• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹاپ کیوسی نے پرل مرڈر کیس میں عمر شیخ کو مفت خدمات پیش کر دیں

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) برطانیہ کے سب سے کم عمر کوئینز کونسلز (کیو سی) میں سے ایک نے برطانیہ میں پیدا ہونے والے عسکریت پسند احمد عمر شیخ اور تین دیگر کو اپنی خدمات مفت پیش کردیں۔ ملزمان پر 2002 میں وال سٹریٹ کے صحافی ڈینیل پرل کو مبینہ طور پر کراچی میں قتل کرنے کا الزام تھا۔ علی نواز باجوہ کیو سی، جنہوں نے 2011 میں اس وقت تک کے سب سے کم عمر کیو سی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا، ایک انٹرویو میں رپورٹر کو بتایا کہ برٹش پاکستانی عمر شیخ کیس کی ہینڈلنگ اور دیگر تین مردوں سے سلوک تشویش میں اضافہ کا باعث تھا۔ قتل کے دیگر ملزمان میں فہد نسیم احمد، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل شامل ہیں۔ علی باجوہ کیو سی نے کرکٹر سلمان بٹ پر 2010 میں سپاٹ فکسنگ کا چارج عائد کئے جانے کے بعد سائوتھ وارک کرائون کورٹ میں اس کی نمائندگی کی تھی۔ وہ 2015 میں بی بی سی نیوز نائٹ پروگرام میں ظاہر ہوئے اور پہلی بار انہوں نے یہ وضاحت کی کہ ایم کیو ایم رہنما الطاف حسین کی بعض تقاریر دہشتگردی اور نفرت پر مبنی تقاریر کے زمرے میں آتی ہیں۔ علی باجوہ نے برطانیہ میں بعض بڑے دہشتگردی اور قتل کے کیسز میں اپنے کلائنٹس کی نمائندگی کی۔ علی باجوہ نے جیو اور دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں بھی ناانصافی ہو وہاں انصاف کو خطرہ ہوتا ہے اور اس کیس میں بھی قانونی پراسس پر عمل کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ ایک برٹش پاکستانی کیو سی کی حیثیت سے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی بحالی کی قانونی جنگ میں شمولیت کا خواہش مند ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی مفت خدمات چاروں میں سے کسی شخص کے لئے پیش کر دی ہیں، جو قانونی جنگ میں میری معاونت حاصل کرنے کا خواہشمند ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی جسٹس سسٹم میں احمد عمر سعید شیخ کے کیس کی حالیہ ہینڈلنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت عمدہ اور بدترین ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اس بات کو پس پشت رکھتے ہوئے کہ اس کو فیصلہ کرنے میں 18 سال لگے، تاہم 2 اپریل 2020 کو سندھ ہائی کورٹ میں سنایا گیا فیصلہ قانونی آزادی اور اچھی سوجھ بوجھ کی مثال تھا۔ عدالت نے امریکی صحافی ڈینیل پرل کے 2002 میں ہونے والے بدنام قتل کیلئے شیخ اور اس کے تین ساتھی ملزمان کو اس بنیاد پر اپیل کی اجازت دی ہے کہ وہ اس کے اغوا میں فریق تھے مگر اس کے قتل میں ملوث ہونے کی شہادتیں ناکافی ہیں۔ شیخ کی سزائے موت کو ختم کر کے اغوا کے الزام میں سات سال قید کی سزا دی گئی ہے جو کہ وہ پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔ اس کی رہائی جلد متوقع ہے۔ پاکستانی عدالتیں یہ ظاہر کرچکی ہیں کہ انصاف خود بھی اندھا ہو سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ محض 24 گھنٹوں میں آنکھوں پر سے پٹی اتر گئی۔ علی باجوہ نے کہا کہ انہیں اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ صوبائی حکومت بیرونی ایجنسیوں کے دبائو پر پبلک سیفٹی کے نام پر شیخ اور اس کے تین ساتھیوں کو کم ازکم 90 روز کیلئے حراست میں رکھنے کے احکامات جاری کرے گی۔یقیناً ریاست سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرسکتی ہے اور وہ کریگی۔ لامحالہ اس پراسس میں تاخیر ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیس چاروں کی قسمت سے بھی بڑھ کر اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کا قانونی سسٹم منظم طور پرناکام ہے، جسے بین الاقوامی وکلا اور انسانی حقوق گروپوں کو چیلنج کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ شیخ ایسٹ لندن میں کپڑے کے ایک ہولسیل تاجر کا بیٹا ہے، جس نے گورنمنٹ سکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کیلئے لندن سکول آف اکنامکس (ایل ایس ای) چلا گیا۔
تازہ ترین