• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں اس وقت سیاسی دنگل زوروں پر ہے تمام پہلوان لنگوٹیں باندھے، بدن پر تیل لگائے اکھاڑے میں کود رہے ہیں۔ دیکھیں کون کامیاب ہوتا ہے۔ اخبارات ، ٹی وی، رسالے سب ہی سیاست کے گھن چکر میں پھنس گئے ہیں۔ سیاسی پہلوان بلا شرم و حیااور خوف خدا جھوٹ بول رہے ہیں اور ایک دوسرے کو ہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں اگر انہی باتوں اور واقعات کے بارے میں لکھوں تو آپ کا اور اپنا وقت ضائع کروں گا۔ اس لئے میں آج آپ کی خدمت میں ایک نہایت ہی اہم اور حقائق سے پُر سوانح حیات پر تبصرہ کروں گا۔
یہ حقائق پر مبنی آپ بیتی میرے نہایت محترم وعزیر دوست اور ملک کے مایہ ناز قانون دان سینیٹر ایس ایم ظفر صاحب کی تحریر کردہ ہے۔ اس کتاب کا نام ”سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی اُن کی اپنی زبانی“ اس کو نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب طور پر ساگر پبلشرز، الحمد مارکیٹ، 40 اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔ ان کا فون نمبر 042-37230423 ہے۔ذرا سانس لیجئے کیونکہ یہ حکایت نامہ 855 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب آپ ضیاء القرآن پبلیکیشنزاردو بازار لاہور (042-37247350)سے حاصل کر سکتے ہیں۔
پہلے مختصراً ظفر صاحب کے بارے میں کچھ معلومات ۔ آپ 6 دسمبر 1930ء کو رنگون برما میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم سید محمد اشرف کشفی شاہ نظامی نہ صرف ایک عالم ِ دین تھے بلکہ ایک کامیاب بزنس مین بھی تھے اور کنسٹرکشن کے کام میں مصروف تھے۔ 1944ء کو جب جاپان نے برما پر بمباری شروع کردی تو پورا خاندان اپنے آبائی علاقہ شکرگڑھ (نزد نارووال) کے قریب منتقل ہوگئے۔ ظفر صاحب نے ابتدائی اسکول کی تعلیم رنگون میں حاصل کی، شکرگڑھ سے میٹرک کیا اور پھر لاہور منتقل ہوگئے جہاں سے گریجویشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کی اور پھر قانون کی ڈگری حاصل کرکے قانون دان بن گئے اور چند ہی برسوں میں ملک کے مایہ ناز ماہرین ِ قانون میں شمار ہونے لگے۔ 35 برس کی عمر میں آپ وفاقی وزیر ِقانون اور پارلیمانی امور بن گئے تھے۔ اس کے بعد ممبر پاکستان لاء کمیشن (1991-1994) ، ممبر پنجاب بار کونسل (1962-1965)، صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (1975) ،صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (1976) ، چےئرمین ہیومین رائٹس سوسائٹی آف پاکستان(1977 تا حال)، سربراہ پاکستانی وفد ہیومین رائٹس کمیشن جنیوا(1989) ، ڈپٹی لیڈر مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی، قومی اسمبلی (1965-1969) ، سیکرٹری جنرل آل پاکستان مسلم لیگ (1983-1985) ، چےئرمین کلچرل ایسوسی ایشن آف پاکستان گریجویٹس (1976-2012) ، چانسلر ہمدرد یونیورسٹی (2004-2012) ،صدر اولڈراوینزایسوسی ایشن آف پاکستان (2002) ، ممبر سینیٹ آف پاکستان (2003-2012) ، چےئرمیں فنکشنل کمیٹی ہیومین رائٹس، سینیٹ آف پاکستان اور ایجوکیشن کمیٹی (2012) ۔ اس کے علاوہ آپ کو ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشان ِ امتیاز بھی صدر ِ پاکستان نے عطا کیا ہے۔
اگرچہ ظفر صاحب کے بقول ان کی یہ کتاب ان نو سالوں کی سرگزشت ہے جس میں انہیں بطور سینیٹر آف پاکستان مارچ 2003ء سے مارچ2012ء تک اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے کا موقع ملا تھا لیکن اس میں انہوں نے وقتاًفوقتاً پچھلے واقعات پر روشنی ڈالی ہے جن کا سلسلہ موجودہ حالات سے مل جاتا ہے۔ ظفر صاحب نے نہایت سادہ اور شستہ زبان میں یہ کتاب تحریر کی ہے اور ثقیل الفاظ سے اجتناب کیا ہے۔ اتنے طویل عرصہ تک سیاست میں رہ کر ظفر صاحب نے تمام سیاسی شخصیات و حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور نہایت غیر جانبدارانہ تبصرہ کیا ہے۔ آپ کا تعلق ایوب خان سے لیکر موجودہ حکمرانوں تک رہا ہے۔ آپ کا مشرف کا حکومت پر غاصبانہ قبضہ ، میاں نواز شریف صاحب کی جلاوطنی، بینظیر کی اور زرداری کی خود جلا وطنی، دوبارہ آمد، الیکشن، بینظیر کی ہلاکت اور زرداری کی تخت طاؤس پر براجمانی۔ ظفر صاحب نے میاں نواز شریف، شہباز شریف سے چوہدری برادران سے مفاہمت کرانے کی کوششوں کا بھی تذکر ہ کیا ہے۔ اگر اس وقت ن اور ق لیگ میں سمجھوتہ ہو جاتا تو ملک پانچ سال کی اس لعنت سے محفوظ رہتا جس نے ہماری خود مختاری اور معیشت کو تباہ کرکے ایک بنانا ریپبلک بنادیا۔
ظفر صاحب نے اس طویل حکایت نامہ میں تقریباً تمام ہی سیاسی معاملات پر بہت ہی اچھی روشنی ڈالی ہے۔ اس میں خاص طور پر مشرف کا دور اور اس دور کی سازشیں، عدلیہ کا کردار اور مشرف کا عدلیہ پر ناپاک (اور ناکام) وار، شریف الدین پیرذادہ کی جادوگری (ایل ایف او) ، بینظیر کا قتل، مشرف کی شخصیت کا دوسرا پہلو یعنی دکھاوے کی بہادری کے دعوے کرنے والا حقیقتاً مشکل وقت میں بکری ثابت ہوا وغیرہ لیکن اس میں اہم بات میرے بارے میں ہے جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، ظفر صاحب پرانے عزیز دوست ہیں۔ 1983ء میں جب ہالینڈ میں میرے خلاف، میری غیر موجودگی اور مجھے اطلاع کئے بغیر جھوٹے مقدمے میں میری غیر حاضری میں مجھے چار سال کی سزا سنا دی گئی تھی اور میں نے اس غیر قانونی سزا کے خلاف فوراً اپیل دائر کردی تھی تو حکومت (وزیر قانون، اٹارنی جنرل، سیکرٹری قانون) کی (ذاتی) مخالفت کے باوجود میں نے ظفر صاحب کو اپنا وکیل مقرر کیا تھا اور دھمکی دے دی تھی کہ اگر ان کو مقرر نہ کیا گیا تو میں سب کام چھوڑ کر ہالینڈ چلا جاؤں گا اور کیس لڑوں گا تو پھر حکومت نے میرا مطالبہ مانا تھا اور ظفر صاحب اور دو ڈچ وکیلوں نے استغاثہ کے کیس کی دھجیاں اُڑا دی تھیں اور میں باعزّت بری ہوگیا تھا۔ اس وقت سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ انہی کے مشورے پر میں نے جنگ میں کالم نویسی شروع کی اور یہ بہت ہی مفید اور قیمتی مشورہ تھا۔ اس طرح میرا تعلق اندرون ِ ملک اور بیرون ِ ملک پاکستانیوں سے ہوگیا اور مجھے ان کے ردعمل سے علم ہوا کہ وہ میرے کالم کو بہت سراہتے ہیں۔
ظفر صاحب نے اپنی کتاب کے 24 ویں باب میں میری بھی بریفنگ کی تفصیل بیان کی ہے اور تقریباً تمام حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے اس سے آپ کو بخوبی علم ہو جائے گا کہ ایف اے کی تعلیم اور چند ستارے لگانے سے انسان عقل کُل نہیں ہو جاتا۔ مجھے خود 2003ء کے اواخر اور2004ء کے اوائل میں پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ وہ لوگ جو جونیئر افسران کی حیثیت سے میرے آگے ایڑیاں بجایا کرتے تھے اور دوڑ دوڑ کر گاڑی کے دروازے کھولتے اور بند کرتے تھے اور سر سر کہتے ان کا منہ خشک ہوجاتا تھا ان کے لہجے میں کتنی فرعونیت ، رعونیت اور تکبّر آگیا تھا۔ وہ آداب ِ گفتگو سے مبرّا ہوگئے تھے، اونچی آواز میں باتیں کرنے لگے تھے۔ جیسا کہ ظفر صاحب نے بیان کیا ہے کہ وعدہ اور کہنے کے باوجود کہ یہ ڈکٹیٹر اور اس کے حواری میری بے عزّتی نہیں کرنا چاہتے ان کی پہلے دن سے یہی کوشش تھی کہ مجھے بے عزّت کیا جائے، عوام میں مجھے رسوا کیا جائے، دفتر خارجہ کے ایک نااہل ترجمان اور فوج کے تعلقات ِ عامہ کے ایک جاہل افسر نے ہر پریس کانفرنس میں میرے خلاف (اور درحقیقت پاکستان کے خلاف) ہرزہ سرائی کی۔ اس کند ذہن اور خود غرض ڈکٹیٹر کو صرف اپنی حکومت طویل کرنے میں دلچسپی تھی۔ اس نے یا اس کے حواریوں نے کبھی یہ نہ سوچا کہ نہ ہی ہم نےNPT ایٹمی پھیلاؤ کے بین الاقوامی معاہدے پر اور نہ ہیNSG یعنی ایٹمی سامان مہیا کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ ہم پر اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق کسی سے بات کرنے یا تفصیل بتانے کی کوئی پابندی یا ذمہ داری نہ تھی۔اس نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مجھے نہیں پاکستان کو رسوا کیا۔ پچھلے 20 سال سے ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ہم بم نہیں بنا رہے ہیں اور دنیا الزامات لگا رہی تھی۔
اب بھی اگر یہ صرف یہ کہہ کر میرے آنے سے پیشتر جو کچھ ہوا مجھے اس کا علم نہیں اب میں نے سخت احتیاطی اقدامات کئے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں ہوگی۔ ظفر صاحب نے اپنی کتاب میں صفحہ 643 پر مشرف سے 8 ستمبر2007ء کی ملاقات کا ذکر کیاہے اس کو پڑھ کر آپ کو اس شخص کی کم ظرفی کا علم ہو جائے گا۔ جب ظفر صاحب وفاقی وزیر تھے یہ شخص گریڈ17 کا کیپٹن تھا اور ان کے جوتے صاف کرنے میں فخر محسوس کرتا اور اب یہ منہ میں سگار لگائے صوفہ پر بیٹھے پیر پھیلائے ان کو انگلی سے اشارہ کرکے بولا ”ایس ایم “ بیٹھو۔ اس کو اتنی تہذیب نہ تھی کہ اُٹھ کر اُن کو خوش آمدید کہتا۔ میں تو ان کے مقابلہ میں ایک حقیر سا انسان ہوں مگر آج تک کسی نے مجھ سے اے کیو کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔ ہمیشہ ڈاکٹر صاحب اور خان صاحب کہا۔ظفر صاحب اور چوہدری شجاعت حسین سمجھدار اور محب وطن ہیں۔ انہوں نے معاملات کو خوش اسلوبی سے ختم کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ ظفر صاحب نے صاف صاف کہا تھا کہ میں ہر گز کسی اقبالِ جرم کی دستاویز پر دستخط نہ کروں۔
میں نے حقائق تحریر کرکے ایک بیان ظفر صاحب کو دکھا دیا تھا، وہ اقبال ِ جرم نہ تھاحقائق کی تفصیل تھی اور دستخط کرکے دے دیا تھا۔ 3 فروری کی شام کو ظفر صاحب اور چوہدری شجاعت نے آکر مجھ سے ملنا تھا وہ نہ آئے بلکہ 4 فروری کی صبح چوہدری صاحب اکیلے ہی آئے۔ وہ بذریعہ کار علی الصبح ہی روانہ ہوکر میرے پاس پہنچ گئے اور بتایا کہ مجھے11 بجے مشرف سے ملنا ہے۔ میں اکیلا وہاں گیا، ڈائریکٹر سیکورٹی بریگیڈیئر شیعب ساتھ تھے۔ مشرف سے ملا تو دو چار منٹ کی گفتگو کے بعد اس نے کہا کہ میں قوم کا اور پاکستان کا ہیرو ہوں، اس وقت ملک کو بچانا ہے، میں چند دن میں آپ کو باعزّت مکمل طور پر بحال کردوں گا۔ باہر نکلا تو ٹی وی والوں کا مجمع تھا انہوں نے پوچھا تو میں نے مختصر جواب دے دیا کہ بات چیت اچھی رہی اور معاملہ حل ہوگیا ہے۔ دوسرے کمرے میں اٹارنی جنرل مخدوم علی خان لے گئے وہاں انہوں نے ایک بیان تیار کررکھا تھا اس میں تمام الزامات مجھ پر ڈالے گئے تھے وہ میرے اچھے اور نہایت اعلیٰ سمجھ کے دوست ہیں۔ میں نے بیان میں اضافہ کرایا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ نیک نیتی سے کیا تھا۔ میں نے ملک کو مشکلات سے بچانے اور کئی اداکاروں کی پردہ پوشی کی خاطر یہ نام نہاد اقبال جرم ٹی وی پر پڑھ دیا۔ اسی روز شام کو چوہدری شجاعت نے بزنس ریکارڈ کو اور بعد میںT.V پروگراموں میں کھل کر کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور یہ کہ میں نے دوبارہ پاکستان کو بچا لیا تھا۔ نہ ہی بیرون ِ ملک اور نہ ہی پاکستان میں کسی نے اس کو سچ مانا ۔ وعدہ خلافی کرکے مشرف نے مجھے نظر بند کردیا، ٹیلیفون لائنیں کاٹ دیں، بہن بھائیوں سے ملنے پر پابندی لگا دی، بچوں اور نواسیوں سے ملنے پر پابندی لگا دی، موبائل لے لئے اور جھوٹ بولتا رہا کہ میں آزاد شہری تھا اور ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت تھی۔ چند ہفتہ بعد ڈی جی ایس پی ڈی جنرل قدوائی اور ان کی بیگم نے ہم سے آکر ملاقات کی تھی اور یقین دہانی کرائی کہ چند ہفتوں میں تمام پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نیک نیتی پر مبنی بیان تھا مگر مشرف کے احکامات کے آگے وہ غالباً مجبور تھے۔ مشرف کو، اس کے حواریوں کو اور پوری قوم کو یہ جاننا چاہئے تھا کہ میں نے اس شکست خوردہ ملک کو دو ارب ڈالر کی اہم ترین ٹیکنالوجی مفت دی تھی، ایک روپیہ نہ لیا تھا۔ یہ میری ٹیکنالوجی تھی اگر میں کسی کو دیتا بھی تو یہ جرم نہ تھا۔ تاریخ بڑی منصف ہے اور اس نے میرے اور مشرف کے درمیان فیصلہ سنا دیا ہے۔ میرا ضمیر مطمئن ہے میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ مجھے آزاد عدلیہ نے ہی 5 سال بعد انصاف مہیا کیا۔ وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے ٹی وی پر انکشاف کیا ہے کہ مشرف نے ان سے کہا تھا کہ CIA کا جہاز اسلام آباد اےئرپورٹ پر کھڑا ہے وہ کیبنٹ سے منظوری لے کر دے دیں تاکہ مجھے امریکہ روانہ کردیا جائے، انہوں نے صاف انکار کردیا۔ وہ بہادر، غیور پاکستانی اور بلوچ ہیں مشرف کی طرح ضمیر فروش نہیں اس وجہ سے مشرف نے ان کی حکومت ختم کردی تھی۔ ظفر صاحب کی کتاب پڑھنے کے قابل ہے اور ایک خزینہ معلومات ہے۔
تازہ ترین