• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
تحریک انصاف جب سے برسراقتدار آئی ہے، ہنگامہ خیز سیاست جو ملکی ذہنی نشوونما کیلئے لازم ہے کہیں دیکھنے کو نہیں مل رہی، زیادہ سیاسی بحث ومباحثہ ہورہا ہے اور نہ ہی سیاسی نرسریاں کام کرتی نظر آرہی ہیں جن سے مستقبل کی قیادت ابھرنے کی توقعات رکھی جاسکتی ہیں، ایک غیر متوازن سکون کا عالم ہے، جس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہوسکتی ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت ماتحت ادارہ پیمرا کے ذریعہ کئی میڈیا ہائوسز کو ٹارگٹ کررہی ہے، وزیراعظم جو ایک لبرل سیاستدان ہیں بھی اکثر میڈیا کے کئی بڑے حصوں سے ابھرتی اینٹی عمران بیجومہ تنقید کی شکایت کرتے ملتے ہیں، آج کل حکومت کی دو اہم شخصیات فردوس عاشق اعوان اور ڈاکٹر یاسمین راشد جو بالترتیب وزیراعظم کی معاون خصوصی اور پنجاب حکومت کی وزیر صحت ہیں کے درمیان بڑے میاں صاحب کی علالت کے ارگرد جو گفتگو چل رہی ہے وہ طاقتور میڈیا گروپس کا اثرورسوخ اور دوسری طرف ایک اکیلی کمزور خاتون کے بیانیہ کا ایک منظر نامہ ہے۔ جو وزیراعظم کی فرسٹیشن واضح کررہا ہے اور دوسری طرف پاورفل میڈیا گروپس ہیں کہ وزیراعظم اور حکومت کی کسی بات کا نوٹس ہی نہیں لیاجارہا۔ ہمارا میڈیا اتناUnregulatedہے کہ درجنوں اخبارات کے علاوہ قوم کو مزید کنفیوز کرنے کےلئے چالیس سے پچاس کے قریب ٹی وی سٹیشنز بھی موجود ہیں نہ ہی ہماری صحافتی معیشت اور نہ ہی ہمارا قومی Intelectاتنا ڈیویلیڈ ہے کہ اس غیر محفوظ ماحول میں خود ہی یہ طے کرسکے کہ کون ملک کے بہتر مستقبل کیلئے کوشاں ہے اور کون صرف قرض لےکر ملک چلانے پر یقین رکھتا ہے، پاکستانیوں کی بھاری اکثریت سمجھتی ہے کہ پریس اور سوشل میڈیا کو ذمہ دار انداز میں ریگولیٹ کرنے سے جامع اظہار خیال بھی ابھرسکے گا، حکومت اور میڈیا کے درمیان بہتر انٹرایکشن بھی ہوپائے گا، جس سے بالآخر معاشرہ کے تمام حصے مستفید ہوپائیں گے، ایک ایوریج عقل کے آدمی کو بھی، جب میاں صاحب کو صحت کی بنیادوں پر رہائی ملی تو واضح تھا کہ ان کی یہ سہولت ان کے ملک سے باہر آنے کےلئے پہلا قدم تھا۔ ان دنوں سے لیکر ان کے برطانیہ آجانے تک ہر معتبر چینل ہر دس منٹ بعد میاں صا حب کی صحت پر بریکنگ نیوز دیتا رہا، جن کا مجموعی خلاصہ یہ تھا کہ بڑے میاں صاحب کی طبعیت بہت خراب ہے، انہیں علاج کیلئے برطانیہ جانے کی اجازت دی جائے، حکومت پر دبائو بڑھانے کےلئے قائد حزب اختلاف نے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر مسلم لیگ ن کے قائد کو ان کا پسندیدہ علاج نہ ملنے کی وجہ سے کچھ ہوگیا تو ذمہ دار عمران خان ہونگے، اس کامیاب میڈیا مہم کو طاقتور میڈیا کے علاوہ یقینی طور پر کئی دیگر اہم جگہوں سے بھی مدد مل رہی تھی بالآخر وزیراعظم محترم کو بھی Dupeکرلیا کہ بڑے میاں صاحب واقعی بہت علیل تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ سب کچھ پنجاب حکومت کے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ کی نگرانی میں ہورہا تھا۔ ای سی ایل سے نام نکالے جانے پہ تین وفاقی وزرا نے مخالفت کا اظہار کیا، وزیراعظم کا اب میڈیکل رپورٹس اور اس وقت کے میڈیا ماحول پہ تنقید کرنا Bolting the Carriage, After the Horse is Goneوالی بات ہے، انہی دنوں میں تیز رفتاری سے مسلم لیگ ن کے قائد کے معاملات طے ہورہے تھے، مثلاً جس طرح میڈیا میسج ہوا، جس طرح نپے تلے الفاظ میں شریف خاندان کے اہم افراد کے بیان سامنے آئے، جس طرح دوسری جماعتوں کے اہم لوگوں کو شریک مہم بنایا گیا۔ واضح تھا کہ کوئی دوسری حکومت اس اہم مشن کی تکمیل کروارہی ہے۔ جہاں وزیراعظم کی موجودہ صورتحال پہ خفت قابل فہم ہے، انہیں اپنی ہتھیلی پہ پانی کی طرح کمزور اور ناسور حکومت کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے بچھائے جالوں میں ہرگز نہیں پھنسنا چاہئے، ان دنوں یہی بریکنگ نیوز میڈیا شریف فیملی اور نیب کے درمیان کسی مالی ڈیل کی بات بھی کررہا تھا۔ مگر ریاست اس حوالہ سے تاحال کچھ نہیں کہہ پارہی اور نہ ہی کسی ڈیل کے ہونے کے ثبوت مل رہے ہیں۔ وزیراعظم آپ کی حکومت کے ساتھ ایک سے زیادہ حوالوں سے ہاتھ ہوگیا ہے، بظاہر ملک کے کئی اہم خفیہ ادارے آپ کے ماتحت ہیں، جس طرح ظاہر ہورہا کہ عوامی بہتری کے ہر کام میں آپ کو ذاتی مداخلت کرنی پڑرہی ہے لگتا ہے حکومت نہ اکٹھی ہے اور نہ ہی فعال، ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی حکومت جس ریموٹ کنٹرول سے چل رہی ہے معاملہ شریف خاندان کا ہو، معاملہ انتہائی گہری مہنگائی اور بے روزگاری کا ہو، معاملہ ایک متحرک حکومت کا ہو جو مختلف کارٹیل کے زیر اثر نہ ہو، معاملہ بین الاقوامی امور سے ہو جہاں ہم کشمیرمیں چھ ماہ سے زائد لگے کرفیو کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہیں وہ ریموٹ آپ کے کنٹرول میں نہیں، آپ کی حکومت کی ان دو اہم خواتین کا باہمی عدم اعتماد، جہاں وہ دونوں ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں قوم کا وقت ضائع کررہی ہیں۔ ثابت کرتا ہے کہ آپ کی مرکزی اور صوبائی قیادت ایک پیج پہ نہیں اور نہ ہی وزیر صحت آپ کے بیانیہ سے اتفاق کرتی نظر آتی ہیں؟ حکومت کیلئے برطانوی حکومت کو یہ لکھنا کہ وہ بڑے میاں صاحب کو برطانیہ بدر کرکے واپس پاکستان بھیج دے ایک غیر معقول قدم ہوگا، جس کی کامیابی کے کوئی آثار نہیں، عقلمندی یہی ہے کہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ پی ٹی آئی حکومت مسلم لیگ ن سے یہ رائونڈ ہارچکی ہے آنے والے رائونڈز کیلئے بھی حکومت اگر اہل طریقوں سے اپنے اہداف کا پیچھانہ کرسکی تو نتیجہ مختلف نہ ہوگا، وزیراعظم محترم ایک Instinctiveسیاستدان ہیں اور ایسے Moods میں انہوں نے ماضی میں جو بھی فیصلے کئے ان فیصلوں کو عوام میں پذیرائی ملی، ہر بڑا انسان جو اپ عہدہ کے لحاظ سے ہیں اپنے اردگرد سے فیصلے کرنے کے حوالہ سے زیادہ اثر قبول کرتا ہے۔ پرائم منسٹر ہاوس بیوروکریسی ہر وزیراعظم کو اپنے اندر سمجھ لیتی ہے اورپرانے رفقا سے دور کردیتی ہے اپ کو بحیثیت ایک اہل وزیراعظم پر فارم کرنے کےلئے دوسروں کے ساتھ اپنے دیرینہ رفقا کے ساتھ کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اپ کے کئی اہم منصوبہ جات سے اچھے نتائج نہ ابھرنا، نہ تعاون کرنے والی بیوروکریسی کی وجہ سے ہے اسلئے جماعت کے دیرینہ کارکنوں کو مختلف محکمہ جات میں ذمہ داریاں سونپنا آپ کے مشن کی تکمیل کیلئے نہایت ضروری ہے، صوبہ جات اور آزاد کشمیر میں بھی ایسی ہی پالیسیاں اپنائی جانی پی ٹی آئی وژن کی کامیابی کیلئے اہم ہیں، اللہ مملکت پاکستان کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن رکھے۔
تازہ ترین