• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے بقول چار ارکان نے میر ہزار خان کھوسو کو اس بنا پر نگران وزیراعظم نامزد کیا کہ پارلیمانی کمیٹی میں ان پر سب سے کم اعتراضات ہوئے۔ بہتر سے بہترین کی تلاش پارلیمانی کمیٹی کا درد سر تھا  نہ الیکشن کمیشن کی ترجیح  اس لئے Lesser evil کا فلسفہ بروئے کار آیا۔
اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ناموں پر مشاورت بیسویں آئینی ترمیم کی وہ معنی ہے جس کا اعتراف پارلیمانی کمیٹی کے ارکان نے بھی کیا۔ اٹھارویں  انیسویں اور بیسویں ترمیم میں صرف نگران وزیراعظم نہیں  الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کا طریقہ کار بھی انتہائی ناقص ہے۔ قوم سے چھپ چھپا کر یہ ترامیم کرنے والوں نے سادہ لوحی  جہالت یا لاعلمی کی بنا پر نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کے کسی رکن کے استعفے  علالت  فاترالعقل قرار پانے یا کسی دوسری ناگہانی صورتحال کے دوچار ہونے کی صورت میں نامزدگی کے اختیار اور طریقہ کار کا تعین نہیں کیا کیونکہ اس وقت کوئی قائد حزب اقتدار ہوگا نہ حزب اختلاف اور نہ ہی پارلیمانی کمیٹی۔
قائمقام چیف الیکشن کمشنر کا تقرر تو چیف جسٹس آف پاکستان کر سکتے ہیں مگر الیکشن کمیشن کے ارکان کا نہیں۔ اس لئے قوم دعا کرے کہ نگران وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کے ارکان 11/ مئی کی شام تک صحت و سلامتی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہیں کیونکہ نامکمل الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کا اہل نہیں اور نگران وزیراعظم کی عدم موجودگی میں صدر بالکل بے اختیار۔ خدا کرے کہ بنگلہ دیش ماڈل کے خواہش مندوں میں سے کسی کی نظر میں اس ناقص طریقہ کار اور آئینی پیچیدگی پر نہ پڑے تاکہ کوتاہ اندیش سیاسی نابغوں کی سزا اٹھارہ کروڑ عوام کو نہ بھگتنی پڑے۔
نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کا تعلق ملک کے پسماندہ اور شورش زدہ صوبے سے ہے  پورے ملک کی طرح بلوچستان میں منصفانہ انتخابات کے لئے پرامن ماحول کی فراہمی ان کی ذمہ داری ہے۔ بہترین  لائق اور تجربہ کار غیرجانبدار کابینہ کے ذریعے بلوچستان کے ناراض عناصر کو انتخابی دھارے میں لانے اور ٹرن آؤٹ بڑھانے کی سعی و تدبیر نہ ہوئی۔ سیاست زدہ بیوروکریسی کو لگام نہ ڈالی گئی اور سابقہ دور کی سیاسی تقرریوں اور تعیناتیوں کو واپس نہ لیا گیا ۔مرکز اور صوبوں میں موٴثر  تجربہ کار  غیرجانبدار اور دیانتدار انتظامیہ کو شفاف انتخابات کا ٹاسک نہ ملا تو انتخابی عمل کی ساکھ برقرار نہیں رہے گی اور پہلے سے موجودہ شکوک و شبہات کسی بڑی بے چینی کو جنم دے سکتے ہی۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے کھوسو پر تحفظات ظاہر کئے ہیں  خوش مسلم لیگ (ن) بھی نہیں۔ نگران وزیراعظم اپنی کارگزاری اور غیرجانبداری کے ان تحفظات کا ازالہ کر سکتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی خواہش کے مطابق بہترین انتظامی مشینری کے ذریعے شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اگلے چند دنوں میں نگران کابینہ کی تشکیل سے ان کے عزائم اور مستقبل کی کارگزاری کا اندازہ ہوگا اور یہ بھی کہ ان کی ترجیح صرف جیسے تیسے انتخابات کا بروقت انعقاد ہے یا پرامن  شفاف انتخاب  معیشت کی بہتری اور انتخابی عمل سے داغدار لوگوں کا اخراج بھی ان کے مدنظر رہے۔
تحریک انصاف نے لاہور میں کامیاب اجتماع کرکے مختلف سروے اور سیاسی پنڈتوں کے اندازے غلط ثابت کر دیئے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے انٹرا پارٹی الیکشن کی طویل  تھکا دینے والی ماردھاڑ سے بھرپور مشق کے بعد مینارپاکستان کے زیرسایہ جلسہ کرنے کا فیصلہ اپنے کارکنوں بالخصوص نوجوانوں کو امتحان میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ یہ جوا تھا جو عمران خان کے عزم کی وجہ سے کامیاب رہا۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد ہارنے ا ور جیتنے والوں میں جذبہ برقرار رکھنا اور کارکنوں کو نئے سرے سے متحرک کرنا معمولی کارنامہ نہیں۔ یہ اجتماع ایک سال سے داخلی کشمکش میں مبتلا پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے لئے ٹانک ثابت ہوا جو 11/ مئی کے دن ذات برادری دھڑے  قبیلہ کے بت پاش کرنے کے لئے بے چین ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پانچ سال تک اسمبلیوں میں بیٹھ کر پٹرول  بجلی  گیس  سبزی  دال اور آٹے کے نرخ بڑھانے  قومی خزانہ لوٹنے اور اپنے اثاثوں  بینک بیلنس میں اضافہ کرنے والے جاگیردار  وڈیرے اور سرمایہ دار بھیس بدل کر  پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کرکے ایک بار پھر ملک و قوم کی منزل کھوٹی کرانا چاہتے ہیں۔ اس لئے نوجوانوں کا خیال ہے کہ نئے عزم اور جذبے سے ان کا مقابلہ ضروری ہے اور ان پر اعتماد کرنے والی موروثی قیادت پر یہ واضح کرنا لازم کہ موقع پرست الیکٹ ایبلز سیاسی اثاثہ نہیں بوجھ ہیں۔ پورس کے ہاتھی جو اپنی ہی صفوں کو روند کر شکست کی راہ ہموار کریں گے۔ آزاد عدلیہ  متفقہ الیکشن کمیشن  غیرجانبدار نگران حکومت، عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ایسٹبلشمنٹ اور تبدیلی کی خواہش مند نوجوان نسل مل جل کر اگر صاف ستھری  باکردار اور قومی خدمت کے جذبے سے سرشار دیانتدار قیادت سامنے نہیں لا سکتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہماری قسمت میں بہترین جمہوریت نہیں۔ بروں میں سے کم برے کا انتخاب ہی ہماری اولین ترجیح ہے۔ یہ قومی قیادت کی نیت کا پھل ہے اور ہمارے اعمال کا نتیجہ اعمالکم عُمّا لکم۔
تازہ ترین