• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت کسی بھی سماج کا ایک اہم جزو ہے اور معاشرے کی ترقی کا دار و مدار عورت پر ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی سماج میں عورت مسلسل استحصال کا شکار رہی ہے اور اگر عورت اپنے حقوق کے لیے آواز بلند بھی کرتی ہے تو اسے مختلف طرح سے طعنہ و تشنیع کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جسمانی و جانی ضرر پہنچانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے عورتوں کے حقوق دراصل ان کی اخلاقی پستی کا باعث بنیں گے، یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ کیا مردوں کو ان کے حقوق کے حصول نے بداخلاق کر دیا ہے؟ 8مارچ کو پوری دنیا کی عورتیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے پُرامن مظاہرے کرتی ہیں اور پوری دنیا میں مرد ان کی اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیتے مگر پاکستان میں عجیب روایت ہے کہ عین اسی دن ان کے مدمقابل ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے زیر تسلط مظاہرے منعقد کرائے جاتے ہیں اور ان مظاہروں کی آڑ میں عورتوں کے حقوق کے اصل مظاہروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اگر پورے ملک میں ہونے والے عورت مارچ کا جائزہ لیا جائے تو ان مظاہروں میں کوئی ایسا نعرہ نہیں لگایا گیا، کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جو پاکستانی آئین سے متصادم ہو بلکہ مظاہرے میں شریک تمام شرکا کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر بنیادی حقوق کے مطالبات درج تھے مگر بجائے اس کے کہ ان جائز حقوق کے مطالبات کی ستائش کی جاتی، نامعلوم لوگوں کی خواہش کی تکمیل کے لیے اس بنیادی جمہوری مارچ کو ناکام بنانے کی سازش کی گئی۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے عورت مارچ کے عین سامنے کچھ لوگوں نے مظاہرے کا اہتمام کیا جس کے شرکاء اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔ اشتعال انگیزی کو طول دیتے ہوئے انہوں نے عورت مارچ کے پُرامن شرکا پر پتھرائو بھی کیا جس کی وجہ سے کئی شرکا زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ واقعہ حکومتی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے کیونکہ عورت مارچ کا انعقاد باقاعدہ اسلام آباد انتظامیہ سے اجازت لے کر کیا گیا اور اسلام آباد انتظامیہ نے احتجاج کو مکمل سیکورٹی دینے کا وعدہ بھی کیا۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب اسلام آباد انتظامیہ نے خواتین کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ’’عورت مارچ‘‘ کی اجازت دے دی تھی تو پھر عین اسی وقت، اسی جگہ ان عناصر کو وہاں کیوں پہنچنے دیا گیا جن کی وجہ سے مارچ کے شرکا کو نقصان پہنچا۔ اگر وہ مظاہرین بغیر اجازت کے وہاں پہنچے تو انتظامیہ کی کارکردگی پرسوالیہ نشان اٹھتا ہے اور اگر انہیں اجازت دی گئی تو انتظامیہ سے یہ سوال بنتا ہے کہ انہیں کس کے کہنے پر اجازت دی گئی۔ اسی طرح سکھر میں خواتین نے مشعل بردار ریلی نکال کر اپنے حقوق کے حصول کے لیے نعرے بلند کیے مگر سوشل میڈیا پر ان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے انہیں سکھر میں ایک جماعت کی لوکل قیادت کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر معروف سماجی کارکن ماروی سرمد کے ساتھ جس طرح ہتک آمیز رویہ برتا گیا وہ خود اپنی جگہ نہایت افسوسناک ہے مگر اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ذمہ دار شخص کو روز کسی چینلز پر بلا کر اس حرکت کو مزید گلوریفائی کیا جا رہا ہے۔ یہاں جیو ٹی وی ستائش کے قابل ہے کہ جس نے مذکورہ ڈرامہ نگار کے ساتھ اپنا معاہدہ اس وقت تک کے لیے معطل کر دیا ہے جب تک وہ اپنے رویے کی معافی نہیں مانگ لیتا۔

آج اکیسویں صدی میں عورتوں کو بھی تاریخی شعور ورثے میں ملا ہے اور یوں انہوں نے اپنے بارے میں تمام منفی مفروضوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ 8مارچ کو پوری دنیا کی عورتوں نے اس تاریخی شعور کا اظہار پوری طاقت اور توانائی سے کیا جسے اب کوئی نہیں روک سکے گا۔ 1973ء میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کو قانونی حیثیت دی تھی لیکن اس کے باوجود سماجی رویے بہت منفی رہے اور بہت سارے حقوق سلب کیے جاتے رہے مگر عورتوں نے اپنی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں نہ صرف اپنے سلب شدہ حقوق حاصل کیے بلکہ ان منفی رویوں کو بھی بدلا۔ جب سے خواتین کی طرف سے ’’عورت مارچ‘‘ کا اعلان کیا گیا، اسی روز سے ٹی وی پر بیٹھ کر کچھ ریاستی دانشور ہمہ وقت یہ ثابت کرنے میں لگ گئے کہ پاکستان میں خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں اور یہ چند خواتین ہیں جو پاکستان کے کلچر کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ عورت مارچ کے نعروں کو ان کے سیاق و سباق سے جدا کرکے مخصوص معنی پہنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جیسے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو مخصوص ذہن نے ب حیائی اور فحاشی کے معنی پہنا دیے ہیں جس سے ان کی مخصوص سوچ ظاہر ہوتی ہے۔ پاکستان میں مذہبی، قبائلی، سیاسی و سماجی روایات نے عورتوں کو پسماندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ کے اس سماج میں آج بھی پسند کی شادی اور جائیداد میں حصہ کو سماجی اقدار کے منافی تصور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پسند کی شادی پر قتل اور کاروکاری کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ حال ہی میں مظفر گڑھ میں اکیس سالہ لڑکی کو پسند کی شادی کرنے کے جرم میں اس کے چھ ماہ کے بچے سمیت قتل کر دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بچے کو ماں کے سامنے زمین پر پٹخ کر قتل کیا گیا اور بعد میں ماں کو گولی مارنے کے بعد چلتی سانسوں کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا گیا۔

اگر عورتوں کی بین الاقوامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا سیاست کے پس منظر میں ہوئی ہے جب ثابت کیا گیا کہ سماجی تبدیلی میں عورتوں کا بھی کردار ہے، یوں سیاست کے ارتقا کے ساتھ ساتھ سماج میں عورت کا سماجی ارتقا بھی ہوا مگر بدقسمتی سے پاکستان میں کئی سیاسی جماعتوں نے جماعتی پالیسی کے طور پر عورت مارچ کی حمایت نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی تحریک کے ارتقا میں ابھی کافی وقت درکار ہے کیونکہ سیاست ہی بالآخر سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین