• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انور احمد علوی کی کتاب ’’سود کے تعاقب میں‘‘ کا تازہ ایڈیشن کراچی سے شائع ہوا ہے۔ بحیثیت بینک آڈیٹر آپ نے جوانی کے تین سال (1980۔1977)آزاد کشمیر میں گزارے۔ آپ کے مشاہدات طنز و مزاح سے بھرپور ہیں جن کی معروضی اہمیت بدستور قائم ہے۔ کشمیر کیا ہے؟ اس بارے میں آپ لکھتے ہیں: ’’ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ جو اکتوبر 1947کو آزاد کرایا گیا تھا ہمارے ہاں آزاد کشمیر کہلاتا ہے اور ہندوستان میں ’مقبوضہ کشمیر‘۔ اسی طرح جو حصہ ہندوستان کے پاس ہے وہ ہماری نظر میں مقبوضہ ہے اور ہندوستان کے خیال میں آزاد ہے۔ اگر ’مقبوضہ‘ کا لفظ درمیان سے نکال دیا جائے تو دنیا کی نظر میں کشمیر کی اہمیت کم ہو جائے۔ یہ مقبوضہ نہ ہوتا تو پاک و ہند کے تمام سیاستدان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے‘‘۔

سید منظور گیلانی آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس رہے ہیں۔ آپ خود نوشت سوانح ’’میزان زیست‘‘ کی ابتدا میں رقمطراز ہیں: ’’آزاد کشمیر کوئی قومی یا تاریخی ریاست نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی شکست و ریخت کی وجہ سے پیدا ہونے والے ایک ٹوٹے پھوٹے بےجوڑ جغرافیائی خطے کو ایک سیاسی حقیقت بنا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس وقت مسئلہ کشمیر کو اہمیت حاصل ہے‘‘۔ ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں: ’’کہنے کو تو آزاد کشمیر آزاد ہے لیکن یہ نہ تو کشمیر ہے اور نہ ہی آزاد ہے۔ نہ پاکستان کا صوبہ ہے اور نہ ہی کالونی۔ کشمیر اس معنی میں ضرور ہے کہ یہ ریاست کشمیر کا ایک حصہ ہے اور آزاد اسلئے کہ یہاں کے لوگوں نے اپنی مرضی سے پاکستان کو پسند کرکے قبول کیا ہے وگرنہ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ اصل میں اس کا پر تو ہے جو پاکستان کے باقی صوبوں میں ہوتا ہے۔ کچھ اجارہ دار سیاستداں پاکستانی اتھارٹیز کو جل دے کر پاکستان کا دفاعی یونٹ اور لوگوں کو پاکستان کے بےتنخواہ دار سپاہی ظاہر کرتے ہیں جبکہ در پردہ ان کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ اسے محض جھانسے میں رکھ کر اپنے اختیار، اقتدار اور سیاست کو دوام دینا چاہتے ہیں‘‘۔

برطانیہ میں مقیم آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے لکھاری اسرار احمد راجہ حال ہی میں شائع شدہ اپنی کتاب ’’کشمیر کا المیہ‘‘ میں دعویٰ کرتے ہیں: ’’آزاد کشمیر میں غنڈہ راج قائم ہے اور پاکستانی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مجرم ذہن اور کرپٹ عناصر کے ہاتھوں آزاد کشمیر کے عوام کا استحصال کرتی ہیں۔ صدر ریاست اور وزیراعظم کی علامتی حیثیت ہے۔ عبوری آئین نمائشی اور حکومتی نظام پاکستانی سیاسی جماعتوں کی خواہش کا نام ہے‘‘۔ کتاب کی ابتدا میں ملک بشیر مراد ایڈووکیٹ صاحب تجزیہ کرتے ہیں: ’’مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان اہلِ کشمیر نے خود پہنچایا ہے۔ متعدد نظریوں اور نعروں نے آزادی کے متفقہ تصفیے پر یکجا نہیں ہونے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس خواجہ محمد شریف صاحب 2007میں وادی کشمیر کے دورے پر گئے جس دوران آپ نے تاریخی مقامات کی سیر کی، اپنے خاندان والوں سے مختصر ملاقات کی اور باقیماندہ وقت بھارت نواز کشمیری اشرافیہ کے ساتھ گزارا جس میں کئی بدنام زمانہ افسران بھی شامل ہیں۔ دس روزہ دورے پر ایک مختصر سفرنامہ ’’وادیٔ جنت نظیر کشمیر‘‘ کے نام سے شائع کرایا جو آپ نے چند سال پہلے مرحمت فرمایا۔ اس دور میں حالات بہت بہتر تھے مگر اس کے باوجود آپ کو جگہ جگہ فوجی دستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خواجہ صاحب اگرچہ عام لوگوں سے دور ہی رہے مگر اس کے باوجود آپ اس حتمی نتیجے پر پہنچے کہ ’’ننانوے فیصد کشمیری اب خود مختار کشمیر کے حق میں ہیں‘‘ گو کہ آپ کے بقول کشمیریوں کی کثیر تعداد پاکستان کے بارے میں خیر اور ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس جسٹس گیلانی کے خیال میں خود مختار کشمیر کا نظریہ پاکستان سے بدگمانی کی وجہ سے پروان چڑھا ’’وگرنہ مقبوضہ کشمیر کے 99فیصد مسلمان پاکستانی نظریے کے لوگ تھے‘‘۔

چند ہفتے قبل مظفرآباد جانے کا اتفاق ہوا تو دیرینہ دوست سابق بیوروکریٹ اور شاعر سہیل اکرم سے ایک مختصرملاقات ہوئی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ اگست کے اقدامات کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال پر آپ نے ایک قطعہ عنایت فرمایا جس سے صورت حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔

خون جو بھی بہہ رہا ہے، رائیگاں جاتا ہے کیوں؟

کوئی سنتا ہی نہیں تو کوئی بھی فریاد کر

تم اگر آزادی کشمیر کے خواہاں ہو

سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کو آزاد کر

تازہ ترین