• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ تو طے پا گیا لیکن اس معاہدے کے ایک اہم ترین نکتے کے تحت طالبان قیدیوں کی رہائی اب تک شروع نہیں ہو سکی ہے۔ اس سے قبل افغان متنازع صدر اشرف غنی نے اپنے پرانے مؤقف میں کچھ لچک دکھاتے ہوئے طالبان قیدیوں کے پہلے گروپ کو پندرہ مارچ تک رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اشرف غنی کو متنازع اس لئے کہا جا رہا ہے کہ پچھلے صدارتی انتخاب میں ان کی جیت متنازع ہے۔ ستّر سالہ افغان صدر’’ احمد زئی‘‘ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ تعلیم کے لحاظ سے ماہر بشریات ہیں، اس سے قبل وزیرخزانہ بھی رہ چکے ہیں اور کابل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی۔اشرف غنی سابق صدر حامد کرزئی کے دورِ صدارت میں 2002ء سے 2004ء تک افغان وزیر خزانہ رہ چکے تھے۔ یاد رہے کہ حامد کرزئی اشرف غنی سے آٹھ سال چھوٹے ہیں جنہیں 2001ء میں امریکی قابض افواج نے پہلے عارضی صدر اور پھر 2004ء میں مستقل صدر بنا دیا تھا وہ 2014ء تک یعنی کل 13 برس افغانستان کے صدر رہے تھے۔ حامد کرزئی جس وقت افغانستان کے صدر بنے اس وقت اُن کی عمر صرف پینتالیس سال تھی ،جب کہ 2014ء میں جب اشرف غنی صدر بنے تو وہ پینسٹھ سال کے تھے۔

2009ء کے صدارتی انتخاب میں اشرف غنی حامد کرزئی کے مقابلے میں لڑے تھے مگر چوتھے نمبر پر آئے تھے جب کہ دُوسرے نمبر پر عبداللہ عبداللہ تھے۔ اشرف غنی اس بار بھی متنازع ہیں کہ نہ انہیں طالبان صدر مانتے ہیں نہ ان کے مخالف اُمیدوارجب کہ عبداللہ عبداللہ جو اس وقت ساٹھ سال کے ہیں اور پچھلے دس سال سے صدر بننے کی کوشش میں ہیں۔

عبداللہ عبداللہ کے برعکس حامد کرزئی اور اشرف غنی خالص پشتون ہیں جب کہ عبداللہ عبداللہ کےوالد پشتون اور والدہ تاجک ہیں۔ عبداللہ عبداللہ 2001ء سے 2005ء تک افغانستان کے وزیرخارجہ رہ چکے ہیں ،اس سے قبل وہ احمد شاہ مسعود کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ 2014ء کے انتخاب میں اشرف غنی کے مقابلے میں عبداللہ نے پہلے صدارتی رائونڈ میں پینتالیس فیصد ووٹ لئے تھے جب کہ اشرف غنی نے صرف پینتیس فیصد لیکن کسی بھی اُمیدوار کے پچاس فیصد ووٹ نہ ہونے کی وجہ سے دُوسرے مرحلے میں اشرف غنی جیت گئے تھے۔اس کے بعد امریکی مداخلت سے باہمی سمجھوتہ ہوگیا اور اشرف غنی صدر اور عبداللہ چیف ایگزیکٹو یا وزیراعظم بن گئے۔ جب پانچ سال بعد 2019ء میں صدارتی انتخاب ہوئے تو دونوں اُمیدواروں نے صدر بننے کا اعلان کر دیا۔ اس دورن امریکا نے طالبان سے معاہدہ کر کے طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کر دیا، جس کے بعد اب تک وہ قیدی رہا نہیں ہو سکے ہیں۔

اب افغانستان کی سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو رہا کر نے کے طریقۂ کار پر کام ہو رہا ہے۔ اشرف غنی کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق روزانہ سو قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا مگر اس سے قبل اُن قیدیوں کی عمر اور صحت کی صورت حال کا جائزہ لیا جانا ہے۔ اُمید ہے کہ زیادہ بڑی عمر کے قیدی اور بیمار زیرحراست افراد کو پہلے رہا کیا جا سکتا ہے۔ افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کے مطابق پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ کن طالبان کو رہا کرنے کے کیا فائدے اور نقصانات ہو سکتے ہیں۔

اب جن خطوط پر افغان طالبان کی رہائی ہو سکتی ہے اُن کے مطابق پہلے تو انہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ رہائی کے بعد وہ میدانِ جنگ میں واپس نہیں جائیں گے پھر رہا ہونے والوں کے مکمل حیاتیاتی پس منظر یعنی بایو میٹرک معلومات کو حاصل کیا جائے گا تا کہ انہیں بعد میں ڈھونڈنے اور شناخت کرنے میں آسانی ہو، پھر وہ طالبان جو دورانِ قید اچھے رویوں کا مظاہرہ کرتے رہے انہیں بھی رہا کئے جانے کا امکان ہے جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار بتائی جاتی ہے۔لیکن اب ایک پیچیدگی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ جن ڈیڑھ ہزار طالبان کو افغان حکومت رہا کرنے پر تیار ہے خود طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق یہ قیدی دیگر جرائم میں قید مجرم ہیں جو طالبان کو مطلوب نہیں ہیں۔ اب طالبان نے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ ہر رہا ہونے والے قیدی کو پہلے طالبان کے نمائندے تصدیق کریں گے کہ یہ وہی طالبان ہیں جن کی ضرورت ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی، افغان حکومت سے مذاکرات اور امریکی افواج کا انخلاء یہ سب14 ماہ میں مکمل کر لیا جانا ہے۔ طالبان نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود القاعدہ اور داعش کی سرگرمیوں کو بھی روک دیں گے۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ طالبان، القاعدہ اور داعش آپس میں ایک دُوسرے سے کیسے نمٹیں گے اور خود مل جل کر ہی افغان حکومت کا خاتمہ نہ کر ڈالیں، کیوں کہ یہ سب ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ دُوسری طرف امریکا نے اعلان کیا ہے کہ دس مارچ کے بعد وہ اپنی افواج کا انخلا شروع کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود طالبان مصر ہیں کہ ان کے تشکیل کردہ وفد کو جو کہ چونتیس ارکان پر مشتمل ہے تمام قیدیوں کی تصدیق کی پہلے اجازت دی جائے۔ افغان طالبان نے ہر صوبے سے کم از کم ایک رُکن اس وفد میں شامل کیا ہے۔گوکہ دوحہ میں ہونے والے معاہدے کےبعد عوام نے خوشی کا اظہار کیا تھا مگر اب یہ خوشی پھر مایوسی میں بدلتی جا رہی ہے، کیوں کہ معاہدے کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کو دس مارچ تک اپنے مذاکرات کا آغاز کر دینا تھا جو پندرہ مارچ تک نہیں ہو سکا ہے۔ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد ٹوئیٹر پر مصروف ہیں اور متواتر فریقین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ براہ راست اپنے مذاکرات کا آغاز کریں تا کہ افغانستان کی اگلی حکومت کی نوعیت کا تعین کیا جا سکے، کیوں کہ طالبان اب تک افغان حکومت کو قانونی ماننے پر تیار نہیں ہیں اور وقتاً فوقتاً پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ڈیڑھ سال جاری رہے تھے مگر امریکا کی کوشش کے باوجود طالبان افغان حکومت کو ان مذاکرات میں شامل کرنے پر تیار نہیں تھے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اب وہ تک مذاکرات کی تفصیلات سے ناواقف ہے حتیٰ کہ دوحہ میں افغان حکومت کے چھ رُکنی وفد کی موجودگی کے باوجود طالبان نے ان سے بات نہیں کی۔کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ افغانستان کے فوجی حکام اور نئے نائب صدر امراللہ صالح اس معاہدے کے بالکل حق میں نہیں ہیں اورنہ ہی طالبان کے قیدیوں کو رہا کرنا چاہتے ہیں ،کیوں کہ اس کے بعد طالبان مزید مضبوط بن کر اُبھر سکتے ہیں اور امریکا کی افواج کے انخلا کے بعد کابل پر قبضہ بھی کر سکتے ہیں جو 1996ء کے بعد تقریباً پچیس سال بعد ان واقعات کا ایکشن ری پلے ہو سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نو مارچ کو افغانستان دُنیا کا وہ واحد ملک بن گیا جہاں کے دارالحکومت میں دو صدر نے الگ الگ حلف اُٹھائے اور افغان صدر بننے کا اعلان کیا لیکن افغان الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اشرف غنی ہی منتخب صدر ہیں اور ان کی حلف برداری میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کے سفیروں اور نیٹو، یورپی یونین وغیرہ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

تازہ ترین