• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیوں کو ہر دم قدرت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اپنے جملہ مسائل اور اپنی ہی پیدا کردہ مسلسل بحرانی کیفیت کے باوجود ہم ایسی مملکت میں بستے ہیں، جس میں کبھی اور کہیں بھی دور دور تک غذائی بحران کا کوئی امکان نہیں۔ ہماری سرزمین پاکستان میں نہ صرف یہ کہ انسانی زندگی کی تمام تر بنیادی ضروریات جیسے خوراک، لباس، مکان، صحت، تعلیم و تفریح بدرجہ اتم موجود ہیں بلکہ ہم پر قدرت خداوندی کی نوازشات کی صورت بیش بہا ہے۔

عشرہ 80کی ایک عالمی اسٹڈی کے مطابق سماجی و اقتصادی ترقی کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر دنیا کے تمام ممالک اپنی برآمدات اور درآمدات بند کر دیں تو کتنے ممالک مکمل خود انحصاری کی بنیاد پر کیسی زندگی گزاریں گے۔ اسٹڈی کے مطابق پاکستان ان 22ملکوں میں بھی پہلے دس ممالک میں شریک تھا جو اپنی ارضی، فضائی اور سمندری سرحدات درآمدات و برآمدات کی مکمل بندش کے بعد بھی انتہائی انسانی ضروریات کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ بھاری اکثریت کے مقابل کہیں پر آسائش اور معیاری زندگی گزارنے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے۔ 

پہلی چھ متذکرہ انتہائی بنیادی انسانی ضروریات کی مکمل اور معیاری دستیابی کی بڑی شرط بہتر انسانی وسیلہ (ہیومن ریسورس) بھی پاکستان میں دستیاب تو ہے، لیکن ہم بطور قوم و حکومت اپنے بیمار رویوں سے اس کی نشو و نما میں خود ہی بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ 

بہتر انسانی وسیلے کے لئے محنت، ذہانت، سیکھنے کی صلاحیت، عزم و عمل اور تجسس سب ہی صلاحیتیں تو ہمارے خطے کے انسانی وسیلے میں قدرتاً نوموجود ہیں، لیکن ہم نے بطور قوم و حکومت اسے نہ صرف جلا نہیں بخشی بلکہ اس کو بیمار حالت میں دبا کر رکھا ہوا ہے اور بعض صورتوں میں خود ہی کچلتے ہیں۔ نتیجتاً سماجی، اقتصادی اور تہذیبی ترقی کے تمام تر قدرتی وسائل (پوٹینشل) ہونے کے باوجود ہم بحرانی کیفیت میں رہتے ہیں اور ہم نے اپنی اجتماعی زندگی کو خود ہی اجیرن بنایا ہوا ہے۔ 

ہمارا بے پناہ مراعات یافتہ طبقہ خوش رہتا ہے نہ غریب اور مفلوک۔ دیکھ لیں کھربوں کے مالک کس کس کرب سے دوچار ہیں۔ اشیائے خورونوش کی مہنگائی اور قلت تو عوام الناس کا مستقل رونا دھونا ہے۔ ہمارے حسین پھول ہمارے ہاں کھلتے ہی مرجھا جاتے ہیں، بڑے بڑے قدرتی وسائل و ذرائع ہماری اپنی بےحد بےحسی بلکہ بےرحمی کا شکار ہو کر خاموش یا بری طرح غیرمحفوظ ہیں اور بے نتیجہ رہتے ہیں بلکہ انتشار و اختلاف کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

کالا باغ ڈیم بننے میں سیاسی رکاوٹ، مصنوعی غذائی بحران، پانی جیسی نعمت کا انتہائی ناانصافی اور لاپروائی سے استعمال عام ہے۔ ہم نے اپنی انتہا کی خودغرضی اور سماجی جہالت سے پاک سرزمین کے حسین ترین پہاڑی سلسلوں، زرعی خطوں اور جنگلات و آبی ذخائر کے ساتھ جو سلوک کیا اور کر رہے ہیں اس کی تفصیل دنیا کے معتبر ترقیاتی اداروں کی رپورٹس میں آتی رہتی ہیں۔ 

اس تلخ تر پس منظر کے ساتھ حالت بحیثیت قوم و حکومت ہماری یہ ہے کہ بدترین جمہوریت کے آمریت سے بہتر کے دس سالہ دور(2008-18) میں، جب سندھ میں پی پی کی اس دور میں دوسری باری تھی تو ایک ہی سال میں تھر میں دو مصنوعی غذائی بحران، کرپشن اور نااہلی کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ پتہ تب چلا جب مٹھی کے ہسپتال میں قحط زدہ زچائوں کے نومولود دھڑا دھڑ آنے لگے۔

یہ المیہ جب جنم لے رہا تھا تو کسی کو کچھ علم نہ تھا جب آن پہنچا تو خبر آئی کہ گندم اور دوسری غذا کی تو کوئی کمی نہیں تھی لیکن وزیر خوراک چودہ دِن کی چھٹی پر رہے تو تھر کے دور افتادہ علاقوں میں سپلائی رکی رہی، پھر یہ بھی کہ گندم کی بوریوں میں مٹی بھر کے گندم پار کر دی اور یہ بھی کہ کئی گوداموں میں گندم پڑی پڑی سڑ گئی اور استعمال نہ کی گئی۔ 

جمہوریت کے اسی دور میں پنجاب میں ورڈ اف مائوتھ، پنجاب کے گلی محلوں میں عام تھا کہ دودھ، پولٹری اور ڈیری آئٹمز پر دو تین سیاسی خاندانوں نے اجارہ داری قائم کر کے اِن کے نرخ اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں اور پولٹری کا بزنس دوسروں کے لئے خسارے کا بن گیا ہے۔

اب جو تبدیلی دور آیا ہے تو خوراک کی قلت اور آٹے چینی کے نرخوں میں تیزی سے چڑھتا اضافہ اور میڈیا میں اس کی دہائی مچنے پر اِن دونوں انتہائی بنیادی اجزائے خوراک کا فقدان اتنا ہوا کہ خالص آٹے کی چکیاں کتنے ہی روز بند رہیں۔ آٹا بغیر کسی سرکاری پالیسی اور فیصلے کے افغانستان اسمگل ہو گیا۔ آٹے کا ایسا بحران تو برسوں کے بعد پیدا ہوا۔ 

اب جو کھرا مل رہا ہے، اس کے مطابق کرپشن بھی ہوئی اور سیاسی حربے کے طور پر بھی آٹے چینی کا بحران پیدا کیا گیا۔ یہاں تک کے حکومتی صفوں میں بیٹھے روایتی سیاستدان اس مصنوعی بحران کے بینی فشری ہیں۔ 

یہ اس پارٹی کے دور میں ہوا جس کے تبدیلی کے علمبردار قائد نے برسراقتدار آنے سے پہلے ملک میں نا انصافی اور بیڈ گورننس کے باعث ہر ریلی اور جلسے جلوس میں نومولود اور بڑھتے بچوں میں کم غذائیت (میل نیوٹریشن کا ذکر بڑے کرب سے کیا) ان کا عزم ہے کہ وہ ان کے دور میں آٹا چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے اور ان کرداروں کو سامنے لائیں گے جنہوں نے کرپشن کیلئے یا حکومت کو ناکام کرنے کے لئے سیاسی حربے کے طور پر آٹے چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا۔ یقین دہانی تو بڑے زور شور کی ہے۔ اب تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔

مصنوعی غذائی بحران کے کرب سے گزرنے کے بعد ایک تازہ ہوا کا جھونکا غریبوں کے لئے بھی آیا ہے۔ خبر ہے کہ یہ ہوا اب چلتی رہے گی۔ پٹرول کی سپلائی اور نرخ مقرر کرنے کے سعودی عرب اور روس کے تنازع میں دنیا بھر میں تو بڑے بڑے ملکوں کی اکانومی ہل رہی ہے، لیکن 30فیصد پٹرول سستا ہونے کے واضح امکان سے پاکستان کا تکا لگ گیا ہے، جس سے مہنگائی 30فیصد سے بھی زیادہ کم ہو سکتی ہے۔

کاروبار میں بجلی اور پٹرول سستا ہونے سے تیزی آ سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب عمران حکومت اقتصادی بحران سے لڑتے لڑتے جیت رہی ہے تو وہ عوام میں اس کا کیا ریلیف بانٹتے ہیں۔ یہ خان حکومت کا بڑا امتحان سر پر کھڑا ہے۔ 

ان کا ہوم ورک تو ہوتا نہیں، کیونکہ وزیروں نے کہسار مارکیٹ آباد کر دی ہے اور ملک کے حالات سے وہ بے خبر ہیں، لہٰذا ملنے والے بڑے ریلیف کو عوام اور سیاسی حکومتی اور ملکی استحکام کے لئے مینج کرنا وزیراعظم عمران خان کا بڑا اور جلد امتحان بننے والا ہے۔

تازہ ترین