• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’صاحب جی کیا کوئی انیائے ہو تو اسکی خبر لگ جائے گی؟‘‘ میرے دفتر کے ٹی بوائے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ لفظ انیائے یعنی ناانصافی تم نے کہاں سے سیکھا ہے؟ کیونکہ یہ تو پاکستان میں روایتی اردو کا حصہ ہی نہیں۔ پتا چلا کہ نو عمر لڑکا فلموں کا شوقین ہے اور اپنا ایک یوٹیوب چینل بھی بنا رکھا ہے۔

معمولی سے واقعے نے سوچ کی سمت بدل ڈالی۔ خیال آیا کہ ہم صحافت کے میدان میں صرف محدود لوگوں کی زندگیاں اور سوچیں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دوسری طرف سیاست تعمیر کے ساتھ تخریب بھی کرتی ہے مگر عجیب معاملہ ہے کہ وہ لوگ بھی سینما سے متاثر ہیں جنہیں صحافت سے کچھ غرض ہے نہ سیاست ان کی زندگیاں بدل سکی۔ وجہ یہ کہ سینما تفریح ہے اور تعلیم بھی۔

تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں سیاست اور صحافت نے اتنا اثر نہیں ڈالا جتنا سینما عوام میں اثر پذیر رہا۔ اس دورانیے میں سیاست دونوں ملکوں کے اختلافات کو مٹا سکی نہ ہی سرحدوں پر آمدورفت میں نرمی پیدا کر سکی کہ عوام بہ آسانی آ جا سکیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان سال 1965، 71اور 99میں جنگیں لڑی گئیں جبکہ صحافت نے اس سارے عمل میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بھارتی میڈیا اگرچہ آگ لگانے کے عمل میں بہت آگے رہا مگر پاکستانی میڈیا کا کردار بھی کوئی اتنا مثالی نہیں رہا۔

سیاست نے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد امن معاہدے بھی کروائے مگر اس سب کے باوجود آج بھی پاکستان اور بھارت میں مکمل امن ہے نہ جنگ۔ دونوں بیچ کے کسی ایسے منجدھار میں پھنسے ہیں کہ جہاں اکثر تنائو ہی حاوی رہتا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان امن اور بھائی چارے کے لمحات بھی آتے رہے ہیں مگر ان کا دورانیہ بڑا محدود رہا۔ کوئی ایک حادثہ سارے عمل کو سبوتاژ کرتا ہے تو صحافت لٹھ لے کر میدان میں آجاتی ہے۔

دونوں ملکوں کے میڈیا اپنی حکومتوں اور عوام میں اشتعال انگیزی پھیلانے میں پیش پیش رہتا ہے۔ سیاست اور صحافت کی عوام کے ساتھ جاری آنکھ مچولی اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں میں ہمیشہ ایک چیز پر مکمل اتفاق رہا ہے اور وہ ہے فلم یا سینما۔

سینما تقسیم کے وقت سے ہی ایک ایسی انڈسٹری رہا ہے جس نے اداکاروں اور گلوکاروں کو ہمیشہ ایک ایسے گلدستے میں پرو کے رکھا جسکی خوشبو نے سرحدوں کے تنائو کو دیکھا نہ باہمی تنازعات خاطر میں لایا۔

جنوبی ایشیا میں سینما کی تاریخ قیامِ پاکستان اور تقسیمِ ہند کی تاریخ سے زیادہ پرانی ہے۔ جب سال 1913میں دادا صاحب پھالکے نے ہندوستان کی پہلی فیچر فلم، راجہ ہریش چندرا بنائی، تو شاید پھالکے کو بھی احساس نہیں ہوگا کہ وہ جنوبی ایشیا میں سب سے طاقتور ذریعہ ابلاغ کے بانیوں کے طور پر آئندہ دہائیوں میں بھی جانے جاتے رہیں گے۔

پھالکے ممبئی کے تھے سو فلم انڈسٹری بھی ممبئی کی ہوکر رہ گئی۔ تقسیم کے بعد نور جہاں سمیت متعدد چوٹی کے فنکار پاکستان آئے مگر یہاں سینما وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوا تو فنکاروں کی اہمیت بھی ختم ہوتی گئی۔

بھارت میں البتہ صورتحال مختلف رہی وہاں سینما کو ترقی ملی جو مختلف جہتوں اور ادوار سے گزرتا ہوا اب عملی طور پر ہالی ووڈ اور عالمی معیار کی فلمیں تخلیق کررہا ہے۔

یوں تو دلیپ کمار، امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان، نصیر الدین شاہ، رنبیر کپور، نانا پاٹیکر، نواز الدین صدیقی اور نجانے کون کون بھارتی فلموں کے اسٹار ہیں مگر ان کے چاہنے والے پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور افغانستان سمیت جہاں بھی اردو اور ہندی کی سمجھی جاتی ہے وہاں تک پھیلے ہوئے ہیں بلکہ ان کی اثر پذیری اس سے بھی آگے ہے۔

پاکستان سینما کے میدان میں آگے نہیں آ سکا۔ حالیہ برسوں میں معروف اداکار و پروڈیوسر جمال شاہ، ستیش آنند، شعیب منصور، جاوید شیخ، ہمایوں سعید و دیگر نے سینما کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی۔ نوجوان بلال لاشاری نے بھی فلم انڈسٹری کو کچھ کامیاب فلمیں دیں اور اس سمت میں اہم قدم اٹھایا۔

جیو انٹرٹینمنٹ اور دیگر اداروں نے بھی کوششیں کیں۔ مگر کسی کو موثر سرکاری چھتری ملی نہ تعاون۔

فلم سنسر بورڈ کی رسی پر سے چل کر سینما گھر تک جانے کی اجازت بھی ایک الگ چیلنج رہا مگر فلم کی عدم ترقی کی ایک وجہ سینما گھروں کی کمی بھی رہی۔

ملک میں 70کی دہائی تک کم و بیش 1500سینما گھر تھے جو جنرل ضیاء الحق کے دور سے اب تک سکڑ کر صرف 150رہ گئے۔ اول تو کوئی فلم بناتا ہی نہیں اور اگرکوئی سر پھرا بنا بھی لے تو 22کروڑ عوام کے لیے صرف 150سینما گھر؟ فلم پر لگائے گئے پیسے پورے ہوں بھی تو کیسے؟ اور ان تمام سینما گھروں میں فلم چل بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ سینما گھروں کی تعداد میں کمی نے فلم ٹکٹ کی قیمت بڑھا دی ہے اس طرح یہ تفریح بھی غریب کی دسترس سے دور ہو گئی جس نے علم اور سوچ کا ایک اور دروازہ اس کے لئے بند کر دیا۔

ان دنوں پاکستانی گلوکار و اداکار علی ظفر نے اپنے ایک گانے کی وڈیو بنانے کے لیے ڈانس ٹپس پر مبنی وڈیو جاری کی تو اسے دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہو گئی۔

ہر شہر سے نوجوانوں نے ڈانس ٹپس پر عمل کرتے ہوئے وڈیوز بنائیں اور نوجوان گلوکار کو ارسال کیں اکثر وڈیوز اس کے گانے کا حصہ بنیں اور بڑی تعداد میں وڈیوز شامل ہی نہ ہو سکیں۔

وجہ معیار کی نہیں وقت کی کمی بتائی گئی مگر اس مثبت عوامی ردِعمل نے یہ ظاہر بھی کیا کہ فنونِ لطیفہ ہی لوگوں کو مضبوطی سے جوڑنے کا ایک موثر ذریعہ ہے، حکومت کو سینما اور فنونِ لطیفہ کی بحالی کے لیے بہرحال میدان میں واپس آنا ہوگا ورنہ ملک میں دست وگریبان کروانے کے لیے موضوعات تو پہلے بھی کم نہیں۔

تازہ ترین