• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موروثی سیاست کا خاتمہ ایک خوبصورت نعرہ ہے، آپ نے کئی سیاسی لیڈرو ں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ وہ سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ختم کر دیں گے لیکن اقتدار حاصل کرنے کے لئے یہ انقلابی لیڈر اپنے اکثر وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے کی بڑھکیں لگانے والوں کو آپ بڑے بڑے جاگیرداروں کے ساتھ اتحاد کرتا دیکھتے ہیں اور موروثی سیاست کے خاتمے کا نعرہ لگانے والوں کے دائیں بائیں وہ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو موروثی سیاست کا جیتا جاگتا شاہکار ہوتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے تمام اہم عہدوں پر کسی ایک خاندان کے افراد کا قبضہ نہیں ہونا چاہئے لیکن کسی شخص کو محض اس بنا پر سیاست میں آنے سے روکا نہیں جاسکتا کہ اس کا باپ یا بھائی بھی سیاست میں ہیں۔ اگر وکیل کے بیٹے کوو کیل بننے کا حق ہے، فوجی کا بیٹا فوجی بن سکتا ہے، صحافی کا بیٹا صحافی بن سکتا ہے تو سیاستدان کا بیٹا یا بیٹی بھی سیاست میں آسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ایک معیار ہونا چاہئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ عام لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کی روایت مستحکم ہونے سے موروثی سیاست خود بخود کمزور ہوتی جائے گی لیکن اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ جذباتی نعرے لگا کر وقتی مقبولیت حاصل کرنا بہت آسان ہے لیکن جذباتی نعروں کے ذریعے زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ آیئے پاکستان کی سیاست کا جائزہ لینے سے قبل کچھ ترقی یافتہ ممالک کی سیاست پر نظر ڈالتے ہیں۔
امریکہ و برطانیہ میں آپ کو کئی خاندان طویل عرصے سے سیاست میں سرگرم نظر آئیں گے۔ بش خاندان کے باپ اور بیٹا دونوں امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں اور ان کے علاوہ بھی کچھ نوجوان بش سیاست میں متحرک ہیں۔ برطانیہ میں ونسٹن چرچل کا خاندان، سپنسر خاندان، مورسن خاندان او رلانگ خاندان سمیت کئی خاندان صدیوں سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ یہ جاگیردار اور نواب نہیں ہیں بلکہ عوام کے ووٹ لے کر آتے ہیں۔ کبھی جیت جاتے ہیں کبھی ہار جاتے ہیں۔ فرانس کے تین صدور کے خاندان سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ڈیگال اور متراں کے بعد صدر سرکوزی کے بیٹے جین سرکوزی بھی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ پاکستان میں ملائیشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد کو گڈ گورننس کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مہاتیر کے دو بیٹے سیاست میں ہیں۔
اب ذرا پڑوس میں چلئے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت میں موتی لال نہرو کا بیٹا جواہر لال نہرو وزیراعظم بنا۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی بھی وزیراعظم بنی۔ اندرا گاندھی نے اپنے والد کا نام استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے خاوند فیروز گاندھی کا نام اپنے نام کا حصہ بنایا۔ اندرا گاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی بھی بھارت کا وزیراعظم بنا۔ راجیو گاندھی کی اہلیہ سونیا گاندھی کانگریس کی سربراہ بنیں اور ان کے بچے راہول اور پریانکا بھی سیاست میں آچکے ہیں۔ اندرا گاندھی کے ایک بیٹے سنجے گاندھی کا خاندان بی جے پی میں ہے۔ ان کی بیوہ مونیکا اور بیٹا ورون گاندھی بی جے پی میں متحرک ہیں۔ بھارتی ریاست بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرشاد یادیو کی اہلیہ رابری دیوی اور دو سالے سیاست میں ہیں۔ بھارت کے سابق ڈپٹی وزیراعظم جگ جیون رام کی بیٹی میرا کمار آج کل بھارتی لوک سبھا کی سپیکر ہیں۔ بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کی اہلیہ اور کئی رشتہ دار سیاست میں ہیں۔ اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادیو کا بیٹا، بہو اور کئی بھتیجے سیاست میں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبد اللہ کا بیٹا فاروق عبد اللہ اور پوتا عمر عبد اللہ سیاست میں سرگرم ہیں۔ بھارت میں جمہوری عمل ہمیشہ جاری ر ہا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کی سیاست میں آج بھی کم از کم 30خاندانوں کا اثر و رسوخ قائم ہے کیونکہ وہ ووٹ کے ذریعے پارلیمینٹ میں پہنچتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ دو بڑی جماعتوں کی قیادت دو خواتین کے پاس ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی طاقت ان کے والد شیخ مجیب الرحمن کا نام ہے اب حسینہ واجد کا ایک بیٹا بھی سیاست میں آچکا ۔ خالدہ ضیاء کی طاقت ان کے مرحوم خاوند جنرل ضیاء الرحمن کا نام ہے اور ان کا بھی ایک بیٹا سیاست میں آچکا ہے۔ اب ذرا پاکستان کی طرف آیئے۔
پاکستان کی سیاست میں کئی خاندان نظر آتے ہیں۔ بھٹو خاندان، زرداری خاندان، شریف خاندان، لغاری خاندان، مزاری خاندان سمیت کئی خاندان مختلف سیاسی جماعتوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں صرف روائتی جاگیرداروں اور سرداروں کے خاندان نہیں بلکہ کاروباری خاندانوں کے علاوہ پیروں، گدی نشینوں اورعلما کے خاندان بھی نسل در نسل سیاست کر رہے ہیں۔ ایک طرف پیر پگاڑو کا خاندان ہے تو دوسری طرف مولانا مفتی محمود کا خاندان سیاست میں سرگرم عمل ہے۔ غوث بخش بزنجو جیسے ترقی پسند لیڈر کا بیٹا حاصل بزنجو اور رسول بخش پلیجو جیسے انتہائی پڑھے لکھے سیاستدان کا بیٹا ایاز لطیف پلیجو بھی باپ کے راستے پر چل رہا ہے۔ غور کیا جائے تو جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم میں موروثی سیاست کم نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف موروثی سیاست کے خلاف دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کے خاندان طویل عر صے سے سیاست میں ہیں۔ سب سے بڑی مثال جناب مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں۔ ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی جنرل ضیاء کے دور میں پنجاب کے گورنر تھے۔ شاہ محمود قریشی پہلے مسلم لیگ (ن) میں تھے، پھر پیپلز پارٹی میں گئے اب تحریک انصاف میں آگئے ہیں۔ ان کے برخوردار بھی تحریک انصاف میں سرگرم ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک اور رہنما عارف علوی کے برخوردار بھی پارٹی میں سرگرم ہیں۔ یہ برخورداران پارٹی میں الیکشن کے ذریعے عہدہ حاصل کریں اور پھر الیکشن لڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف پر موروثی سیاست کا قبضہ ہوگیا ہے۔ جس طرح تحریک انصاف میں الیکشن ہوا ہے اسی طرح سب جماعتوں کے اندر الیکشن ہونا چاہئے۔ بلاول، حمزہ شہباز، مونس الٰہی، علی موسیٰ گیلانی ایک سیاسی عمل کے ذریعے پارٹی کا عہدہ حاصل کریں یا ووٹ حاصل کریں کوئی ان پر اعتراض نہیں کرسکتا لیکن اگر وہ اپنے والدین کے عہدے اور سیاسی اثر و رسوخ کو اپنی سیاست کی بیساکھیاں بنائیں گے تو پھر نیک نامی نہیں بلکہ بدنامی ملے گی۔ کافی دنوں سے یہ خبریں گردش میں تھیں کہ جناب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی آنے والے الیکشن میں حصہ لیں گی۔ میری اطلاع کے مطابق مریم نواز اس الیکشن میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں البتہ وہ ایک سیاسی کارکن کے طور پر کافی متحرک ہیں اور آئندہ بھی متحرک رہیں گی۔ ان کے پاس اپنی جماعت کا کوئی عہدہ نہیں وہ پارٹی الیکشن کے ذریعے کوئی عہدہ حاصل کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس سلسلے میں سب سے بہترین مثال اسفند یار ولی کی ہے جو ایک کارکن کی حیثیت سے اپنے والد کی پارٹی میں شامل ہوئے۔ پارٹی کے اندر الیکشن کے ذریعے آگے آئے اور پارٹی کے صدربن گئے۔ ان پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ امیر حیدر ہوتی ان کے رشتہ دار تھے اس لئے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بنائے گئے لیکن آخری فیصلہ تو عوام کو کرنا ہے۔ اگر اسفند یار ولی کا فیصلہ غلط ًتھا تو الیکشن میں عوام ان کی پارٹی کو مسترد کر دیں گے اگر الیکشن میں اسفند یار ولی اور ہوتی دوبارہ جیت جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اے این پی مورثی سیاست کرتی ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاست کی حقیقت اور افسانے میں بہت فرق ہے۔
تازہ ترین