• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیر سے ابھی قوی ہیکل اپوزیشن اپنا اصل رنگ بھی نہ جما سکی تھی کہ اس میں سے ایک اور اپوزیشن نکل آئی ہے۔ اگرچہ یہ اپوزیشن کی اپوزیشن نہیں لیکن بہرصورت پُرانی والی سے جداگانہ ضرور ہے۔ 

اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں جو بظاہر ساتھ، لیکن ایک دوسرے پر اس حوالے سے نظریں رکھی ہوئی تھیں کہ اس اتحاد کی قوت کی بدولت اُس کے بجائے دوسری جماعت سودے بازی میں آگے نہ نکل سکے، یہی وجہ ہے کہ جہاں پیپلز پارٹی پر الزام ہے کہ اُس نے اپنے منتخب کردہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ہاتھ دکھایا تو نون لیگ نے بالخصوص آرمی چیف کی توسیع کے موقع پر قومی مفاد کا خصوصی خیال رکھا، یہ خیال پی پی نے بھی رکھا اور کیسز کے حوالے سے ان پر نیب سے ریلیف لینے کا الزام ہے، تاہم بڑا فائدہ چونکہ نون لیگ کے کھاتے میں آنے کا خیال ظاہر کیا جا رہا تھا، اس لئے چیئرمین پی پی تک سے نہ رہا گیا اور ڈیل کا مژدہ سنایا۔ 

خیر فی الحال نون لیگ کیلئے ڈیل کی لاٹری نکل نہیں سکی گو کہ وہ اب بھی پراُمید ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جب مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی حکومت کیخلاف طبل جنگ بجایا اور مارچ کیا تو ان بڑی جماعتوں نے اس موقع کو بھی اپنے لئے ’کیش‘ کرانے کی خاطر روایتی کردار ادا کیا۔ 

یہ وہ وقت تھا جس نے عملیت پسندوں اور حقیقت پسندوں (نام نہاد) کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی لہٰذا یہ امکانات بھی تازہ دم ہیں کہ کل کو یہ نئی اور پرانی اپوزیشن پھر ’’ایک بڑے مقصد‘‘ کیلئے یک جان ہو جائے۔

آج بہر صورت عملیت پسند یعنی مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی میدان میں ہیں اور حقیقت پسند نون لیگ اور پی پی باری کے انتظار میں۔ 6جماعتوں پر مشتمل اس نئی اپوزیشن نے مختلف شہروں میں ’’تحفظ آئین پاکستان‘‘ کے سلوگن کے تحت جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ 

اس سلسلے میں اس اتحاد نے فروری کے آخر میں کراچی میں بھی کنونشن کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر اس طالبعلم کو محترم محمود اچکزئی کے بھائی اور سابق وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے از راہِ شفقت فون بھی کیا اور راقم کی اپنی بھی خواہش تھی کہ مشر محمود خان سے ملاقات میں کچھ آگاہی حاصل کر سکوں مگر اپنے روایتی تساہل کی وجہ سے شرفِ ملاقات حاصل نہ کر سکا۔ جہاں تک کراچی کے کنونشن کی روداد ہے تو ہمارے میڈیا نے اس سے انصاف نہیں کیا۔ 

ایک بات تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جیسے اگر میں جناب محمود خان کی تقریر کو سامنے رکھوں تو کوئی دو فیصد باتیں ہی میرے نزدیک قابلِ اشاعت رہ جاتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کوئی ایک بات بھی اچکزئی صاحب نے آئین، جمہوریت یا خدانخواستہ ملک کے خلاف کی ہو، مگر سچ یہ ہے کہ میں بھی روح پرور جمہوریت چاہتا ہوں لیکن اس جمہوریت کیلئے محمود خان کی طرح بولنا یا لکھنا اپنے اختیار میں نہیں سمجھتا، ہاں میں جمہوریت کیلئے نون لیگ اور پی پی جیسی ’’قربانیوں‘‘ کیلئے ہمہ وقت تیار ہوں! 

جناب اچکزئی کا کہنا تھا ’’پاکستان ایک رضا کارانہ فیڈریشن ہے، ہم ایک ایسے پاکستان کی تشکیل چاہتے ہیں جس میں ایک قوم کی دوسری قوم، ایک مسلک کی دوسرے مسلک اور ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر بالادستی نہ ہو، میں بار بار یہ کہہ کر تھک گیا ہوں، بدنام بھی ہوگیا ہوں کہ او بدبختو لیڈر ایجاد نہیں ہوتے، 20کروڑ عوام پر بھروسہ کریں‘‘۔

یہ وہ دو فیصد باتیں ہیں جو قابل اشاعت ہیں، ان سے مگر اندازہ لگایا جا سکتا کہ دیگر باتیں بھی انہی کی تشریح ہوں گی، مگر کیا کیا جائے کہ سات عشروں بعد بھی ہم ایسی جمہوری روایات کی داغ بیل نہیں ڈال سکے ہیں جو اظہارِ رائے کی آزادی پر مبنی ہو۔ معروف طالبعلم رہنما سرباز عبدالرب درانی کے توسط سے مجھے محمود اچکزئی کی وڈیو تقریر سننے کا موقع ملا، میرا نظریہ ہے کہ یہ ایک حقیقی وطن پرست و جمہوریت پرست کی آئینی تصورات پر مشتمل تقریر تھی، لیکن ایک طالبعلم کی حیثیت سے مجھے مستقبل قریب میں ایسی آئیڈل جمہوریت کے امکانات نظر نہیں آتے۔

وجہ ظاہر ہے کہ جب جب ایسے مواقع آئے بڑی جماعتوں نے عملیت پسندی کے بجائے نام نہاد حقیقت پسندی کو ترجیح دی۔ بہرحال مروجہ ابن الوقت سیاست اور نظامِ کہن کے تمام تر جبر کے باوجود یہ امر اچکزئی صاحب کی استقامت کا مظہر ہے کہ وہ کلمہ حق بلند کیے ہوئے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ خورشید انور کے اس شعر کے مصداق، کم کم ہی اُن کا سچ سننے کیلئے آمادہ ہیں۔

دوپہر تک بک گیا تھا شہر بھر کا سارا جھوٹ

شام تک بیٹھا رہا میں سچ لیے بازار میں

تازہ ترین