کچھ عرصہ قبل ٹھل میںزہر خورانی کی وجہ سے ایک 20سالہ شادی شدہ لڑکی کی موت واقع ہوئی تھی۔ لڑکی کے سسرال والوں نے اس کی موت کو خودکشی قرار دیا جب کہ متوفیہ کے والدین نے سسرال والوں پر اس کے قتل کا الزام عائد کیاتھا، لیکن اس کی موت اب تک معمہ بنی ہوئی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ 20سالہ لڑکی شاکرہ نے وقوعہ کے روز صبح 9بجے زہر کھایا تھا۔ اس کے سسرال والوں کو مبینہ طور پراس بات کا اس وقت علم ہوا جب وہ انہیںاپنے کمرے میں بے ہوشی کی حالت میں ملی۔ اسے جیکب آباد اسپتال لے جایا گیا لیکن اس کی حالت انتہائی تشویش ناک ہوچکی تھی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہوسکی اوراس کی موت واقعہ ہوگئی۔ درائع کے مطابق لڑکی اور اس کےسسرالیوں کا تعلق پٹھانوں کے ملا خیل قبیلے سے ہے۔ملا خیل قبیلے کے متعدد خاندان ٹھل ریلوے اسٹیشن کے نزدیک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہیں۔ چند سال قبل اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص عبدالرحمن پٹھان نے اپنے بیٹے پیر محمدپٹھان کے لیےملا خیل قبیلے کے ہی ایک شخص عبداللہ پٹھان سے شاکرہ نامی لڑکی کا رشتہ رقم کے عوض طے کیا ۔ شادی کے بعد نامعلوم وجوہات پر دولہا پیر محمد نے خودکشی کرلی جس کے بعد مذکورہ لڑکی قبائلی نظام کےظالمانہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑ دی گئی۔ اس قبیلے کا رواج یہ ہے کہ جو خاندان لڑکی خریدتا ہے وہ ساری زندگی لڑکی کو اپنے خاندان کا حصہ بنا کر رکھتا ہے۔
عبدالرحمن پٹھان نے اپنے بیٹے پیر محمد پٹھان کی موت کے بعد شاکرہ اپنے دوسرے چھوٹے بیٹے کے نام سےمنسوب کردی جس کی عمرصرف 8سال ہے۔ قبیلے کے جرگے فیصلے کے مطابق لڑکی شاکرہ اپنے سسر عبدالرحمن کے گھر میںرہے گی۔ جب اس کا دیور جس سے اسے شوہرکی موت کے بعد منسوب کیا گیا ہے، جوان ہوگاتو اس کی شادی اس سے کردی جائے گی ۔اس فیصلے کی رو سے عبدالرحمن اپنی بیوہ بہو کو اپنے گھر لایا اور اس سے گھر کے کام کاج کرواتا رہا۔لڑکی کے والدین کے مطابق، وہاں لڑکی سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ اس سے دن رات مشقت کرائی جاتی تھی، جب کہ اسے ظلم و تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ اس صورت حال سے گھبرا کر وہ گھر سے بھاگ کر اپنے والدین کے گھر آگئی۔ لیکن قبائلی جرگہ والوں نے لڑکی کو ہر حال میں واپس سسرال بھیجنے پر زور دیا جس کے بعد اس کے والد عبداللہ پٹھان نے لڑکی شاکرہ کو واپس سسرال والوں کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد لڑکی کو مزید ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ مزید ظلم برداشت نہ کرسکی اور زہر کھا کر اپنی زندگی ختم کرلی۔
لڑکی کے والدین نے اس کی موت کوخودکشی کی بجائے قتل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سسرال والے مبینہ طور سے چرس کی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے تھے اور وہ لڑکی کوبھی چرس کی نقل و حمل کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے ان کی شریک کار بننے سے انکار کردیا تھا۔ اطلاع ملنے پر پولیس موقع واردات پرپہنچی، اس نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور لاش کو اپنی تحویل میں لے لیا۔لڑکی کا سسر عبدالرحمن پٹھان اور سسرال کے دیگر افراد گھر بار چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔ پولیس نے ان کی بکریاں، مال مویشی لاکھوں روپے کے پارچہ جات اپنی تحویل میں لے لیے ہیں۔ پولیس نے ان کے تین رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا ہے جب کہ قانونی کارروائیوں کے بعد لاش والدین کے حوالے کردی گئی ہے۔ تفتیش جاری ہے جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں اس وقت تک خودکشی یا قتل کے حوالے سے کوئی بھی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی ۔لڑکی کی موت قتل ہے یا خودکشی، اس معمہ کو حل کرنے کے لیے پولیس واقعے کے ہر پہلو کا جائزہ لے رہی ہے جب کہ اس کے سسرال والوں کی تلاش میں مختلف جگہوںپر چھاپے مارے جارہے ہیں۔