گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا معاشرہ تھا۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا تھا۔ اپنی آنکھوں کے نور اور دل و جگر کی راحت بیٹیوں تک کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ عرب کے اس معاشرے میں اللہ نے حضرت محمدﷺ کو مبعوث کیا۔ آپؐ نے خون کے پیاسے لوگوں کو باہم شیر و شکر کر دیا۔
اللہ کی بندگی کی دعوت پیش کرنے کی پاداش میں آپ کو مکہ کے قریب ایک پہاڑ کی گھاٹی شعبِ ابی طالب میں تین سال تک محصور رہنا پڑا۔ جہاں ایسے دن بھی آئے کہ بھوک مٹانے کے لئے درختوں کے پتے اور جڑیں تک چبانا پڑیں۔ پیٹ چپک گیا تھا اور اس پر کھجور کے پتے اور چمڑا باندھنا پڑتا تھا۔ گندی اوجھڑی آپ پر ڈالی گئی۔ آپ کے ساتھیوں کو دہکتے کوئلوں تک پر لٹایا گیا جس سے بعض کے جسموں پر نالیاں بن گئی تھیں۔
آپؐ کی راحتِ جان صاحبزادی سیدہ زینبؓ اونٹ پر سوار مکہ سے مدینہ ہجرت کر رہی تھیں، راستے میں دشمنِ خدا ہبار بن اسود نے حضرت زینبؓ پر نیزہ مارا کہ کجاوہ سے گر پڑیں اور اس حادثہ کی وجہ سے اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
مشفق والد، محسنِ انسانیتؐ تک دل دہلا دینے والی خبر پہنچی تو آپ بکھر کر رہ گئے۔ جب بھی حضرت زینبؓ کی یاد آتی آپؐ رنجیدہ ہو جاتے اور فطرتِ انسانی کے مطابق آپ غصہ سے تلملا اٹھتے لیکن جب بیٹی کا قاتل ہبار بن اسود قبولِ اسلام کے لئے آیا اور آپؐ سے قتل کی معافی مانگی تو آپؐ نے فراخ دلی سے معاف کر دیا۔
جدوجہد، قربانیوں اور عفوو درگزر کا احاطہ ایک کالم کیا کئی کتابوں میں ممکن نہیں۔ ریاستِ مدینہ ایسے ہی قائم ہو گئی تھی، نہ کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پیش کی تھی۔ اس کے قیام کے لئے ہادیٔ برحق اور آپؐ کے مٹھی بھر ساتھیوں نے ہر دقیقہ برداشت کیا۔
آپؐ کو اپنے گھر سے دربدر کر دیا گیا اور آپؐ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور مثالی ریاستِ مدینہ قائم کی۔ نظامِ خداوندی اور شریعتِ محمدیؐ کے قیام کیلئے مملکتِ پاکستان بےپناہ قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی مگر کسی بھی حکمران نے یہ نظام قائم نہ کیا مگر اب لوگوں نے ایک ایسے رہنما کو صرف کندھوں پر نہیں اٹھایا بلکہ ووٹ سے بھی اسے ایوانِ اقتدار تک پہنچایا جو ہر تقریر سے پہلے ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ کہتا ہی نہیں تھا بلکہ آج بھی کہتا ہے۔
جس قرآن میں اس نے یہ آیت پڑھی اسی قرآن میں ہمارے رب نے ایک اور جگہ پر کہا کہ ’’بیشک تمہارے لئے اللہ کے رسولؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے‘‘۔ ریاستِ مدینہ کے قیام کی باتیں جو حکمران کرتا ہے، ہمیں اس کی نیت پر شبہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔
وہ کسی فلم کا کردار نہیں کہ سلطان راہی کی طرح ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہے ’’میر شکیل، میں نے تمہیں نہیں چھوڑنا‘‘۔ لوگ انگشتِ بدنداں ہیں کہ ابھی کل تک وہ کہتا تھا کہ ذرائع ابلاغ بالخصوص جنگ و جیو کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچا۔ میر شکیل ہی کا ادارہ تھا جب آمر مشرف نے بدترین پابندیاں لگائیں اور زرداری و نواز ہی تھے جب وہ اس گروپ کیخلاف کوئی ناروا کارروائی کرتے تھے تو ’’حق گو اور برہنہ تلوار‘‘ عمران خان ان کو آڑے ہاتھوں لیتا تھا مگر اس انتہا تک تو مذکورین نہیں گئے تھے جس تک آپ چلے گئے کہ ایک انسان کا بھائی موت و حیات کی کشمکش میں تھا اور آپ کو رحم نہ آیا۔
یہ زخم کیسے مندمل ہوگا جناب والا؟ کس کو معلوم نہیں کہ جس بےبنیاد معاملہ میں میر شکیل کو گرفتار کیا گیا وہ اس کا جرم نہیں۔ میر کا جرم تو وہی ہے جو وہ ماضی کے حکمرانوں کے ادوار میں بھی کرتا رہا۔ خان صاحب آپ ریاستِ مدینہ کے علمبردار ہیں اور اس ریاست کی بنیاد رکھنے والے تو سراپا رحمت اور عفوو درگزر تھے۔
آپ فاطمہ بنتِ محمدﷺ کی مثال دیتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے کہا تھا کہ وہ بھی جرم کریں گی تو ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے۔ جنابِ عالیٰ! آپ کے اس دعوے پر لوگ تب یقین کرتے جب آپ ہر کسی کے خلاف یہی رویہ اپناتے۔ یاد رکھیے حضور نبی کریمﷺ نے کہا ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جائوں‘‘۔
اور آپؐ نے یہ بھی کہا کہ ’’جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ آپ ریاستِ مدینہ قائم کرنے سے قبل اپنے دل کو صاف کیجئے۔
سہواً جو منہ سے نکل گیا کہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور پھر آپ نے کر بھی دکھایا اس پر اللہ سے رجوع کیجئے اور میر شکیل الرحمٰن کو بےبنیاد مقدمے سے رہا کیجئے۔