• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالب کا شماران چند خوش قسمت شعرا میں ہوتا ہے، جن کی شاعری و فکر کا مطالعہ اور ان کی ستائش، جو گرچہ ان کی زندگی میں ان کے حسبِ خواہش شروع نہ ہوئی ہو، لیکن جب شروع ہوئی تو اب تک اس کی کوئی انتہانہیں ، بلکہ اگر مقابلتاً دیکھا جائے ،تو بحیثیت اردو شاعر و مفکّراوربطور موضوعِ مطالعہ و تحقیق ، اردو میں حضرتِ اقبالؒ کے بعد کسی اور شاعر کو ان کے مدّ ِ مقابل نہیں کہا جاسکتا۔وہ اگرفارسی شاعری کے حوالے سے بھی مطالعے کا موضوع بنے، تو ہندی کے بھی بڑے سے بڑے شاعر سے کم توجّہ و مقبولیت حاصل نہ ہوئی۔ لیکن ان کا دَورایک ایسا دَور رہا، جب فارسی زبان محدود سے محدودتر ہوتی جارہی تھی، اس لیے انہیں پڑھنے سُننے والے زیادہ تراردو زبان ہی کے میّسر آئے ، چناں چہ ہندوستان میں غالب کو شہرت و مقبولیت اردو شاعری ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی، گرچہ اردو شاعری کے مقابلے میں فارسی میں انہوں نے کم و بیش دس گنا زیادہ کلام تخلیق کیا ، جس پر خود غالب کو بے حد اعتمادو فخر بھی تھا۔

اردو شاعری میں انہیں جو مقام و مقبولیت حاصل ہوئی ، اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ذہانت، طباعی اور ذکاوت ان کی شخصیت میں نمایاں تھی ، مگر تقلید کبھی گوارا نہ ہوئی، اس لیے شاعری میں انہوں نے اپنی ایک الگ راہ نکالی،جو ان ہی کے ساتھ مخصوص بھی رہی کہ جس میں رمز و ایما کی تہہ داری کے ساتھ مزاح اور طنز کی چاشنی بھی شامل تھی۔ یہ ساری صفات دیگر اردو شعراکواس طرح اور اس قدر نصیب نہ ہوئیں۔ماضی کے اور اپنے ہم عصردیگر اردو شعراءکے مقابلے میںانہیں جو امتیاز حاصل ہوا،وہ بالعموم نازک خیالی، معنی آفرینی اور جدّت پسندی کی وجہ سے ہوا۔انہوں نے طرزِ بیان اور اسلوب کے بجائے، مضمون و معنی آفرینی کو زیادہ اہمیت دی ۔ گرچہ فلسفے سے انہیں زیادہ نسبت نہ تھی، لیکن ذہن فلسفیانہ تھا، اس لیے حیات و کائنات کے تمام ہی مسائل و موضوعات کو اپنی شاعری میں بھی بھر پورجگہ دی کہ ہندوستان کے کم ہی شعراء میں اتنافکری تنوّع اور خیالات کی گہرائی و گیرائی نظر آتی ہے۔

بعض مقامات پر تو غالب نے شعر کے بجائے نثر یا خطوط میں، جو اپنے بعض خاص احباب بمثلِ غمگین کو لکھے، فکر و احساس زیادہ جاگزیں نظر آتاہے۔انہوں نے اپنے اس عمل کے توسّط سے لفظیات میں بھی روایتی علامتوں اور استعاروں کو ایسی معنویت دی ،جو صرف انہی کے ساتھ منسوب ہے۔گرچہ غالب کی شاعری کے فنی و معنوی محاسن کا مطالعہ ان کے شاگرد،الطاف حسین حالی کی کوششوں سے شروع ہوگیاتھا،جسے عبدالرحمٰن بجنوری نے ایک فنی و فکری جہت دی، لیکن جیسے جیسے ہمارا تنقیدی شعور پختہ ، وسیع تر ہوتا گیا اور مطالعے میں بھی تنوّع اور وسعت عام ہوئی ، غالب کی شاعری اور فکر کے نئے نئے گوشے سامنے آتے گئے ۔ 

مطالعۂ غالب کے تحقیقی موضوعات اور ان کے کلام کے تدوینی تقاضوں سے قطع نظرکہ جو مولانا امتیاز علی عرشی، حافظ محمود شیرانی اور خاص طور پر مالک رام نے اپنی کاوشوں میں ملحوظ رکھے، لیکن جب شیخ محمّد اکرام،خلیفہ عبدالحکیم اور خلیل الرّحمٰن اعظمی نے غالب کی فکر و شاعری کا اپنی اپنی جہتوں سے مطالعے کا آغاز کیا،تو مزید فکرانگیزمباحث سامنے آئے اور غالب کی حیثیت وعظمت زیادہ نمایاں ہوئی ۔ یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا کہ آج ڈاکٹر انور معظم بھی بذریعہ اپنی عمدہ و منفرد تصنیف’’عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ:غالب کی فکری وابستگیاں‘‘اس صف میں شامل ہوگئے ہیں ۔

ڈاکٹر انور معظّم اپنی علمی دل چسپیوں اورتدریسی و تصنیفی خدمات کے ذیل میں بیسویں صدی کی فکرِاسلامی کی تاریخ کے پس منظر اور نمایاں افکار و خیالات کے مطالعے اور تجزیے کے حوالے سے ، جس میں جنوبی ایشیا کی مذہبی فکر کا ارتقا اور عصری رجحانات و میلانات بھی شامل ہیں ، اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔وہ ایک وسیع تر علمی پس منظراور شائستہ علمی ماحول سے وابستہ ہیں اور ادب و شعر کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ یہی ذوق انہیں غالب کے عمیق مطالعے تک لے آیا ۔ غالب کی شاعری کو انہوں نے اپنی گہری دل چسپی و پسندیدگی کے نتیجے میںایک ایسے مطالعے کا موضوع بنایا ، جس پر بالعموم دیگر مصنفین اور نقّادوں کی نظر اس زاویے سے نہیں پڑی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کا غالب کے حوالے سے یہ مطالعہ جس انفرادیت کا حامل ہے، اس میں غالب کی شاعری و فکر کے موضوعات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ غالب کی زندگی، ان کا ماحول اور ان کے معاشرتی و علمی روابط تو متعدد مطالعات کا موضوع بنے ہیں ،لیکن بالخصوص ان کی مذہبی وابستگیوںاور اس ذیل میں عقائد و آفرینش ِ آدم و کائنات کے بارے میںان کے نظریات کو متعیّن کرنے پر چند ماہرین اور غالب پسندمصنفین ہی دل چسپی لیتے ہیں، لیکن کسی کی شایدمفصّل توجّہ ان پر مرکوز نہ رہی۔پھر اسی ذیل میں وجودیات اور تصوّر زماں ایسے عنوانات ہیں، جن کے تحت غالب کی فکر کا کھوج لگانے کا عمل اس طرح کسی اوراہلِ قلم کے بس کی بات شاید نہ رہاکہ بطور موضوعات یہ مباحث کسی کے بھی مطالعے میں محض جزوی حوالے اورجائزے سے آگے نہ بڑھ سکے۔

شاعری سے قطع نظر، ایسے ہی فکری مباحث، جنہیں ڈاکٹر صاحب نے زیرِنظر صفحات میں غالب کی ’’حیاتِ شعری کی اقدار‘‘ کے تحت اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے، جیسے،’’خدا، جبروقدر، دانش، خرد، ‘‘یہ عنوانات ایسے مباحث پر مشتمل ہیں، جن میں مطالعے اور بحث و نظر کے نِت نئے پہلو اُجاگر ہوئے ہیں۔ ان کے توسّط سے غالب ہمارے لیے ایک ایسے شاعر کے طور پر سامنے آئے، جن کی شاعری ’’ ایک عالمِ تحیّرہے‘‘۔زیرِ نظر مطالعے کا آغاز ہی غالب کے عہد کے فکری ماحول سے ہواہے اور متعلقہ عنوانات و اصطلاحات پر بحث مباحثے سے پہلے فاضل مصنّف غالب ہی کے عقیدے و مسلک کو موضوع بناتے ہوئے وہ ایسے ایسے نکات تک پہنچے کہ ان کے لیے’ ’غالب ایک نہیں ،کئی غالب ہیں‘‘۔فکری وابستگیوں میں جہاں غالب کے علمائے عصر، ڈاکٹر صاحب کا موضوع بنے ،وہیں شعری روایات کے ذیل میں فارسی شاعربیدل سے تاثر واثر پذیری کا رشتہ بھی زیرِ گفتگو آیا۔ کتاب کی شکل میںڈاکٹرصاحب کی بے حد پُرشوق وعمیق کاوش ،مطالعات غالب کے ضمن یا غالبیات میں اہم ترین و منفرد اضافہ بھی ہے۔ایک ایسا اضافہ، جس کی بابت شاید کبھی اس زاویۂ نظر اور اس جامعیت و معیار کے ساتھ،کسی اور نے اگر سوچا بھی تو اسے پیش نہ کیا۔

تازہ ترین