• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنگالی ادب میں اُن ادیبوں کی طویل فہرست ہے، جنہوں نے سماجی دکھ درد کی عکاسی کرنے والا حقیقی ادب لکھا۔ چند مستند ادیبوں میں سے ایک ’’مانک بندو پدھیائے‘‘ ہیں، جنہوں نے بنگالی ادب بالخصوص ناول نگاری میں میدان مارا۔ ان کے لکھے ہوئے ناول’’بوٹ مین آف پدما‘‘ یعنی پدما کا ایک رہائشی ماہی گیر، ان کے ناول کا مرکزی کردار تھا، جس کو لکھتے ہوئے نہ صرف غریب ماہی گیروں کی دادرسی کی، بلکہ پاکستان کے معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض نے اس کو فلم کی صورت میں ڈھالا اور یہ کہانی برصغیر پاک و ہند کے ناظرین اور قارئین کے لیے امر ہوگئی۔

’’مانک بندو پدھیائے‘‘ 1908 میں پیدا ہوئے اور 1956 کو وفات پائی۔ زندگی نے مہلت کم دی، لیکن پھر بھی اتنا کام کیا کہ ان کا شمار اب بنگالی ادب کے تناظر میں اکیسویں صدی کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اپنی مختصر زندگی میں کئی جان لیوا مصائب کا شکار رہے، غربت بھی بار بار سفید پوشی کے آڑے آتی رہی، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری ، جو کچھ محسوس کرتے رہے، اس کو قلم بند کرتے رہے۔ مزاج کے اعتبار سے انتہائی حساس تھے، اس لیے اپنی کہانیوں کو سماج کے منظرنامے سے جوڑ کر لکھا، ان کی کہانیوں میں فکشن کم اور حقیقت نگاری زیادہ تھی۔ 

فکری طور پر ترقی پسند تھے، اس لیے ایک عام انسان کی کہانیوں کو بھرپور طور سے پیش کیا کرتے اور اسی لیے ادبی تاریخ میں سرخرو بھی ہوئے۔ انہوں نے مختصر سی زندگانی میں 40 ناول لکھے، 20 سے زیادہ افسانوی مجموعے اور چند شعری کلام کے انتخاب ان کی کتابوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ان کے متعدد ناولوں پر فلمیں بنیں، لیکن’’بوٹ مین آف پدما‘‘ کو فیض صاحب کی نظرِ ستائش نے جب’’جاگو ہوا سویرا‘‘ میں بدلا تو گویایہ کہانی تاریخ کے دامن میں پوری طرح محفوظ ہوگئی۔

اس ناول اور فلم کی مرکزی کہانی میں مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) میں مچھیروں کی بستی دکھائی گئی، جہاں ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنی کشتی کا مالک بننا تھا، اس مقصد کے حصول کے لیے ماہی گیر دن رات مشقت کرتے، بستی میں ایک بااثر اور سود خور شخص کے ہاں اپنی محنت کا پیسہ جمع کرواتے، مگر وہ مالی اور اخلاقی طور پر ان کا استحصال کرتا تھا۔ اس کرب اور مشقت کے مابین، کس طرح ماہی گیر اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے تگ ودو کرتے، یہ فلم اس کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی میں کوئی جھول نہیں، سیدھے سادھے انداز میں ایک مچھیرے اور اس سے جڑے رشتے ناطے، احساسات اور رویوں کو ایک لڑی میں پروکر دکھایا گیا ہے۔ یہ کہانی ماہی گیروں کی غربت کا احوال دیتی ہے اور ان کی بھوک، بے سروسامانی اور خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کی چشم کشا داستان ہے۔

29 مئی 1959کو ریلیز ہونے والی فلم’’جاگو ہوا سویرا‘‘ واحد اردوفیچر فلم ہے، جس کو 50کی دہائی میں مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان کے اشتراک سے بنایا گیا تھا۔ اس کے فلم ساز’’ نعمان تاثیر‘‘ کا تعلق کراچی سے تھا، جبکہ کہانی نویس اور ہدایت کار’’اے جے کاردار‘‘ لاہور کے رہنے والے تھے۔ فلم کو سینما پر پیش کرنے کے لیے کہانی کی تراش خراش کرنے میں فیض صاحب نے خصوصی دلچسپی لی، انہوں نے اس کے مکالمات لکھتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا، اردو اور بنگلہ زبانوں کے ایسے الفاظ شامل کیے جائیں، جن کے معانی ایک ہی ہوں یا قریب ترین ہوں، البتہ فلم کا اسکرین پلے، اسی فلم کے ہدایت کار اے جے کاردار نے لکھا تھا۔

یہ فلم پاکستان کے آرٹ سینما کی متاثرکن فلم ثابت ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں فلم کی تمام عکس بندی ہوئی۔ ڈھاکا سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گائوں’’ستنوئی‘‘ میں دریائے میگھنا کے کنارے اس فلم کو عکس بند کیا گیا۔ فلم کا زیادہ تر تکنیکی سامان بھی بحری راستے سے وہاں پہنچایا گیا۔ یہ ڈھاکا میں بننے والی پہلی پاکستانی اردو فلم تھی، جس میں مرکزی کردار بھی بنگالی اور بھارتی فنکاروں نے نبھائے۔

اس فلم کی موسیقی اور دیگر تکنیکی شعبوں میں بھی بنگالی ہنر مندوں کی اکثریت شامل تھی، جبکہ کئی تکنیکی فنکاروں کا تعلق مغرب کی فلمی صنعت سے بھی تھا، جن میں سرفہرست معروف جرمن نژاد برطانوی سینماٹوگرافر ’’والٹر لیزلی‘‘ تھے،جن کو آگے چل کر آسکرایوارڈ بھی ملا۔ یہ فلم اٹلی سے شروع ہونے والی فلمی تحریک’’ نیو رئیل ازم‘‘ اور ہندوستان میں نووارد پیررل سینما کی لہر سے متاثر تھی اور ناول کی کہانی برصغیر کے ادب میں ترقی پسند تحریک کی غمازی کرتی تھی۔ 

تازہ ترین