بعدامریکا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارک میلے نے کہاہےکہ افغانستان سے تشدد کا مکمل خاتمہ فوری ممکن نہیں ،ہم نہیں جانتے یہ بم حملہ کس نے کیا، طالبان ایک واحد بااختیار گروپ نہیں افغانستان میں کئی دہشتگرد تنظیمیں کام کررہی ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں افغانستان میں تشدد کامکمل خاتمہ ہوجائےگا میںانسے یہی کہوںگاکہ فوری ایسا ہونا ممکن نہیں۔
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہاہےکہ امریکا دوحہ میں ہونےوالے معاہدے کی پاسداری کریگا اور افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء فوری کیا جائیگا، ہمیں امید ہےکہ تشدد میںکمی جاری رہے گی، ہم ہر طرح کی صورتحال کاسامنا کرنےوالے ہیںاور یقینی بنائینگے کہ ہم اپنے مشن پر متوجہ رہیں۔
قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہاہےکہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کا راستہ کٹھن اور ناہموار ہو گا،کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ مذاکرات مشکل نہیں ہوں گے، طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ ایک تاریخی دن تھا ،ہمیں امید ہے کہ آنے والے وقت میں باضابطہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز بھی ہوگا جوکہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، تقریبًا 2 دہائیوں کے دوران پہلی بار یہ مذاکرات افغان عوام میں ہوں گے اور ان مذاکرات کے لیے یہ مناسب جگہ ہے۔
معاہدے کے مطابق ہم تمام متعلقہ افغان فریقوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرنے، افغان حکومت، غیر طالبان اور دیگر کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات پیدا کرنے کے لیے کام کریں گےہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک جامع عمل ہو جس میں سب شامل ہوں۔
افغان حکومت نے بھی اس پر ہمیں یقین دہانی کروائی ہے،ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی یہ رہائی ’بات چیت کی شرط نہیں ہو سکتی‘ لیکن مذاکرات کا حصہ ضرور ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کو ہر طرح سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہیں، ہم نے افغانستان میں موجود تمام فریقوں چاہے طالبان ہوں یا سکیورٹی فورسز سے کہا ہے کہ وہ پر تشدد واقعات میں کمی لائیں۔
ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ پاک افغان معاملات کے حل کیلئے امریکا کی ضرورت نہیں ،وزیر خارجہ شاہ محمود کا غیر ملکی خبر ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو دو طرفہ معاملات کے حل کے لئے امریکا کی ضرورت نہیں ہے، مجھے افغانستان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا تو میں امریکا سے کردار ادار کرنے کا نہیں کہوں گا بلکہ میں خود رابطہ کروں گا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو سمجھنا چاہیے کہ امریکا یہاں سے نکل رہا ہے جبکہ ہم ہمیشہ ہمسائے رہیں گے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد کا بحران رہا لیکن پاکستان نے اعتماد کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدام کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے بطور وزیر خارجہ پہلا دورہ ہی کابل کا کیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے لئے افغانستان کتنا اہم ہے، افغانستان میں جلدی قیدیوں کے تبادلے سے معاملات آگے بڑھیں گے، قیدیوں کے تبادلے سے دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد سازی ہوگی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے تبادلے سے یہ پیغام جائے گا کہ سب اپنے ماضی سے نکل چکے ہیں اور مستقبل پر نظر ہے۔