• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹھارہویں صدی میں غالب ؔنے کہا تھا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا

اردو ادب پڑھنے، سمجھنے اور سمجھانے والے اس شعر کی تفہیم کرتے ہوئے غالب کی حسِ مزاح کو اس کے محبوب کی شوخی ادا سے جوڑ کر تحسین محسوس کرتے ہیں۔ محبوب اتنا خوبصورت ہے کہ اس کے شیریں ہونٹوں سے ادا ہونے والا کوئی بھی تلخ جملہ سننے والے پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لئے کہ سننے والا لفظوں کے بجائے کہنے والے کے سراپے کو نظر میں رکھتا ہے۔ بڑے شاعر کا فلسفہ کسی خاص وقت یا زمانے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ہر عہد اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اکثر قاری اور نقاد وسعت کی حامل شاعری کو اپنی محدود سوچ کے تنگ دائرے میں پرکھ کرمحدود رائے کو حرف آخر سمجھ لیتے ہیں مگر وقت کی تیز آندھی نہ صرف اس رائے کو اڑا لے جاتی ہے بلکہ جاتے جاتے نئے سوالوں کے بیج بھی لفظوں کی ہتھیلی پر رکھ جاتی ہے۔ صاحب ِفکر ان سے استفادہ کر کے فکر کا نیا در وا کرتے ہیں۔ جس طرح آج کے دور میں اس شعر کو پڑھیں تو اس کا مفہوم، محبوب سے محبوب سیاسی شخصیت اور اس کے چاہنے والوں کی جانب سرکتا دکھائی دیتا ہے۔ جو ہر وقت تذلیل وتحسین کے نئے لفظ اور ذائقے ایجاد کرنے میں محو ہیں۔ ان تن،من،دھن سے برسرپیکار مجاہدوں کا رتبہ بہت بلند ہے۔ ان پر کسی گرم سرد موسم کا اثر نہیں ہوتا۔ بھلے کی بات کو وہ نفرت سے یوں پاؤں تلے کچلتے ہیں جیسے یہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہو۔ گویا تمام ترقی کا راز اور فتح کا دارومدار بیان کی تلخی پر قائم رہنے میں رکھا گیا ہے اور اس کی پیروی کو ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن دوسری سمت والے بھی کافی سخت جان واقع ہوئے ہیں۔ جو جدید رکاوٹوں کے باعث اپنی مخصوص رفتار سے بھی زیادہ تحرک دکھا رہے ہیں۔ وہ تمام اَن کہی داستانیں لکھ رہےہیں جو زمانے کے خوف سے تہہ خانوں میں دبکی ہوئی تھیں۔ گہرے رازوں سے پردہ ہٹا کر تاریخ کا وہ چہرہ دکھا رہے ہیں جس سے نصاب مرتب کرنے والے بھی ناواقف رہے ہیں۔ ان کی آج کی تحقیق یقیناً مسافران حیات کو اصل منزل اورمقصد سے روشناس کرکے انفرادی و قومی بہتری کا وسیلہ بنے گی۔ بہرحال سلام ہے ان لوگوں کو جنہوں نے چہار طرف پھیلی جان لیوا سرگوشیوں سے خوفزدہ ہوکر لکھنا ترک کیا نہ بولنا۔ اور اپنی استقامت سے ثابت کیا کہ جو لوگ یقین کے رستے پر چلتے ہیں، انہیں نہ حرفِ شیریں سے اپنا بنایا جاسکتا ہے نہ دشنام طرازی سے بھٹکایا۔ وہ برے القابات سے بھی محظوظ ہونا شروع ہوگئے ہیں جس طرح کبھی غالب ہوتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ فہم و فراست اور تفہیم کی نچلی سطح پر براجمان ہیں وہ کبھی بھی بلند پرواز تخیل کے ہم نوا نہیں ہو سکتے۔ فکر کی آٹھویں منزل پر بیٹھا ہوا فرد، حیوانی سطح پر براجمان وجود کے ایما پر اپنا راستہ کیسے بدل سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے سامنے زیادہ واضح شکل میں موجود ہو، سو جو اسے نظر آتا ہے وہ تو وہی بیان کرے گا۔ باقی لوگ اس کو کیسے سمجھتے ہیں یہ ان لوگوں پر منحصر ہے۔ آج کل اندر باہر ایک ہو کا عالم ہے۔ فطرت نے پوری دنیا کو گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے۔ کبھی کسی سیاسی شخصیت کے بارے میں سنا جاتا کہ اسے گھر میں نظربند کردیا گیا ہے تو ہنسی آتی تھی کہ یہ بھی کوئی سزا ہے۔ اب سمجھ آیا کہ نظربند ہونا ایسی بڑی سزا ہے جس میں ذات کے اردگرد ہرلمحہ خوف کا کڑا پہرہ لگا رہتا ہے۔ بےیقینی کے سائے شب وروز ہیولوں کی طرح منڈلاتے اورڈراتے رہتے ہیں۔

ارسطو کے ذہن نے سماجی حیوان کے جس نظریہ تک قبل مسیح میں رسائی حاصل کر لی تھی۔ وہ خلقت پر اب کھلا ہے کہ گھر میں ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہونے والے بھی کس بےبسی کا شکار ہیں۔ محصوری اور نظربندی کی فضا، انسان کے مزاج اور فکر پر مایوسی کا تاثر ضرور چھوڑ کر جاتی ہے۔ اس وقت انسانوں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا تو اس وبا سے بچاؤ میں اپنے فرائض بھرپور طریقے سے نبھا رہا ہے لیکن سوشل میڈیا کا رنگ ڈھنگ بالکل ویسا ہی نرالا اور تلقین والا ہے۔ یہاں مامور لوگوں کو کوئی اندیشہ نہ خطرہ اس لئے انھوں نے حقیقی دنیا کی طرح اپنی سرگرمیوں میں کوئی وقفہ نہیں آنے دیا۔ دوسروں کو مصیبت میں گرفتار دیکھ کر بھی سخت دل لوگ رواداری پر آمادہ نہیں۔ چلو عام لوگ تو جو کہیں سو کہیں لیکن کچھ اعلیٰ ڈگریوں کے لیبل لگا کر گھومنے والوں کے تبصرے پڑھ کر دل خوف اور حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ مداوا کی کیا صورت ہوگی۔ انسانی قدروں کا پرچار کیسے ممکن ہوگا۔ تعلیم کے علاوہ اور کون سا طریقہ ہے انسان کی خونخوار جبلت کو اخلاقی پیرہن میں قید کرنے کا۔تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور سماجی تنظیموں نے اس آزمائش کے دور میں بھرپور کردار ادا کیا ہے اور ان سب میں الخدمت اور جماعت اسلامی سرفہرست ہے۔

تازہ ترین