عمر چیمہ
اسلام آباد :… ایک پراسرار پیشرفت میں چیئرمین نیب نے وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی خسرو بختیار اور ان کے بھائی کے خلاف انکوائری ملتان سے لاہور دفتر منتقل کردی ہے جس سے اس کی قسمت پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں جیسا کہ یہ نیب ملتان ہی تھا جس نے شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ان کے اربوں کے اثاثوں کا سراغ لگایا تھا۔
نیب ترجمان نے دی نیوز کے رابطہ کرنے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ اس معاملے میں شکایت کنندہ کو اس منتقلی کی وجہ نہیں بتائی گئی ہے جو اس حقیقت کے باوجود کی گئی ہے کہ یہ ملتان کے علاقائی دائرہ اختیار میں تھی۔
باخبر حکام کے مطابق یہ منتقلی نیب ملتان کی رضامندی کے بغیر کی گئی ہے جو اس معاملے کا بھرپور انداز میں تعاقب کرنا چاہتا تھا کہ وزیر کے بھائیوں کے اثاثے کس طرح اربوں روپوں تک بڑھ گئے ہیں۔
2018 کے اوائل میں احسن عابد ایڈووکیٹ نے ان کے خلاف شکایت درج کروائی تھی جسے نیب ہیڈ کوارٹر نے تصدیق کیلئے ملتان دفتر بھیج دیا تھا کیونکہ یہ کیس اس کے دائرہ اختیار میں آتا تھا۔
ستمبر 2018 میں الزامات کی تصدیق کے بعد ملتان آفس نے نیب ہیڈ کوارٹر کو اطلاع دی۔ تفصیل کے ساتھ نتائج کو شیئر کرنے کے علاوہ اس نے بتایا کہ تفصیلی تفتیش کے لئے الزامات کافی قابل اعتبار ہیں اور اس مقصد کے لئے اجازت کی درخواست کی۔ ایک سال سے زائد تک غیرفیصلہ کن رہنے کے بعد قومی احتساب بیورو نے جنوری میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار اور ان کے بھائی پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جوان بخت کے خلاف الزامات کی باضابطہ انکوائری کا حکم دیا لیکن وہ بھی شکایت کنندہ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ جانے کے بعد۔ دسمبر 2018 میں نیب ملتان کی جمع کرائی گئی شکایتی تصدیقی رپورٹ کے مطابق وزراء کے اہل خانہ نے پچھلی دہائی کے چھ سالوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔
اس نے چار شوگر ملز، بجلی پیدا کرنے والی پانچ کمپنیاں اور چار تجارتی کمپنیاں قائم کیں۔ علاقائی دفتر سے نیب ہیڈ کوارٹرز بھیجی گئی شکایتی تصدیقی رپورٹ کے مطابق ان کی زرعی املاک 5702 کینال (712 ایکڑ) سے بڑھ کر 7780 کینال (972 ایکڑ) ہوگئیں، مطلب اس طرح مختصر مدت میں مختلف شہروں میں 6 سے 7 رہائشی مکانات اور پلاٹوں کے ساتھ 2078 کینال (260 ایکڑ) کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق خسرو نے ڈی ایچ اے لاہور میں اپنے نام پر خریدی گئی بعض جائیدادوں کا کاغذات نامزدگی میں ذکر نہیں کیا جبکہ اس خاندان نے 2011 تا 2018 کے دوران تقریباً 979 ملین روپے کے غیرملکی ترسیلات زر وصول کئے۔ نیب ملتان کی رپورٹ نے انکشاف کیا تھا کہ وزیر کے خاندان کے اثاثوں کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 100 ارب روپے سے زائد ہے۔
اس اراضی کا مالک خاندان کس طرح اعلیٰ صنعت کاروں کے کلب میں داخل ہوا یہ ایک راز ہے۔ تفتیش کاروں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس سلطنت کی تعمیر کے لئے کوئی بینک قرضہ نہیں لیا گیا۔ انہوں نے رپورٹ میں لکھا کہ اگر تحقیقات کا حکم دیا جاتا تو مزید اثاثوں کا سراغ لگایا جاسکتا تھا اور ملزمان سے تفتیش کی جاتی۔
اب تک جو کچھ ملا ہے وہ کارپوریٹ ریکارڈ، ٹیکس ڈیکلیریشن، محصولات کی دستاویزات، بینکاری معلومات اور سفر کی تاریخ پر مبنی ہے۔ وزیر خود اکثر غیر ملکی سفر کرتا ہے۔ صرف گزشتہ پانچ سالوں میں ہی خسرو 189 مرتبہ بیرون ملک گئے جس کا مطلب ہے کہ ایک مہینے میں تین بار سے زیادہ مرتبہ وہ بیرون ملک گئے۔
انہیں تفتیش کیلئے حراست میں لئے جانے تک پتہ نہیں چلے گا کہ وہ وہاں کرتے کیا ہیں؟ اس کے بھائیوں کی تعداد مختلف ریکارڈوں میں مختلف ہے۔ نادرا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر کا صرف ایک بھائی ہے (جو اب صوبائی وزیر ہے) جبکہ لینڈ ریکارڈ بتاتا ہے کہ ان کے دو بھائی ہیں۔
اس خاندان کے عروج کو نیب کی شکایتی تصدیقی رپورٹ میں مندرجہ ذیل سطروں میں بیان کیا گیا ہےکہ 2006 سے اس خاندان کے اثاثوں میں اچانک غیر فطری اضافہ ہوا۔ ایک زرعی خاندان اچانک سے صنعتکار بن گیا اور کارپوریٹ سیکٹر میں اپنی آمدنی کے معلوم ذرائع سے کہیں زیادہ رقم سے سرمایہ کاری شروع کردی۔ کاروباری تفصیلات میں شوگر ملوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ وہ چار ہیں۔ ہر کیس میں وزیر کی والدہ اور بھائی حصہ دار ہیں۔
ان میں سے ایک 2006 میں قائم کی گئی کا منظور شدہ سرمایہ 1 ارب روپے ہے۔ وزیر کی والدہ اور بھائی اس کے حصہ دار ہیں۔ 2007 میں قائم کی گئی ایک اور کا منظور شدہ سرمایہ 2 ارب روپے ہے۔ یہاں بھی وزیر کی والدہ اور بھائی (اور ان کی اہلیہ) حصہ دار ہیں۔
تیسری شوگر مل 2016 میں شروع کی گئی۔ آخری والی کی سنگ بنیاد کی تاریخ کا تذکرہ نہیں۔ جب تفتیش کاروں نے چیک کیا تو شوگر ملز چلانے والے اس بھائی کا نادرا میں ریکارڈ نہیں ملا۔ نیب رپورٹ کے مطابق وزیر نے ایک شوگر مل میں 130 ملین روپوں کی سرمایہ کاری ظاہر کی ہے۔ خاندان کی جانب سے چلائی جانے والی دیگر ملوں میں ان کا بے نامی حصہ نظر آتا ہے۔
پورا خاندان مشترکا خاندانی نظام میں رہتا ہے جو ان کے واحد رہائشی پتے سے ظاہر ہے۔ چار تجارتی کمپنیاں وزیر کے بھائی کے نام پر ہیں۔ ان میں سے ایک لندن میں قائم کی گئی ہے۔
بجلی پیدا کرنے والی پانچ کمپنیاں بھی وزیر کے بھائی کے نام پر ہیں جو نادرا ریکارڈ کے مطابق ان کے بھائی ہیں۔ ہاشم جوان بخت ایتھنول تیار کرنے والی کمپنی کے مالک ہیں۔
جہاں تک زمین کی خریداری کا تعلق ہے تو تحقیقات سے انکشاف ہوتا ہے کہ ایک شوگر مل کے لئے خریدی گئی 126 ایکڑ کے علاوہ 2004 کے بعد سے زرعی اراضی میں مجموعی طور پر 260 ایکڑ کا اضافہ ہوا۔
اس میں سے وزیر نے خود اپنی والدہ سے تملیک کی تبدیلی کے ذریعے 216 ایکڑ اراضی حاصل کی اور ان کی والدہ نے وہ اراضی اپنی والدہ (وزیر کی نانی) سے تملیک کے ذریعے حاصل کی اور نانی نے اپنی دو بیٹیوں سے تملیک کے ذریعے وہ اراضی حاصل کی جنہیں یہ زیر اعتراض اراضی ان کے والد (وزیر کے نانا) کے انتقال کے بعد ورثے میں ملی تھی۔
نیب ہیڈ کوارٹرز بھیجی گئی رپورٹ میں ایک تفتیش کار نے لکھا کہ تملیک کی ان انتقال جائیدادوں میں سے زیادہ تر ایک ہی دن ہوئی اور جیسا کہ مجھے موضوع (وزیر) کی خالہ کے اثاثوں میں اگلے سالوں میں اضافہ دکھتا ہےجیساکہ ان میں سے ایک نے 16 ملین روپے کی مالیت سے گاڑیاں خریدیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ سارا لین دین مشکوک معلوم ہوتا ہے اور اس کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہےجیسا کہ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ اصل فائدہ اٹھانے والوں کو چھپانے کیلئے ’پرت چڑھانے‘ کا عمل اپنایا گیا ہے۔
وزیر کے غیر اعلانیہ پلاٹوں کے بارے میں تحقیقی رپورٹ کہتی ہے کہ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ 269 کینال زرعی اراضی 1991، 36 کینال 2015 میں اور پانچ پانچ مربع کے 2 پلاٹس نومبر 2017 میں ڈی ایچ اے لاہور میں خریدے گئے جن کا ذکر وزیر نے کاغذات نامزدگی میں نہیں کیا جنہیں 2018 کے ام انتخابات لڑنے کیلئے جمع کرایا گیا تھا۔ 2004 کے بعد خریدی گئی اس خاندان کی 12 شہری جائیدادیں گلبرگ اور لاہور کینٹ کے علاوہ لاہور ، اسلام آباد اور کراچی کے ڈی ایچ ایز میں ہیں۔
غیر ملکی ترسیلات زر کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ وزیر سمیت خاندان کے ایف بی آر کے بیانات میں 2011 کے بعد غیر ملکی ترسیلات زر کی آمد ظاہر ہوتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ اس خاندان نے سرمایہ کاری کی ہے اور اسے بیرون ملک جائیدادیں مل سکتی ہیں۔
ترسیلات زر کے ذریعے موصول ہونے والی کل رقم 797 ملین روپے ہے جس میں سے 9 ملین روپے وزیر کے اکاؤنٹ میں آئے۔ وزیر کے بھائی کی ملکیت غیر ملکی کمپنی نے سٹی بینک نیویارک اور امارات این بی اے دبئی میں بینک اکاؤنٹس کے علاوہ 2018 کے ایف بی آر کے بیان میں 1.06 ارب روپے کے اثاثے ظاہر کئے ہیں ۔
اس کے اختتامی صفحے پر رپورٹ کہتی ہے کہ ان کے قومی سیاست میں شامل ہونے سے پہلے وزیر کے بھائیوں سمیت پورا خاندان صرف اراضی کا مالک تھا جو دال روٹی کا واحد ذریعہ تھا اور 2004 میں کابینہ میں شامل ہونے کے بعد وزیر کے اہل خانہ کے عوامی عہدے نہ رکھنے والے ارکان جیسے کہ والدہ (گھریلو خاتون)، بھائی جن کے پاس زراعت واحد ذریعہ آمدنی تھی جو 100 سے زائد غیرملکی دوروں پر اخراجات کے باوجود بڑھ کر اربوں روپوں تک جاپہنچی، انتخابات لڑ رہے ہیں۔