• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
 وزیراعظم عمران خان آج جس مقام پر کھڑے ہیں انہیں وہاں پہنچانے میں پاکستانی میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور جو لوگ انکے قریب ہیں کے مطابق وہ اس حقیقت کو فراخدلی سے قبول کرتے ہیں۔ ان کی خونخوار سیاسی جنگل میں انٹری میڈیا کیلئے ایک انہونا اور دلچسپ واقعہ تھا جسے میڈیا کے ہر حصہ نے اپنے موقف کو اوپر اٹھانے کیلئے خوب استعمال کیا۔ خان صاحب محترم کو بھی عوام تک رسائی چاہئے تھی۔ لہذا وہ بھی موقع مناسبت سے وہ کچھ کہنے سے کبھی پیچھے نہ رہےجو موقع محل کے حالات تقاضا کرتے دکھائی دیئے۔ اپوزیشن میں رہ کر دیئے گئے کئی ایسے بیانات آج ان کا پیچھا کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ، جیو گروپ ایک حد سے زیادہ وزیراعظم کا خیرخواہ نہیں رہا مگر ان دونوں چینلز میں انکو مناسب کوریج ملی اور مل رہی ہے۔ حکومت کے حق میں قومی معاملات پر مضامین بھی چھپ رہے ہیں اور ٹی وی پر بھی حکومتی وزراء کے موقف لئے جارہے ہیں۔ پچھلے 20ماہ میں حکومت نے کئی اہم پراجیکٹس لانچ کئے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی بہتر کرنیکے لئے صحت کارڈ جیسی مفید سکیمیں نافذ العمل ہوئی۔ خان صاحب کا یہ گلہ اپنی جگہ درس ہے کہ اگر جنگ، جیو کا رویہ ہمدردانہ ہوتا تو کئی حوالوں سے وہ ’’نیا پاکستان‘‘ یا بنا چکے ہوتے یا اس کی تعمیر کے درمیان مراحل تک پہنچ چکے ہوتے۔ ’’نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر کا پیغام حکومت کی نا اہلیوں کی بنا پر عوام تک نہیں پہنچ رہا۔ 18 -20ماہ کے دورانیہ میں وزیراعظم کے پاس اہل لوگوں کی ٹیم جمع ہوجانا چاہئے تھی جو اپنے پیغامات لوگوں کے ذہنوں میں پیوسط کردیتی مگر ایسا نہیں ہورہا۔ یہ کمزوریاں دور کرنا ٹیم کپتان کی ذمہ داری ہے۔ پچھلے کم و بیش چھ ماہ سے ملک میں حزب اختلاف سرے سے موجود ہی نہیں۔ حکومت اپوزیشن گول پر جتنے چاہے شاٹ لگائے تمام سکور میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اپوزیشن بکھری ہوئی ہے کچھ کرپانے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی۔ جہاں ہاتھ اسکے بھی بندھے ہوئے ہیں وہاں حکومت بھی آزاد اور شادماں نظر نہیں آتی۔ اوپن گول میں بھی حکومت گول نہیں کرپارہی؟ حکومتی ناتجربہ کاری اور حالت انجماد کی بھی حد ہونی چاہئے؟ آپ نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے عوام کے سامنے وہ خواب بن ڈالے جن سے نمٹنا آج حکومت اور قوم کو مشکل نظر آرہا ہے۔ پرائس کنٹرول اور غیر حقیقی مہنگائی پیدا کئے گئے ماحول سے جس طرح آپ وزیراعطم نے نمٹا ہے۔ ان اقدامات کو آپکی حکومت کیلئے ایک Turning Pointثابت ہونا چاہئے کیونکہ ان اقدامات کے ذریعہ آپ پہلے تو کئی مافیاز کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ نے ان سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے اقدامات اٹھا کر متعلقین پر واضح کردیا ہے کہ آپ کیلئے عوام مفاد میں فیصلے اہم ترین ہیں جسمیں آپ کی حکومت کے دیگر اہم حصوں کی بھی حمایت حاصل ہونی چاہئے۔ جنگ، جیو گروپ اور حکومت کے مابین تجارتی معاملات ایک طرف، دونوں طرف سے موجود طویل رنجشوں کو حل کروا دینا، صحافت اور سیاست
کیلئے اچھا قدم ہوگا جو Forgive and forget کی بنیاد پر اٹھنا چاہئے۔ وزیرعظم محترم حکومت آپکی ہے، جلد بلدیاتی انتخابات بھی آرہے ہیں۔ اپوزیشن غیرسنجیدہ اور حفظ ماتقدم کے موڈ میں جھکڑی ہوئی ہونے کی وجہ سے غیرموثر نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ساڑھے تین سال باقی ہیں ’’ریاست مدینہ‘‘ کی تعمیر کے خدوخال بھی ابھی تک واضح نہیں ہوپارہے۔ مکمل تعمیر تو بہت دور کا خواب ہے آپکی حکومت کا بڑا حصہ آپکے اس آئیڈل کے حصول میں آپ کا حامی ہے۔ لہذا آپ کو میڈیا کے ایک معتبر گروپ کے ساتھ ایسی جنگ نہیں چھیڑنی چاہئے، جو ہم سب کو علم ہے آپ نہیں جیت سکیں گے، جنگ جیو سے بھی آپ کے ذاتی اور حکومتی حوالہ سے زیادہ اکاموڈیٹنگ رویہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کی بہتری کی خاطر معاملات کو اس سطح پہ نہ کیے جانے کی توقع کی جاتی ہے، جہاں حالات معمول پہ نہ رہیں وزیراعظم کو اس بڑے پبلشنگ ہوس کا اپوزیشن کی جھولی میں بیٹھ جانا بھی یقینا اچھا نہیں لگتا۔ اس ادارے کا اپوزیشن کا ترجمان بن کر بات کرنا بھی حکومت کو نہیں بھاتا، یہاں دیکھنے کی اہم بات یہ ہے کہ حکومتی وزرا اور ترجمان جب اپنی بات نہیں سمجھا پاتے تو وہی بات اپوزیشن ترجمانوں کے پاس پہنچ کس طرح معقول بن جاتی ہے؟ کابینہ کے اجلاسوں میں ایسے اہم معاملات یہ تفصیلی بات نہیں ہوسکتی، حکومتی بنانیہ اوپر اٹھانے کیلئے پالیسیز کی پریسینٹیشن پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، جنگ جیو ایک بڑا نشریاتی ادارہ ہے، مملکت پاکستان کی ترقی اور مظبوط بقا کی خاطر یہ ادارہ ہمیشہ قائیدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے، جمہوریت اور آزادی صحافت کے میدان میں بھی اس ادارہ کی قابل قدر خدمات سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار ہونا چاہئے تھا یانہیں، ایک قانونی معاملہ ہے، بظاہر ایک دیرینہ انکوائری سے نارمل انداز میں ڈیل کرتے ہوئے ڈھیر ساری مشکلات بچا جاسکتا تھا، یہ بھی ممکن ہے کہ گرفتاری کا فیصلہ نچلی سطح پہ ہی ہوگیا ہو اور وزیراعظم اس معاملہ سے بے خبر ہوں، چلتی حکومت کو Destabaliseکرنیکا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے وزیراعظم اگر کسی چینل سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں لیاجاسکتا کہ وہ Out of Wayجاکر اس چینل کے مالک کو گرفتار کرواتے پھریں گے؟ پی ، ایم ایک بروبار اور جائز تنقید برداشت کرنے کی ہمت رکھنے والے فرد ہیں، یہ ہونا تھا ہوچکا ہے، لیکن معاملات اتنے صاف دکھائی نہیں دے رہے کہ گرفتاری پہ سوال نہ اٹھائے جائیں توقع ہے وزیراعظم از خود اس گرفتاری کے محرکات جاننے کیلئے اقدامات کریں گے۔ اور جہاں درست محسوس ہو وہاں ریلیف دینے میں دیر نہیں کی جائیگی، نیب اپنی کمزوریوں کے باوجود ایک ضروری ادارہ ہے، جس کے طریقہ کار سے کرپشن ، منی لانڈرنگ اور قومی لوٹ مار کو روکا جاسکتا ہے۔ اداروں کی خود مختاری پر یقین کرنے والے وزیراعظم سے یہ توقع نہیں کہ وہ چند افراد کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری نیب کی روٹین کاروائی بھی ہوسکتی ہے اور حکومت کو اپنے ایجنڈے سے آف ٹریک کرنے کی ایک سازش بھی ، حالات نے ہنی مون ٹائم کا جو تحفہ حکومت کو تھمایا ے اس کے نتیجہ میں انہیں اپنے منصوبہ جات مکمل کرنے میں دیرنہیں ہونی چاہئے، جنہیں وہ ایک فعال ضرب اختلاف کی موجودگی میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکتی تھی، اللہ پاکستان کا نگہبان رہے۔  
تازہ ترین