
کریں۔ چین تو کسی حال میں نہیں نہ ویسے نہ ایسے ہر حال میں پریشانی ہے اور مزید یہ کہ وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھنے کی خبریں سنیں اور پریشانی کو مزید بڑھائیں جو بچا کھچا چین و سکون ہے اس کو بھی رخصت پر بھیج دیجیے۔ یہ ہے زندگی۔۔ خیر آگے برھتے ہیں اس وائرس سے صرف عام لوگ ہی نہیں بڑے لوگ بھی بری طرح متاثر ہو ئے ہیں۔ امریکہ جسے اس وائرس کا موجد قرار دیا جا رہا ہے وہاں روزانہ ہزاروں کیسز سامنے آ رہے ہیں اور اب حال یہ ہے کہ وہاں کے ڈاکٹرز بھی رو رہے ہیں کہ اس وبا سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس سہولیات کم پڑ رہی ہیں اور تو اور صدر ٹرمپ نے تو حریف ملک چائنا کے صدر سے مدد تک مانگ لی ہے، جس ملک کی بڑھتی معیشت سے سپر پاور پریشان تھا آج اسی سے مدد کا طالب ہے۔ یہ بھی زمانے کا عجب دستور ہے پتا ہی نہیں چلتا کہ کب دشمن سے بھی ہاتھ ملوا دیتا ہے۔ چائنا میں سخت لاک ڈاون کے بعد کچھ سکون ہوگیا ہے اس لئے وہ اب سب کو تسلی دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں گماں کچھ یہ ہو رہا ہے کہ جلد ہی چائنا اپنی پرانی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے سستے اور ٹکاو وینٹی لیٹرز بنانا شروع کر دے گا اور وہ وقت بھی آئے گا جب ہر گھر میں چائنا کے بنے وینٹی لیٹرز موجود ہوں گے اور جس تیزی سے چائنا ماسک بنا بنا کر دنیا بھر کو بانٹ رہا ہے گھروں میں گروسری کے ساتھ ماسک بھی خریدے جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ وبا دنیا میں کسی بڑی تبدیلی کا سبب بنے گی اب اس سے بڑی کیا تبدیلی ہوگی کہ وقت تو اب بھی تیزی سے گزر رہا ہے لیکن دنیا رک گئی ہے۔