• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی مخدوش امن و امان کی صورتحال اور پریشان کن معاشی حالات کے پس منظر میں حکومت نے 11 مئی 2013ء کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس پر سب سے زیادہ خوش میاں نواز شریف نظر آ رہے ہیں، جبکہ ان کے قریبی حریف عمران خان بڑے مطمئن اور پیپلز پارٹی پُر جوش مگر ذرا ڈرے ڈرے انداز میں اس اعلان کا خیر مقدم کر رہی ہے، جن لوگوں کو تھیٹر شو دیکھنے کا شوق ہے، انہیں پتہ ہوتا ہے کہ سکرپٹ کے آغاز میں کیا ماحول ہوتا ہے اور آخر میں ہیرو کون اور ولن کون ان کے سامنے آتا ہے۔ پاکستان کا سیاسی ماحول بھی ایک ڈرامہ کی طرح ہے، جس میں تھیٹر کے شائقین (قوم) کو سامنے سے آوازیں آ رہی ہیں کہ چلو چلو تیاری کرو، الیکشن ہو رہے ہیں، جبکہ پردے کے پیچھے سے ذرا منفرد انداز میں محسوس کرایا جا رہا ہے کہ بھئی کون سے الیکشن! ذرا صبر کریں، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا مرحلہ تو آنے دیں، پھر دیکھیں سکرپٹ کا پارٹ II کیا سامنے آتا ہے، البتہ اس دفعہ ”ریفری“ کی خواہش ہے کہ جیسے تیسے الیکشن ہو جائیں، مگر یہ کیسے ہوں گے؟ یہ سب کے لئے سوالیہ نشان ہے، کئی حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت اور افغانستان میں 2014ء میں الیکشن ہو رہے ہیں تو پاکستان میں پہلے کیوں! کیا سب جگہ ایک ہی سال میں الیکشن کیوں نہیں ہو سکتے۔ یہی امریکہ بھی چاہتا ہے اور یہی خطہ کے بعض حالات کی وجہ سے بہتر ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے اندرونی حالات جیسے بھی ہوں، معاشی مسائل و مشکلات میں ہیں چاہے روز اضافہ ہو رہا ہو۔ ملک کے معاشی اور تجارتی حلقوں کی طرف سے اب الیکشن ہونے کی صورت میں توقع کی جا رہی ہے کہ شاید اب میاں نواز شریف کو باری ملنے والی ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف سفارتی حلقوں کی سرگرمیوں کا حوالہ دے رہے ہیں، اور میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف سے ان کے ہونے والی ملاقاتوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کارپوریٹ کمپنیوں کے ”گروز“ کے تھنک ٹینک ”پاکستان بزنس کونسل“نے بھی بالواسطہ طور پر اپنے ایک سروے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور کو اپنے اقتصادی ایجنڈے کے قریب قرار دے دیا ہے۔ اس طرح اِن ڈائریکٹ طریقے سے پاکستان بزنس کونسل نے میاں نواز شریف کے اقتصادی پلان کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے بہتر قرار دیا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کی پاکستان میں یہاں وہی حیثیت ہے، جو بھارت میں فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری(FICCI) کو اعلیٰ ترین بزنس ادارے کی حاصل ہے جس کے ممبرز بھارت کے امیر ترین کار وباری افراد ہیں۔ جبکہ پاکستان بزنس کونسل میں بھی سید بابر علی، میاں محمد منشاء، رزاق داؤد، حسین داؤد سے لے کر تمام معروف او ربڑی بزنس فیملیز کی شخصیات شامل ہیں۔ جسے پاکستان میں ایلیٹ کلاس کی بزنس کونسل قرار دیا جا سکتا ہے۔ کونسل کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا منشور 81 فیصد تک بزنس کونسل کے اقتصادی ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔ جبکہ عمران خان کی (PTI) پی ٹی آئی کے منشور 66 فیصد اور پیپلز پارٹی کا منشور 53 فیصد مطابقت رکھتا ہے۔ بزنس کونسل کی رائے میں مسلم لیگ (ن) نے ملک میں توانائی کے بحران کے لئے بہتر اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی الیکشن کا سیزن آتا ہے مختلف گروپس اور شخصیات اپنی اپنی رائے کا اظہار شروع کر دیتی ہیں اس وقت صنعتی و تجارتی حلقوں میں معاشی مسائل سے زیادہ آنے والے متوقع حکمرانوں کے حوالے باتیں ہو رہی ہیں۔ زیادہ لوگوں کی رائے ہے کہ الیکشن سے پہلے اور بعد میں میاں نواز شریف کا امتحان شروع ہونے والا ہے کہ وہ پاکستان اور امریکہ کے معاملات کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستانی عوام کے جذبات کو دیکھتے ہوئے وہ اقدامات کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہیں پھر تو ایران گیس منصوبے کو پاک سعودی تعلقات کے پس منظر میں کیسے آگے لے کر چلتے ہیں یہ تو رائے ہے ہمارے بزنس سیکٹر کی! جبکہ دوسری طرف یہ تاثر سامنے آ رہا ہے کہ آہستہ آہستہ ”صدر زرداری“ سمجھ داری اور ذہانت کے باوجود حالات کے گرداب میں ٹریپ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال کو وہ کیسے سنبھالتے ہیں، اس کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور اُن کے پاس ہو گا جس میں وہ صدر کے عہدہ پر ہی مزید پانچ سال برقرار رہیں، اور اُن کے مخالف کوئی پارٹی موجودہ اسمبلی کی سیٹوں کے تناسب سے کچھ زیادہ سیٹیں لے جائے، جس کے بعد کسی کے پاس بھی مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہیگا۔ جس کے بعد جمہوریت کو بچانے اور چلانے کا مرحلہ شروع ہو گا۔ اس وقت میاں نواز شریف ہوں یا عمران خان! ان کا اصل ٹیسٹ ہو گا کہ وہ کس حکمت سے معاملات سنبھالتے اور ملک کو معاشی اور سماجی مسائل کے بھنور سے کیسے نکالتے ہیں۔
تازہ ترین