• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فی الحال نہیں،ضرورت پڑی تو لاک ڈاؤن کریں گے، وزیراعظم

فی الحال نہیں،ضرورت پڑی تو لاک ڈاؤن کریں گے، وزیراعظم




وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو لاک ڈاؤن کریں گے، فی الحال ایسا نہیں کررہے ہیں، تفتان سے آنے والے کیسز کے سوا کورونا اب تک کنٹرول میں ہے۔

سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے گفتگو میں وزیراعظم نے اپیل کی کہ  قوم اور میڈیا افراتفری نہ پھیلائیں کیونکہ اس سے وہ نقصان پہنچ سکتا ہے جو کورونا وائرس بھی نہیں پہنچائے گا۔

انہوں نے کہاکہ کورونا کے معاملے پر کوئی خبر سنسر نہیں کی جارہی ہے، اس معاملے پر عوام سے کچھ نہیں چھپائیں گے، وائرس کے معاملے کی روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ کریں گے اور صورتحال عوام کے سامنے رکھیں گے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کیا تو روزانہ اجرت پر کام کرنے والے پریشان ہوں گے، کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے لوگوں کو خصوصی احتیاط کرنا ہوگی، کورونا کے خلاف جنگ حکومت نہیں قوم جیت سکتی ہے۔

وزیراعظم نے تفتان میں سہولیات کے فقدان کے حوالے سے کہا کہ تفتان کے انتظامات پر بلوچستان حکومت پر الزام لگانا زیادتی ہے، جام کمال ہم سے رابطے میں تھے، وہاں زائرین کی اسکریننگ کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب ایران سے زائرین آنا شروع ہوئے تو ہم تہران سے مسلسل رابطے میں تھے کہ کس طرح صورتحال سے نمٹا جائے اور اس کے بعد ڈاکٹر ظفر مرزا خود تفتان گئے۔

وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں کہ لوگ ذخیرہ اندوزی شروع کردیں، احتیاط کے بغیر کورونا سے لڑنے میں مشکلات ہوسکتی ہے، لوگ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں۔

انہوں نے عوام سے کہا کہ ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں، اگر ڈیڑھ مہینے تک عوامی مقامات تک نہ جائیں اور اگر کسی میں بیماری کی علامات ظاہر ہوں تو وہ خود کو محدود (قرنطینہ) کر لے اور یہ اسپتال جانے سے زیادہ ضروری چیز ہے کیونکہ 90 فیصد لوگوں کو اسپتال کی ضرورت نہیں ہے۔

عمران خان نے کہا کہ سیلف آئسولیشن ( خود کو گھروں تک محدود ) کرلیں تو کورونا کے بڑھنے کے امکانات کم ہوجائیں گے دنیا کے تجربات سے یہ ہی پتا چلتا ہے اور یہی اس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان کو دو بڑے خطرات لاحق ہیں ایک یہ کے وائرس یورپ اور ایران کی طرح نہ پھیل جائے، اگر ایسا ہوا تو ہمارے پاس صرف 4 تا 5 فیصد مریضوں کو آئی سی یو میں رکھنے کی گنجائش ہے۔

عمران خان نے کہا کہ یورپ میں اسٹاف یعنی ڈاکٹر اونرسز اور آئی سی یو میں وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے ہیں، اٹلی میں ساڑھے 3ہزار اموات ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا بڑا خطرہ یہ ہے کہ معاشرے میں افراتفری پھیل جائے گی، خوف کی فضا کم کرنے کے لیے میڈیا اپنا کردار ادا کرے۔

وزیراعظم نے کہا کہ میڈیا مالکان، تبصرہ نگاروں، اینکر پرسنز اور صحافیوں سے کہتا ہوں کہ وہ ریٹنگ کے چکر میں سنسنی خیز خبروں کے چکر میں نہ پڑیں، اگر ہم سب پریشان ہوگئے اور اسی دوران ہم نے چیزیں خریدنا شروع کردیں تو اشیا مارکیٹ سے غائب ہوجائیں گی اور ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے دوران اگلے مہینوں میں کیا ہوسکتا ہے کوئی نہیں بتاسکتا، بہت ضروری ہے کہ پورا معاشرہ اس کا سامنا کرے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اس معاملے نمٹنے کی اسٹریٹجیز ہیں، ایک سندھ حکومت نے کراچی کو لاک ڈاؤن کرکے اپنائی ہے، دوسری ہماری ہے کہ لوگوں کو جمع نہ ہونے دیا جائے، اس لیے کرکٹ میچز ختم کیے، تعلیمی ادارے بند کیے، سینما گھر اور اجتماعات پر پابندی لگائی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے معاملے پر چین کے تجربات سے سیکھ رہے ہیں، وہاں مرض سامنے آیا تو چینی حکومت سے رابطے میں رہے، وہاں کی حکومت نے معاملے کو اچھے سے سنبھالا ہے، وہاں سے کوئی کیس پاکستان نہیں آیا، چین نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پاکستانی طلبا کا خیال اپنے بچوں کی طرح رکھیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کورونا کا معاملہ سنگین ہونے پر ایران کی مرض سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور پڑ گئی، میں موجودہ صورتحال میں عالمی برادری کے سامنے تہران پر عائد پر پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔

عمران خان کے کورونا وائرس کے پیش نظر کنسٹرکشن انڈسٹری کو مراعات دینے اور منگل کو امدادی پیکیج دینے کے اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تازہ ترین