• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشور حسین شاد باد کو آزاد ہو کر 72برس بیت چکے ہیں اور ان برسوں میں ہم چاہے کچھ بھی نہ ہوئے ہوں لیکن آزاد ضرور ہو گئے ہیں۔ دوسرے ملک جب آزاد ہوتے ہیں تو انہیں سیاسی آزادی حاصل ہوتی ہے لیکن ہم آزاد ہوئے ہیں تو ہم نے زندگی کا ہر گوشہ آزاد کر لیا ہے۔ ہم معاشی، ثقافتی،مذہبی،اخلاقی اور ادبی میدان میں آزاد ہیں یہاں تک کہ سینما اور ٹی وی کے میدان میں بھی ہمیں آزادی حاصل ہے، رہا سوال صحافت کا تو ہماری صحافت بھی بالکل آزاد ہے۔ سیاست میں ہم جتنے آزاد ہیں، اتنا آزاد دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک نہیں ہے۔ سیاست میں ہم غیر ملکی غلامی سے ہی آزاد نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہر پالیسی سے بھی آزاد ہو گئے یہاں تک کہ اپنے فیصلے کرنے سے بھی آزاد ہو گئے ہیں۔ ایسا کوئی اصول، قاعدہ، قانون اور اخلاقیات نہیں جس سے ہم آزاد نہ ہوئے ہوں ایسا کوئی اصول، منطق، عذر اور جواز نہیں جس سے ہم آزاد نہ ہوئے ہوں۔ ہمارے بڑے سے بڑ ے رہنما کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جہاں ہے وہیں رہے گا کہ وہ آزاد ہے۔ جس پارٹی کا نمک کھایا ہے اس کا ساتھ نبھائے گا یا اب تک جس کی مخالفت کرتا ہے اس کی مخالفت کرتا رہے گا کہ وہ آزاد ہے کوئی بڑے سے بڑے نجومی یا جوتشی بھی پتہ نہیں چلا سکتا کہ ہمارا لیڈر کب قلابازی کھائے گا کب یو ٹرن لے گاکہ وہ آزاد ہے۔ وہ جسے آج گالی دے رہا ہے کل اسے گلے لگا لے اور آج جسے گلے لگا رہا ہے کل اس کا گلا کاٹ دے۔ ہمارے آزاد ملک میں جتنی آزاد ہماری سیاست ہے اتنی آزادی کسی اور شعبے میں نہیں ۔ہمارے سیاسی رہنما اور آمر ملک کے مفاد کے خلاف جو بھی کرتے ہیں نہ انہیں کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ خطرہ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اسے کرنے کی انہیں پوری آزادی ہے، کس کی مجال ہے جو ان کی آزادی میں رکاوٹ بنے۔ ہمارے سیاسی اور و غیرسیاسی لیڈر آزادی سے کام کرنے کے اتنے عادی ہیں کہ ملک کی آزادی بھلے ہی خطرے میں پڑ جائے بھلے ہی آدھا ملک گنوا دیا جائے لیکن وہ اپنی آزادی کو ہر گز خطرے میں نہیں ڈالتے جس ملک کے لیڈران کرام اتنے آزاد ہیں کہ انہیں آزادی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تو مان لینا چاہئے کہ ملک حقیقت میں آزاد ہے،ہماری اس آزادی کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک کا سرمایہ بھی آزاد ہے اور سرمایہ دار بھی۔ پیسے اور سرمائے کے معاملے میں جو آزادی چور کو حاصل ہے وہی جیب کترے اور اسمگلر کو بھی ملی ہوئی ہے۔ ہمارے ملک کا سرمایہ آزادی سے ادھر ادھر گھومتا ہے اسے پرہیز ہےتو صرف غریبوں سے۔ مزدوروں اور کسانوں سے۔ وہ لیڈروں سے لیکر غنڈوں،بدمعاشوں تک کی گود میں بیٹھنے سے قطعی نہیں شرماتا۔ بینکوں سے اربوں روپے معاف کرنے والوں سے نہیں جھجکتا،جو جتنا بڑا اسمگلر جتنا بڑا منافع خور، جتنا بڑا بینک کرپٹ ہے وہ اتنا ہی پیسے والا ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں چور چوری کرنے کیلئے، ڈاکو ڈاکہ ڈالنے کیلئے،اسمگلر اسمگلنگ کیلئے، تاجر کالا دھندا کرنے کیلئے تو افسر رشوت لینے کیلئے آزاد ہیں۔ آپ چاہیں تو دوا میں زہر ملائیں یا دالوں، مسالوں میں اینٹ، پتھر یا آٹے میں ریت، آپ کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ آزادی کی کتنی ہی ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن میں ہوں کہ ’’اپنی آزادی‘‘ کو کوس رہا ہوں، اپنے نظام زندگی کو کوس رہا ہوں جس میں خود غرضی، لالچ، جھوٹ، فریب، استحصال، بنی نوع انسان کا جلال و قتال اور انتقام و عداوت روزمرہ کا معمول ہے۔ ملک شاد باد کو قائم ہوئے 72 برس بیت گئے اس دوران پانچ دریائوں کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ آدھی صدی سے زائد بیت گئی ہم نے بہت کچھ دیکھا اور سنا ہے لیکن جو حاصل ہے وہ کیا ہے، انتشار، دہشت گردی، تعصبات، توہمات، انتہا پسندی؟سیکولر ازم، خیر سگالی، اخوت، عدم تشدد، روشن خیالی اور خوشحالی کی خواہش کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے نئے ملک ہالینڈ کی یاد آتی ہے،میں سوچتا ہوں کہ پاکستان میں بھی ہالینڈ کی طرح جمہوریت،رواداری، امن پسندی، سیکولر ازم، بھائی چارہ، حقیقت پسندی، وقار، انسانی عظمت، اور دیانت داری کی فضا کیوں سازگار نہیں ہو سکتی؟

آج جب ملک عزیز میں جرائم، بھوک، دکھ درد اور تاریکیوں کا راج ہے ان حالات میں افہام و تفہیم،عدم تشدد، بھائی چارہ، خوشحالی، شرافت، عظمت، عروج،ترقی،دیانت داری، وقار، شائستگی، حقیقت پسندی، عقل دوستی، روشن خیالی، ترقی پسندی اور امن پسندی کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ناداری، افلاس، جہالت جرائم اور مذہبی جنونیت کے خلاف جہاد شروع کریں لیکن سماج میں تبدیلی لانے کے بجائے حالات کو جوں کا توں رہنے دینے میں ہی عافیت محسوس کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب اختیار گزشتہ چھیاسٹھ برسوں سےاس قسم کے جملے کہتے ہیں۔’’ فراہم کئے جائیں گے۔اقدامات کریں گے۔ گامزن کیا جائے گا۔حاصل کریں گے۔آمدنی میں اضافہ ہو گا ۔توقع کرتے ہیں۔صحت مندانہ ہوگی۔حاصل کیا جائے گا۔۔لایا جائیگا۔توجہ دی جائے گی۔ سہولتیں دی جائینگی ۔یقینی بنایا جائے گا۔۔ اقدام اٹھائے جائیں۔۔۔ شروع کئے جائیں گے۔ کارروائی کی جائے گی۔۔۔‘‘وغیرہ وغیرہ مندرجہ بالا یہ وہ جملے اور وعدے ہیں جو ہر وزیر یا حکومتی عہدیدار گاہے بگاہے دہراتا رہتا ہے۔ میں اور میرے جیسے لوگ زندگی کو اپنی ڈگر پر لانے کی سعی کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تاکہ انسانیت امن اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو کہ ہم میں زندگی کو حسین سے حسین تر بنانے اور دیکھنے کی آرزو اور اس سے لطف اندوز ہونے کی تمنا ہر حال میں باقی رہتی ہے۔

تازہ ترین