• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کا نوحہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کبھی بھی اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں رہی، جہاں اس سلسلے میں آمروں کے مقاصد عیارانہ تھے تو وہاں جمہوریت کی علمبردار اکثر جماعتوں نے بھی اپنے کردار سے انصاف نہیں کیا۔ یہ تسلیم کہ یہ سیاستدان ہی تھے جن کی جدوجہد کے نتیجےمیں آمر بالآخر اقتدار سول نمائندوں کو منتقل کرنے پر مجبور ہوتے رہے، مگر یہ بھی تلخ سچ ہے کہ جب جب سول بالادستی کی حتمی منزل قریب آ پہنچی یہ سیاستدان ہی ہیں جو سستے داموں نیلام ہوتے دیکھے گئے۔ عہدِ ستم کے اس دوراں اگرچہ اہلِ صحافت کا کردار مثالی رہا لیکن گاہے گاہے اس صف کے بھی بعض عناصر جمہوری و اظہارِ رائے کی آزادی کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کیلئے بروئے کار آئے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اگر جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذ نہیں ہو سکی ہے تو اس کی ایک اہم مگر بنیادی وجہ سول حکومتوں کے ساتھ بعض قلم کاروں کا موقع پرست کردار بھی ہے۔ آپ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کیے بغیر کسی بھی ملک میں شفاف جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا، زیر نظر کالم میں ہم مقدور بھر اس امر کی نقاب کشائی کریں گے کہ جمہوری یا غیر جمہوری حکمران کس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اظہارِ رائے کے اس حق میں خیانت کرتے رہے ہیں اور باکردار صحافی کس طرح ان پابندیوں کے خلاف جدوجہد پر مشقِ ستم بنے۔ اس سلسلے میں ہم اُستاد محترم پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمدخان کے مقالے سے ایک باب ’’آزادیٔ صحافت کو سلب کرنے کے طریقے‘‘ کو راہ نما بناتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک کی حکومتوں نے مختلف قوانین کے نفاذ کے علاوہ آزادیٔ صحافت پر قدغن لگانے کیلئے جو اسلوب اپنائے ان میں پریس ایڈوائس، سرکاری اشتہارات کی معطلی، اخباری کاغذ کا کوٹہ، صحافیوں کو ہراساں کرنا، پری سنسر شپ کا نفاذ اور پریشر گروپ شامل ہیں۔ ہم یہاں صرف دو یعنی اشتہارات اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے طریقہ واردات پر بات کرتے ہیں۔ یہ امر واضح ہے کہ سرکاری شعبہ کے اشتہارات اخبارات کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، اس لئے اشتہارات کو اخبارات کی حکمت عملی کو قابو کرنے کیلئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ممتاز صحافی ڈاکٹر جبار خٹک کے مطابق ملک میں فیصلہ ساز مقتدر حلقوں نے اخبارات کی آزادی کو قابو کرنے کیلئے اشتہارات کو بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ وزارتِ اطلاعات کی نوکر شاہی اپنی مرضی سے اخبارات کیلئے نرخ کا تعین کرتی ہے اور ہر دور میں ہر ایک اخبار کیلئے نرخ مختلف ہوتے ہیں، عمومی طور پر اخبارات کی اشاعت کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ اخبار کی ادارتی حکمت عملی کو کنٹرول کرنے کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ نامور صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لا میں یہ پالیسی بنائی گئی تھی کہ حکومت پر تنقید کرنے والے کسی اخبار کو اشتہار نہیں دیے جائیں گے، ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دوران قومیانے کی پالیسی کے بعد مجموعی اشتہارات پر حکومت کا قبضہ ہوگیا۔ بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں حکومت پر تنقیدی رویہ اختیار کرنے والے اخبارات کو سرکاری اشتہارات سے محروم کر دیا گیا۔ جہاں ایک طرف اشتہارات کو اظہارِ رائے کے حق کو دبانے کیلئے بروئے کار لایا گیا تو دوسری طرف صحافیوں کو ہراساں کرکے حق سچ عوام کے سامنے لانے کی سعی لاحاصل کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت پر تنقید کرنے والے اخبارات کے مدیروں کو مختلف امتناعی قوانین کے تحت گرفتار کیا جاتا تھا، 1948ء میں فیض احمد فیضؔ کی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری سے یہ سلسلہ شروع ہوا جو 1958ء تک جاری رہا، پھر ایوبی آمریت کے دوران ڈی پی آر کے تحت صحافیوں کی گرفتاریاں ہونے لگیں، جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو اور ضیاء الحق کے ادوار میں اس امتناعی قانون کے علاوہ دہشت گردی کے قوانین اور سیکریٹس ایکٹ کے تحت ایڈیٹروں اور صحافیوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ 1985ء میں جونیجو حکومت کے دور سے پریشر گروپوں نے اخبارات کی آزادی کو مختلف طریقوں سے سلب کرنا شروع کیا، ان گروپوں میں لسانی، مذہبی، جہادی تنظیمیں، خفیہ ادارے قابل ذکر ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج کی جدید مہذب و جمہوری دنیا بنیادی بشری، جمہوری اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حقوق سے عبارت ہے مگر ہم ہیں کہ جیسے ماضی ہی میں سرکش گھوڑے دوڑا رہے ہیں، ہر شعبے میں گویا بحیثیت مجموعی ترقی معکوس کا شکار ہیں۔ موجودہ دور جہاں پابندیٔ صحافت کے حوالے سے نت نئے طرز لیے ہوئے ہے تو وہاں ماضی کی بدعتیں بھی مستعمل ہیں، جہاں عہدِ نو صحافت کے نام پر لے پالک عناصر کی بھیڑ کو دیکھ رہا ہے تو وہاں عہدِ تازہ جنگ و جیو کے کارکنان و مالکان اور صحافی برادری کی قربانیوں کی صورت جدوجہد کا نیا باب بھی مرتب ہوتے دیکھ رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین