• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرونا وائرس عذاب الٰہی یا یاددہانی

تحریر:ڈاکٹرغلام نبی فلاحی۔۔ لندن
پوری دنیا میں کورونا وائرس نے ایک قیامت برپاکردی ہے۔ پہلے طاقت ور حکمران اپنی طاقت اور فوجی سازو سامان کے بل پر ایک علاقے یا بستی میں کریک ڈاون یا کرفیو لگا کر پوری بستی کی ناکہ بندی کردیتے تھے۔جیسا ہندوستانی حکمرانوں نے گزشتہ سال پانچ اگست کو ریاست جموں و کشمیر میں کیا کہ 80 لاکھ انسانوں کو ایک بہت بڑے جیل میں بند کردیا گیا۔ مگر ایک غیرمرئی حقیر سے کیڑے (کورونا وائرس) نے پوری دنیا میں لاک ڈائون کرکے ایسی تباہی مچادی کہ وقت کے حکمرانوں کو اپنے ہی جانوں کے لالے پڑگئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان قدرت کے سامنے بے بس ہے۔ اس سے اپنی خبر نہیں ایک معمولی مچھر کے ذریعہ لمحات میں اس کرہ ٔارضی کو نیست و نابود کیا جاسکتاہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے بہرکیف انسان اس کائینات میں اللہ و تبارک تعالی کی تخلیق کا ایک عظیم شاہکار ہے۔عقل کی آزادی کے ساتھ ساتھ اسے ایسی لازوال اور بے شمار نعمتوں سے نوازا گیاجنکا شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کی رہنمائی اور ہدایت کیلئے رسولوں اور پیغمبروں کو بھیجا ۔ آخری رسول محمد عربی ﷺ اس کی آخری کڑی ہے۔ ان کے ساتھ جو کتاب بھیجی اس کے عرف عام میں قرآن کہا جاتاہے یہ کتاب نوع انسانی کیلئے پہلی اور آخری کتاب ہی نہیں بلکہ امتزاجی اور تکمیلی کتاب بھی ہے جس میں دین و دنیا کے تمام مسائل پر حتمی کلی انداز میں بحث کی گئی ہے۔ یہ کتابیں اور رسل اس لیے آتے ہیں کہ قوموں اور ملتوںکی ترتیب و ترکیب کریں۔ کیونکہ قومیں ایک خاص ترتیب سے وجود میں آتی ہیں اور اس ترتیب و ترکیب کیلئے نظم و ضبط اور ڈسپلن بہت ضروری ہے۔ جب ان میں توازن، ترتیب اورڈسپلن باقی نہ رہے تو قومیں یقینا فتنہ ، فساد کی نہ صرف آماجگاہ بن جاتی ہیں بلکہ اسی فساد قلب و نظر اور بے ترتیبی کی بنا پر ان میں بہت سے مسائل بھی جنم لیتے ہیں جن میں بد امنی، فساد، ایک دوسرے کا گلہ کاٹنا، دھماکے، خود کش حملے، ایسے ہی اور دوسرے مسائل دراصل اسی بدنظمی اور نظم و ڈسپلن کی خلاف ورزی کا ہی نتیجہ ہے۔ ان مسائل کا تعلق لوگوں کے معاش، سیاست و معاشرت، تہذیب و تمدن اور اخلاق سے ہوتا ہے ۔ یہ کہیں انفرادی ہوتے ہیں اور کہیں اجتماعی۔ یہی مسائل پھر آہستہ آہستہ قومی سطح تک پہنچ کر پوری سوسائٹی کو اپنے گھیرے میں لے کر پوری قوم و ملت کیلئے ایک عذاب کی صورت اختیارکرجاتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب کبھی انسانوں نے ہدایت الہٰی کو جھٹلایا اور اللہ اور اس کے رسولوں کی تعلیمات کی تکذیب کی تو پھر یہ عذاب کبھی طوفان نوح کے ذریعہ مکذبین کو عبرتناک انجام تک پہنچاتاہے تو کبھی فرعون اور اس کے قافلہ کے غرور و سرکشی کو دریا نیل کے لہروں میں بہادیتاہے۔ نمرود کی ناک میں مچھر اس کے غرور کو خاک میں ملانے کا سبب بن جاتا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بڑے عذاب سے پہلے انہیں مختلف نوعیت کی آفات وآزمائیشوں کے ذریعہ متنبہ کیا جاتاہے۔ جیسے بنی اسرائیل کو مینڈکوں، ٹڈی دل، طاعون، پتھروں کی بارش، زلزلے اور آندھیوں جیسی آزمائیشوں میں مبتلا کیا جاتا رہا ہے۔ قرآن پاک نے اس طرح سے بہت سی قوموں کا تذکرہ کیا ہے جنہیں صفحہ ہستی سے اس طرح مٹایا گیا کہ وہ رہتی دنیا تک عبرت کا سامان ہی بنی رہیں گی۔ آج جب بھی ہم ان اقوام کا نام لیتے ہیں تو انہیں عبرت کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان اقوام کا کیا جرم تھا اور کس جرم کی پاداش میں انہیں قتل کیا گیا۔ قرآن پاک اور احادیث رسولﷺ کا جہاں تک تعلق ہے ان میں زیادہ تر یہی بات دہرائی گئی ہے کہ ان قوموں نے اللہ اور اس کے رسولوں کی دعوت کی تکذیب کی ہے۔ جب قومیں اپنے خالق و مالک کی ہدایت و رہنمائی سے منہ موڑتی ہیں تو اسکے نتیجہ میں غلط راہیں اختیار کرتی ہیں جس سے ان سے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ سمندروںکو بھی ان کی ان اوچھی حرکتوں پر غصہ آتا ہے اور وہ سونامی کی صورت میں انہیں اس دنیا سے نیست نابود کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتا۔ یہ اقوام اور افراد جب زمین پر بار بن جاتی ہیں تو زمین بھی اپنا سینہ شق کر کے انہیں اس طرح نگل جاتی ہے جیسے انکا وجود بھی اس دنیا میں نہیں تھا یا وہ قصہ پارینہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ قرآن اس حقیقت سے کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ جو لوگ عذاب الہی کو اپنے سے دور پاکر حق دشمنی میں جرئت دکھاتے ہیں انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ قدرت کے عذاب کو آتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ کوئی ہوا کا ایک جھونکا اچانک انہیں برباد کرسکتاہے۔ زلزلے کا ایک جھٹکا بستیوں کو پیوند خاک کردینے کیلئے کافی ہے۔ قبیلوں اور قوموں اور ملکوں کی عداوتوں کے میگزین میں ایک چنگاری وہ تباہی پھیلا سکتی ہے کہ سالہاسال تک اس خونریزی و بدامنی کا تدارک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قومیں تباہی و بربادی کا راستہ کیوں اختیار کرتی ہیں۔ اس کے علل و اسباب اور عذابوں کی نوعیت کوبھی اللہ تبارک و تعالی نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ یاد دہانی اور عذاب کی مختلف صورتیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نیاںی کتاب مقدس میں مختلف قوموں کے واقعات کو بیان کیا کہ ان پر کس طرح کے عذاب نازل کیئے گئے۔ مثلاقوم عاد پر جو عذاب آیا اس کیلئے قرآن پاک نے لفظ ’’حاصب،، استعمال کیا ہے۔ حاصب اس آندھی کو کہا جاتاہے جس مین سنگ ریزے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آندھی صرف مٹی ہی نہیں اڑا رہی تھی بلکہ اس میں سنگ ریزے بھی شامل تھے۔ ایک موقع پر فرمایا کہ اس قوم پر سات رات اور آٹھ دن ایسا سخت طوفان آیا اور اتنی شدید آندھی چلی کہ وہ ڈھیر ہوکر رہ گئی۔ ہر طرف اس کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ کھوکھلے درختوں کی طرح اس آندھی نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اس کا کوئی فرد بچ نہ پایا۔ قوم لوط کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پوری بستی تہ و بالا کرکے رکھ دی گئی اور اس پر مسلسل پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ قوم عبرت کا ذریعہ بن کر رہ گئی۔ قوم ثمود ایک بھیانک آواز سے ختم ہوگئی۔ہوسکتا ہے کہ اس سے ایسی بھیانک آواز نکلی ہو کہ کلیجے شق ہوگئے ہوں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ زمین میں بھونچال آیا ہو اور آسمان سے کسی خوفناک آواز یا بجلی کی زبردست کڑک نے اسے موت کی آغوش میں پہنچادیا ہو۔ اللہ ہی بہترین جانتاہے کہ وہ کیسی آواز تھی جس نے ہمیشہ کیلئے اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور اس کا کوئی ایک فرد بھی اپنا حال بتانے کیلئے باقی نہ رہا۔ حضرت نوح علیہ السلام نو سوپچاس برس تک اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر قوم نے انکی دعوت پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ انکار پر ہی مصر رہی۔ آخر کار نوح علیہ السلام نے اس قوم سے برات کا اظہار کیا اور اس کی تباہی کی دعا کی اور وہ سیلاب کے طوفان کی نذر ہوکر رہ گئی۔ اللہ تعالی نے اس کی تصویرسورہ انبیاء اور سورہ نوح میں اس طرح کی ہے۔ (ابراہیم اور لوط سے قبل نوح نے پکارا تھا ہم نے اس کی پکار سنی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑے کرب سے نجات دی اور ہم نے اس قوم کے مقابلے میں اس کی حفاظت کی جس نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی۔ بے شک وہ برے لوگ تھے۔ ہم نے سب کو غرق کر دیا۔) تباہی و بربادی کے اسباب و علل۔ استکباراور غرور تباہی و بربادی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خودسری کی روش اختیار کی اور اپنے مقابلے مین دوسروں کو ہیچ اور کمتر سمجھا۔ خیر خواہوں کی خیر خواہی اور نصیحت کو ٹھکرا دیا۔ جب قوموں میں یہ مرض پیدا ہوتاہے کہ وہ اپنے کو بلند و بالا اور عقل کل سمجھنے لگے اور دوسرون کو بیوقوف، ناداں اور کم عقل سمجھتے رہیں یا پھر اپنے علم و فن پر یہ گھمنڈ و غرور میں مبتلا ہونے لگتے ہیں یا اپنی سیاسی و معاشی اور تمدنی ترقی پر اترانے لگتی ہے تو وہ گویا اپنی تباہی کا خود ہی اپنا سامان پیدا کرتی ہے۔ اس کی متعدد مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں جیسے قوم عاد و ثمود کی تباہی کا ذکر اس طرح فرمایا کہ وہ اپنی فنی مہارت اور اپنی قوت بازو پر نازاں تھی۔ اپنے زمانے کی ترقی کے بام عروج پر اسکا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہ کسی کو اپنا حریف نہیں سمجھتی تھی۔ وہ اس میں اپنی توہین تصور کرتی تھی کہ حضرت ہود ؑکی ہدایت اور نصیحت کو مان کر اپنی روش بدل دے اور اللہ واحد کی عبادت اور بندگی کی راہ اختیار کرلے۔ حضرت صالحؑ نے قوم ثمود کے سامنے اللہ کا دین اس طرح پیش کیا کہ اس کا حق ہونا ثابت ہوگیا اور انکی غلط روی کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں رہ گئی۔ اس نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہدایت کی جگہ ضلالت کو ترجیح دی اور روشنی کی جگہ ظلمت کو اختیار کیا۔ بالآخر اس کے فطری نتیجہ سے دوچار ہورکر رہی۔ حضرت موسیٰؑ نے فرعون، ہامان اور قارون کے سامنے بھی وہی دعوت پیش کی مگر وہ نہ مانے بلکہ اسے ٹھکرا دیا۔ ایک وقت آیا کہ حضرت موسیٰؑ کو مصر چھوڑنا پڑا اس کے بعد اور اس کی قوم اپنے تمام وسائل و ذرائع اور شان و شوکت کے باوجود اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکی۔ قوموں کے بگارڑ اور ان کی تباہی و بربادی کا ایک سبب فساد فی الارض رہا ہے جب کسی فرد یا قوم میں فساد آتا ہے تو اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا وجود نقصان دہ ثابت ہونے لگتا ہے جو قومیں تباہ ہوئی ہیں قرآن نے ان کا ایک جرم یہ بیان کیا ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلارہی تھی۔ ان کے ذریعہ دنیا کو فائدے اور نفع کی جگہ ضرر اور نقصان پہنچ رہا تھا۔ انہوں نے قتل و خون ریزی نسل کشی کھیتوں اور باغوں کی تباہی، معاشیات کی بربادی، تعلقات کی خرابی، حقوق کی پامالی ، کاروبار میں جھوٹ، دھوکہ، فریب جیسی روش اختیار کررکھی تھی۔ کئی جگہوں پر قرآن نے ناپ تول کی کمی کے باعث قوموں کو غرق کر دیا۔ ناپ تول سے مراد صرف ترازو کا پیمانہ ہی نہیں بلکہ یہ اپنے وسیع ترمعنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لین دین، باہمی تعلقات، خریدو فروخت، ذاتی اور گروہی مفادات کی ترجیح یہ سب اسی قبیل کی چیزیں ہیں۔ اس کی مثالیں شام اور افغانستان میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ حالات حاضرہ اور ہم آج جب کہ ہم اکیسویں صدی کے ابتدائی حصہ میں سانس لیے رہے ہیں جہاں ستاوروں پر کمندیں ڈالنے اور چاند پر قدم جمانے کے باوجود انسان ایک عذاب میں مبتلا نظر آتا ہے، ایک مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتا تو دوسرے پائوں کے زنجیر بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان انسانیت سے بہت دور نکل چکا ہے۔ اس نے نیکی کو چھوڑ کر بدی کا راستہ اختیار کیا ہے ’امانت و دیانت کو چھوڑکر خیانت و بددیانتی کو اپنا کاروبار بنایا ہے۔ سچائی اور حقیقت کو چھوڑ کر منافقانہ طرزعمل اپنا رکھا ہے، اللہ اور اس کے رسولوں کے تعلیمات کو اپنانے کے بجائے بغاوت و سرکشی کی راہ اختیار کی ہے۔ اتحادو اتفاق، وحدت و یگانگنت کو چھوڑکر عصبیتوں اور فرقہ واریت کے علاوہ مسلکی اور گروہی راہ کو نہ صرف اختیارکیاہے بلکہ اس کو ہوا دینے میں اپنی عافیت سمجھتاہ ے۔ ازدواجی تعلقات کو چھوڑ کر بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کے اصول کو اپنایا۔ اپنے حقیر مفادات کے حصول کیلئے دوسروں کو نیچے دیکھانا،اپنی ذات اورمادی حصول کیلئے اپنی اقوام اور افراد کی خواہشات کے علی الرغم سودا کرنا یہ سب ہمارا شعار بناہ وا ہے۔ اوریہ سب نہ صرف غیر مسلم معاشروں میں نظر آتا ہے بلکہ مسلم معاشرے ان برائیوں میں آگے ہیں، اللہ کے فضل و کرم سے ہم سب مسلمان ہیں، مسلم معاشرے میں رہتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں، نوافل کا بھی اہتمام کرتے ہیں، وہ تمام رسوم انجام دیتے ہیں جو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم پر فرض ہیں مگر بحیثیت قوم و ملت ہم گزشتہ چند دہائیوں سے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم سے ایسی انسانیت سوز حرکتیں سرزد ہوئی ہیں اور مسلسل ہورہیں جس کی بنا پر ہم بحیثیت قوم قتل و غارت، زلزلے، مہنگائی اور بے برکتی اور مختلف قسم کی بیماریوں جیسے عذابوں کا مسلسل شکار ہیں اور دوسری جانب بحیثیت ملت ہم اخوت، یکجہتی، وحدت فکر و نظر سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اگر صرف چند سال مڑ کردیکھاجائے تو مسلسل بم دھماکوں ، ایک دوسرے کے خلاف بذریعہ بندوق ہم نے ہزاروں افراد کی جان لی اور بے گناہ لوگوں کو مارا ۔معصوم عورتوں کا ریپ ہی نہیں بلکہ گھروں سے اٹھاکرانہیں موت کی ابدی نید سلانے میں درندوں سے بھی بڑھکر اپنا کردار ادا کیا۔ مسلمان ہوتے ہوئے معصوم اور عفت باز خواتین کو بے عزت کیا۔ اس طرح اب ہماری سوسائٹی میں کوئی محفوظ نہیں۔ قاتل کو نہیں معلوم کہ وہ کیوں قتل کرررہا ہے اور مقتول کو نہیں معلوم کہ اسے کیوں قتل کیا جارہا ہے۔ان حرکتوں کو آپ جو بھی نام دے سکتے ہیں دے دیں مگر میں یہی کہوں گا کہ یہ عذاب الہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ جن کو ہم محسوس تو کرتے ہیں مگر ان کے خلاف بات کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اسی طرح کے حالات کو قرب قیامت کی نشانی بتایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے دنیا کے خاتمے سے پہلے ایسا دور آئے گا جس میں نہ قاتل کو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے کیوں قتل کیا ’ نہ مقتول کو معلوم ہوگا کہ وہ کس جرم میں قتل کیا گیا۔،، گذشتہ چند دہائیوں سے ہم مشاہدہ کرتے آرہے ہیں کہ کس طرح بڑی قوتوں نے نہتے اور بے گناہ ملکوں کے باشندوں کو نام نہاد سیکورٹی کی بنا پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جن میں سیریا‘ عراق‘ افغانستان ‘ یمن سرفہرست ہیں۔ ان ممالک میں کارپٹ بموں کے ذریعہ وحشت ناک مطالم ڈھائے گئے ۔برما ‘ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو مظالم روا رکھے گئے ان کی مثال تاریخ میں ملنا بہت ہی مشکل ہیں۔ مشاہدے آیا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مختلف گروپ اورپارٹیاں کم عمر اور ناداں بچوں کو ورغلاکر اور انہیں خودکش جیکٹس پہناکر دوسروں پر حملہ کرکے انہیں موت کی نیند سلادیتے ہیں یا پھر دوسروں کے عبادت گاہوں پر خودکش حملے کرکے سیکڑوں کی تعدا د میں بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں۔یہ ایسے جرائم ہیں جوفساد فی الارض کےزمرے میں شمار کئے جاسکتے ہیں۔ معاشی حالت کو دیکھیں کہ ناپ تول کی بیماری آج ماضی کے مقابل میں عروج پر ہے۔ آج ہماری آمدنی پہلے کے مقابلے میں چوگنی ہے مگر یہی رونا رویا جارہاہے کہ آمدنی بہت ہی کم ہے۔ اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ پریشانیاں ہیں، قرض خواہ ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے حلال طریقوں کو چھوڑکر حرام ذرائع اختیارکیے ہیں۔ ہم اس کے حصول میں وہ تمام ناجائز راستے اختیار کرجاتے ہیں جن سے ہمیں منع کیا گیا تھا۔ رسول ﷺ نے کہا ہے کہ ’’ ایک زمانہ آئے گا جس میں آدمی کو یہ پروا نہیں ہوگی کہ جو کچھ وہ مال میں سے لے رہا ہے یہ حلال ہے یا حرام ۔،، ہم قناعت اور معتدل زندگی گزارنا اب اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک تعمیر میں مسابقت، سنگلاخ اور سیسہ سے بنی ہوئیں عمارتوں کی تعمیر اب بڑائی اور بڑے ہونے کی ایک دلیل سمجھی جاتی ہے۔ شریف لوگو ں کے بجائے شریروں کی تعظیم کی جاتی ہے صرف اس لیے کہ کہیں قتل نہ کردے یا اس کی ذلت سے بچنے کے لیے انہیں دور سے ہی سلیوٹ مارتے ہیں۔مسلم معاشرے میں آج جس طرح بے راہ روی ، عریانیت اور فحاشی عام ہے اور ہورہی ہے خاص کر نوجوان نسل جس فکری گمراہی کے ساتھ ساتھ جس فحاشی کے شکار ہے وہ بھی قرب قیامت کی نشانیوں کا ہی نظارہ پیش کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آج کی بدامنی کے پیچھے خود حکومت وقت کی غیر انسانی اورنابرابری کی پالیساں ہیں، عوام قانون و انصاف کی مشنریوں سے مطمئن نہیں۔ ان کی اکثریت ظلم سہنے اور انصاف نہ ملنے کی وجہ سے عدم سکون کا شکار ہے یا پھرچند سرپھیرے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرتی سکون کو غارت کررہے ہیں۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ نام نہاد،موہوم اور حقیقی دہشت گردتنظیموں سے دنیائے انسانیت پریشان ہے۔ طاقت ور حکومتیں اپنی طاقت کے نشہ مین امن و انصاف کے نام پر دوسرے کم زور ملکوں پر حملہ کرکے بدامنی پھیلانیکی بدترین مجرم بن گئی ہیں۔ یہ سب اللہ تعالی کی تعلیمات سے روگردانی ہی کا نتیجہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’جب مال غنیمت (یعنی سرکاری خزانہ) کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور زکواۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے ،دین مخالف کاموں کے لیے عمل حاصل کیا جائے۔ مسجدوں میں (فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑوں کی) آوازیں بلند ہونے لگیں، قبیلے کا بدکار ان کا سردار بن بیٹھے اور ذلیل ترین آدمی قوم کا قائد (یعنی حکمران)بن جائے، آدمی کی عزت محض اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے، گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہوجائے(کھلے عام اور کثرت سے )مختلف قسم کی شرابیں پی جانے لگیں اور لوگ اپنے اسلاف کو لعن و طعن سے یاد کریں، اس وقت سرخ آندھی، زلزلہ، زمین میں د ھنس جانے، شکلیں بگڑجانے ، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے ایسے لگاتارعذابوں کا انتظار کرو جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے،،(ترمذی) اس حدیث کی روشنی میں اگر ہم اپنا جائزہ لیں گے تو وہ کونسی برائی اب باقی رہ گئی جو اب ہمارے اندر موجود نہیں۔ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ قوموں کی ہلاکت و بربادی کے باب میں اللہ تعالی کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ کسی گائوں ، کسی شہر یا ملک کو ان کے کسی ظلم کی پاداش میں ہلاک کردے جب کہ اس کے باشندے بحیثیت مجموعی اصلاح کرنے والے ہوں۔ مگر خدا کا عذاب کسی قوم پر اس وقت آتاہے جب قوم کا مزاج بحیثیت مجموعی بگڑ جاتاہے یا اجتماعی گناہوں اور سرکشی کا شکار ہوجاتی ہیں، یا ان میں اکثریت برائی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اصلاح کرنے والے یا تو اس میں باقی رہ ہی نہیں جاتے یا رہتے ہیں تو خال خال نہایت قلیل تعداد میں۔ غرض انفرادی خرابیاں عذاب الہٰی کا باعث نہیں ہوتیں۔ عذاب الہی اسی وقت نازل ہوتاہے جب مجموعہ کا مزاج فاسد ہوجاتاہے۔ آج یہ عذاب بدعنوانی ، ظلم و تشدد ، کرپشن، نفس پرستی اور اقتدار ہوس کی شکل اختیارکرکے انسانی سکون کو دیمک کی طرح چاـ ٹتی نظر آتی ہے ، تشویشناک حدتک منشیات کا استعمال جس کے نتیجہ میں ڈکیتی، اغوا ، چوری، قتل و غارت اب زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ سیاسی لیڈر یہ کہہ کر اسے پہلو تہیہ کرلیتے ہیں کہ یہ ہمارے اوپر مسلط کی جاری ہے ممکن ہے کہ ان کی دلیل میں کوئی وزن ہو مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری اپنی کمائی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کے ارشادت مبارکہ کی روشنی میں اگر اس کا جائرہ لیا جائے تو اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہ تمام مصائیب ہماری بد اعمالیوں کا ہی نتیجہ ہی ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’ جب کسی قوم میں فحاشی عام ہوجائے تو ان میں طاعون اور وہ بیماریاں عام ہوجاتی ہیں جو پہلے کبھی ظاہرنہ ہوئی تھیں، جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں تو ان پر قحط اور اس طرح کے دیگر عذاب نازل ہوتے ہیں اور ان کے حکمراں ان پر ظلم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑدیتے ہیں تو اللہ تعالی ان سے بارش روک لیتا ہے کہ اگر زمین پر چوپائے نہ ہوں تو اللہ تعالی آسمان سے ان پر ایک قطرہ بھی پانی نہ گرائے۔ جب لوگ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی بھی ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیتا ہے جو ان کا مال ان سے چھین لیتے ہیں، جب مسلمان حکمران اللہ تعالی کے قانون کو چھوڑ کرکوئی دوسرا قانون اپنالیں اور احکام خداوندی میں سے کچھ اختیار کرلیں اور کچھ کو چھوڑدیں تو اللہ تعالی ان پر مشکلات ، مصائب و آزمائیش مسلط کردیتاہے۔ اگر ذرا اس حدیث رسول ﷺ پر غور کیا جائے تو کیا یہ نشانیاں ہمارے اندر موجود نہیں ہیں اور یہ ہم پر صادق نہیں آتی ہیں۔ ان میں سے کونسی چیز ایسی ہے جو ہم اپنے اندر نہیں پاتے ۔ہمارے ہاں رائج بدعنوانیوں کی وجہ سے ہم نے خود ہی اپنی پہچان کو بگاڑ دیا ہے۔ غریب اپنے بچوں کو فروخت کرنے اور بیٹیاں عزت بیچنے پر مجبور جبکہ ہمارے لیڈر عیاشیوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ غریب عوام بغیر علاج اورادویات کے مرجاتی ہیں اور ہمارے لیڈرہزاروں ڈالرہمارے ہی نام پر بیرون ملک سیرسپاٹے پر خرچ کرتے ہیں۔ غریب آدمی چند روپیوں کی چوری کرے تو اس کے لیے جیل ہی نہیں بلکہ اپنا دفاع کرنے سے پہلے ہی قتل کیا جاتاہے جب کہ حکمران اربوں روپے لوٹ کر بھی مزید کا نعرہ لگاتےنہیں تھکتے ۔ہمارے ہاں اب شرافت اور ایمان داری ایک طعنہ بن چکی ہے اور بدمعاشی و رشوت خوری کو باعث اعزاز سمجھتا جاتاہے۔ ہمارے ہاں اب دین کی بات کرنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے جبکہ بے حیائی کی بات کرنے اور پھیلانے والوں کو داد دی جاتی ہے ۔ہمارے دفاتر میں دفتری طوالت ایک طرف جبکہ دوسری جانب بغیر رشوت کے کام نہیں چلتا۔ یہ چند مثالیں اس لیے درج کرنا ضروری ہے کہ ہم ذرا اپنے اندر جھانکیں کہ ہم کہاں ہیں اور اس عادت کو ترکیں کہ ان تمام چیزوں کے پیچھے یہود و نصاری کا ہاتھ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں ہمارے اپنے اعمال کا ہی نتیجہ ہے۔ قرآن پاک اس بات پر گواہ ہے کہ یہ جو خشکی اور تری میں فساد برپا ہے یہ انسان کا اپنا عمل ہے۔ ہمیں کیا کرنا ہے اب ہمیں اپنی غلطیوں کا ادارک ہوچکا ہے۔ ہم جانتے ہیںکہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں سرزہورہی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ خلوص دل کے ساتھ اپنا گریباں جھانکیں اور اسکے تدارک کی کوشش کریں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔اگر ہم نے بروقت ان چیزوں کا تدارک نہیں کیا پھر ہمیں بھی کسی سونامی ، کسی زلزلے کے جھٹکے یا پھر کسی کورونا وائرس یا ہوا کے جھونکے کے لیے اپنے کو تیار رکھنا ہوگا۔
تازہ ترین