• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ابرار میر۔۔لندن
راقم سے بسا اوقات کچھ نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو کیوں ووٹ دیا جائے اور خاص طور پراس دور میں کہ جب پیپلزپارٹی ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی ہے تو جواب کچھ یوں ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کا ایک صوبے تک رہنا بھی پاکستان میں جمہوریت کے زندہ رہنے کی دلیل ہے ورنہ تو جمہوریت فوت ہی ہوجائے۔ پیپلزپارٹی کا جنم پنجاب میں ہوا لیکن گزشتہ چار دھائیوں سے وہاں پیپلزپارٹی کا اپنا کوئی وزیراعلیٰ نہ آنے دیا گیا۔ پاکستان دولخت ہونے کے بعد اور ضیا کے مارشل لا سے پہلے پیپلزپارٹی کے چار لگاتار عوامی وزرائے اعلیٰ آئے اور آج تک ان کی کارکردگی سب سے نمایاں ہے۔ نوجوان اس فرق اور سازش کو سمجھ جاتے ہیں لیکن پھر کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو تو فوت ہوگئے تو اب ان کا نام کیوں لیا جاتا ہے اور پیپلزپارٹی کو اپنی کارکردگی پر ووٹ لینے چاہئیں۔ ان سے پھر عرض کرتا ہوں کہ شہید بینظیر بھٹو کی حکومت کے دو ادوار اور آصف علی زرداری کے دور کے کام اگر غلط ہیں یا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہیں تو پھر ان کاموں کو ایک منٹ کیلیے سوچیں کہ جیسے ان کا کوئی وجود نہیں تو پھر پاکستان آپ کو کیسا لگے گا تو وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ پھر
پیپلزپارٹی کو اس قدر دشواری کیوں پیش آتی ہے۔ جواب پھر اس طرح کا ہوتا ہے کہ جمہوری اقدار کی بات کرنا تو شاید آسان ہے لیکن ان پر چلنا اور ثابت قدم رہنا بہت ساری قربانیاں مانگتا ہے۔ جمہوریت ایک جہد مسلسل کا نام ہے اور اس کی منزل کوئی پانچ یا دس سال کی حکومت نہیں بلکہ نظریہ ہے جس سے مخالف بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔ باق رہی بات ووٹ کی تو وہ ابھی بیچاری گم شدہ حیثیت کی حامل ہے جب آزاد ہوگی تو پیپلزپارٹی کو ہی ملے گی اور جہاں تک سوال ذوالفقار علی بھٹو کے زندہ رہنے یا نہ رہنے کا ہے تو راقم انہیں اس طرح سمجھاتا ہے کہمرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیداصلہ شہید کیا ہے ؟ تب و تاب جاودانہ آج دنیا میں کورونا وائرس کی وبا نے سب نظام چوپٹ کرکے رکھ دیا اور اللہ پاک کی واحدانیت کا جلوہ سب نے دیکھ لیا ہر بندہ و بشر چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ بھی اللہ و اکبر کہے بنا نہ رہ سکا۔ بات انسانیت، سیاست اور جمہوری خدمات کی ہو تو اس کڑے وقت میں بھی اس قائدعوام، فخر ایشیا اور بانی چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی کی برسی پر دنیا بھر سے خراج عقیدت کے پھول نچھاور ہورہے ہیں اور یہی کسی شہید اور بھٹو کے زندہ رہنے کا حقیقی اور دائمی ثبوت ہے۔ اس قائد نے خود کہا تھا کہ چاہے کچھ بھی کر لو مجھے عوام سے کوئی جدا نہیں کرسکے گا۔ پیپلزپارٹی والے ایک نعرہ لگاتے ہیں کہ جب تک سورج چاند رہے گا۔ بھٹو تیرا نام رہے گا، اس کا مطلب ہے کہ تاقیامت اس قائد کا نظریہ اور نام زندہ سلامت رہے گا اور ثبوت آپ کے سامنے ہے کہ دنیا میں اس وقت قیامت کے آثار ہیں اور بھٹو کی برسی پھر بھی منائی جارہی ہے اور اس کا نام اسی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ پیپلزپارٹی یورپ کی تنظیم نے ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وڈیو لنکس پر برسی والے دن قائد عوام کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لہٰذا شہید کا صلہ ہی یہ ہے کہ اس کا نام تاقیامت چمکتا دمکتا رہے اور اس کے چاہنے والے اس کے نظرئیے اور سوچ کا پرچار کرتے رہیں جس نے پیپلزپارٹی اور اس کےبھٹو ازم کا نظارہ کیا وہ پھر بہت جان گیا اور باقی ادھر ادھر کی ہانکتے رہے۔
تازہ ترین