• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زبانوں کے ارتقاء میں علم اللسان کا اجتہاد اور عصری تقاضے

آوازوں کو معنی دینے کاآغاز کب ہوا، اِس کے گرچہ کوئی واضح تاریخی شواہد تو بنی نوع انسان کے پاس موجودنہیں، تاہم قدیم ترین تاریخ سے یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ زبانوں کے سفر کا آغاز اشارے سے ہوا اورغوں غاں سے ہوتا ہوا صوتی محرکات کی مدد سے حرف و لفظ تک پہنچا۔ انسان کا وجود اِس کائنات میں جس قدر قدیم ہے، زبان و بیان کا سفر بھی اتنا ہی پراناہے۔ بہرحال، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ زبانوں کا سفر و ارتقاء حضرت نوح ؑکے بیٹوں کےدور سے ہوا۔ جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ سام بن نوح ؑکی اولادکی زبان ’’سامی‘‘ کہلائی۔ سام کے تین بیٹے آرام، ایلام یا عیلام اور آشور یا عاشور تھے۔

آرام کی نسل عرب سے کریمیا (روس) کے علاقوں میں جابسی اور اُن کی زبان ’’آرامی‘‘ کہلائی، جب کہ آشور یا عاشور کی نسل سُوریا (شام) میں جابسی اور اُن کی زبان ’’سُریانی‘‘ کہلائی۔ یہ زمانہ تقریباً چار سے پانچ ہزار قبلِ مسیح کا ہے اور اُسی سُریانی زبان میں اِلہامی کتاب تورَات نازل ہوئی۔ اِسی طرح دوہزار سال قبلِ مسیح میں قدیم مصر میں ’’سُمری یا صمری‘‘ اور ’’لمکاری‘‘ زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اُسی زمانے میں زبانوں نے ایک دوسرے سے اِختلاط و تخلیط کا عمل شروع کیا۔ مثلاً عبرانی زبان کے کچھ الفاظ من و عن رُوسی یا اُزبک زبانوں میں موجود ہیں۔ 

تاہم، عبرانی کے کچھ الفاظ کی اُردو میں موجودگی آپ کے لیے حیران کن ہوگی، جیسے سموسہ، دوشیزہ، گیٹ، دستک، دوستی، کسک، راسی (رسّی) اور خیمہ (قیمہ) وغیرہ۔ یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ حضرت نوح ؑ کے بیٹوں سام، حام اور یافث کی نسلوں ہی سے آریائی اور دیگر یورپی اقوام کا سلسلۂ نسب ملتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا، چائنا میں درج ہے کہ ’’سفید فام (سامی)، سیاہ فام (حامی) اور زرد فام (یافثی) نسلیں ہیں۔‘‘ جب کہ منگول بھی اُسی یافث النسل سے ہیں، جو غیر منقسم ہندوستان میں آکر مغل یا مرزا بیگ کہلائے اور انہوں نے دلّی کے گرد نواح یا شمالی ہند کے علاقوں میں جس زبان کو ترویج دی، وہ سنسکرت، پراکرت، بھاشا سے ہوتی ہوئی اردوئے معلّیٰ اور پھر اردو زبان کہلائی۔ 

بعدازاں، جنوبی ہند کے علمائے ادب و لسانیات نے اُردو کی کونپل کو اپنے خون سے سینچا۔ یہاں ایک بات اور قابلِ توجّہ ہے کہ برطانوی دور میں اُردو زبان کی صرف و نحو اور قواعد کے حوالے سے جو کتابیں انگریز و یورپی مصنّفین نے تصنیف کیں، اُن کا مقصد خود ساختہ و من گھڑت تحقیق کے نام پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سنسکرت اور ہندی (یعنی موجودہ اُردو) کو آپس میں متصادم کرنا تھا، جس نہ سے صرف غیر منقسم ہندوستان کی لِسانی یک جہتی کا خاتمہ ہوا بلکہ اُردو سے متعصبانہ رویّے کا دائرہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی موجود رہا، نتیجتاً آج کی اُردو دنیا چھوٹی چھوٹی اِکائیوں میں تقسیم ہوگئی۔

تاہم، یہ بات تو طے ہے کہ ُاردو کا جنم کثیر اللسانی اِختلاط کا نتیجہ ہے، جس میں صوتی نظم و تغیّر کی بڑی اہمیت ہے۔ گرچہ اُردو صوتیات (فونیمز) کی تقسیم کے حوالے سے حکمائے لِسانیات کا اِجماع ممکن نظر نہیں آتا، لیکن بنیادی طور پر کسی بھی زبان میں صوتیات کی تقسیم آوازوں کی اِنفرادی نوعیت پر ہوتی ہے۔ معروف ماہرِلِسانیات، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے صوتیات کی درجہ بندی اس طرح کی ہے1:مصمّتی2:مصوّتی اور 3:نیم مصوّتی۔ ساتھ ہی انہوں نے تقریباً 41صوتیات (فونیمز) کی ایک فہرست بھی پیش کی، جس میں حرف و (بطور مصوّتہ یا حروفِ علّت ضمہ مستعمل واؤ معروف: خون، واؤ مجہول: ہوش، واؤ لین: خوف وغیرہ)، حرفِ ن (یعنی نون خالص انفی: ہنسی، نون وصلی یا مخلوطی: سنگ، نون مغنونہ: طمانچہ وغیرہ)،حرف ہ (ہائے ہوّز ، ہائے مخلوطی وغیرہ)، حرف ی (یائے معروف)، اورحرف ے (یائے مجہول) کو مزید ذیلی اَصوات میں تقسیم کیا۔ یہاں یہ امر واضح رہے کہ لہجوں کے فرق سے فونیم میں جو تبدیلی واقع ہوتی، وہ معنوی کیفیات کو بھی تبدیل کردیتی ہے۔ یعنی مصمّتی اِبتذال دراصل مختلف نوع کی توجیہ رکھتا ہے، جس میں علاقائی و تہذیبی تفاوت ایک بڑی دلیل ہے۔ اُردو چوں کہ عربی زبان کی طرح اِعرابی یا ماترائی ہے، جس میں زیر، زبر اور پیش کی صوتی تبدیلی سے بھی معنوی تفاوت پیدا ہوتی ہے۔ 

لسانی تفریق کا اَصل یا بنیادی مآخذ معاشرے کا غیر اشرافی طبقہ ہے، جس کا بظاہر معاشرتی تشکیل میں کردار پوری طرح نمایاں نہیں، تاہم لسانیات پر اُس طبقے کے اَثرات واضح اور دِیرپا ہوتے ہیں، جسے بالآخر علمائے لسان تسلیم کرتے ہیں اور پھر جدید لغت سازی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ یعنی لُغت کسی بھی زبان کی ترقی اور حفاظت کی ضامن ہوتی ہے اور ایسی لُغت جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، یقینی طور پر اپنی اہمیت و افادیت میں یکتا ہوتی ہے۔ اگر ہم عصری لُغات کا اِجمالی جائزہ لیں، تو سب سے اہم کام اُردو لُغت بورڈ کا نظر آتا ہے، جس نے 22 جلدوں میں اُردو کےتقریباً تمام مروّج و مستعمل الفاظ کو شاملِ لُغت کردیا ہے۔

حرف و صوت کے امتزاج سے جو ایک لفظ ترتیب پاتا ہے، وہ دراصل ہمارے شعوری نظام میں ایک عکسی یا خیالی تاثر کو جنم دیتا ہے، اور وہی ہمارا علم ہے، یعنی علم کسی بھی لفظ کی اُس ابلاغی کیفیت کو کہا جاتا ہے، جو کسی نہ کسی عکسی یا خیالی تاثر سے وابستہ ہو ۔ یاد رہے کہ الفاظ کی تفہیم جس عکسی یا خیالی تاثر سے جڑی ہوتی ہے، اُس میں اظہاری روّیہ لفظ کے معنیٰ کو متعین کرتا ہے، جسے تہذیبی و لغوی درجہ بندیوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ لفظ کے تہذیبی معنیٰ کی تفہیمی اِمثالیہ اِس سے بہتر کیا ہوسکتی ہے کہ جب ہم پیالی پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ رہی آپ کی چائے!‘‘ یا ’’چائے لیں جناب!‘‘ جس میں پیالی اپنی تہذیبی بھول بھلّیوں میں کہیں پوشیدہ ہوگئی یا جب ہم کسی پالتو جانور کو آواز لگاتے ہیں، تو مختلف صوتیات کی مدد سے مختلف معنی اَخذ کررہے ہوتے ہیں۔ 

مثلاً ہم کتّے کو بلانے کے لیے کچھ الگ مصوّتے ترتیب دیتے ہیں، جب کہ دوسرے جان دار کو پکارنے کے لیے کچھ دوسرے مصوّتے، تو دراصل یہی معنوی تفاوت تہذیبی درجہ بندی میں شمار ہوتی ہے۔ یعنی زبان کی ترویج جن لسانی اِکائیوں کے تابع ہوتی ہے، اُس کا مزاج بھی اُنہی اِکائیوں کے مزاج سے منطبق ہوجاتا ہے، اس پورے نظام میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ ہر لفظ اپنے صوتیات و معنیٰ میں ایک الگ اِکائی کی مانند ہے، لیکن عوامی برتاؤ میں وہ لفظ کس قدر قبولیت حاصل کرپاتا ہے، اس کا ادراک بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے عصری لُغات کی تدوین و تالیف کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، خصوصاً ایسی لغات جس میں مُطلقاً اِس بات کا اِہتمام ہو کہ عصری و عوامی بولی ٹھولی کو اسناد و حجّت کے ساتھ پیش کیا جائے، تاکہ زبان و لُغت کو عصری تقاضوں کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ دنیا کی ہر زبان میں لفظ کے برتنے کا اپنا ایک الگ انداز ہوتا ہے، جس میں اس زبان کی تہذیبی و معاشرتی اقدار کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسی سبب کسی بھی زبان میں دسترس حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان، اس کی تہذیب اور طرزِ معاشرت سے واقفیت حاصل کی جائے، جس سے نہ صرف زبان کو برتنے میں مدد ملتی ہے، بلکہ الفاظ کے محل سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے۔

فی زمانہ، اُردو کا اِن دِگرگوں حالات میں بھی خود کو محفوظ رکھنا دراصل خود ایک کرامت اور اِس بات کی دلیل ہے کہ اردو کے ادبی و لسانی معاملات ذَکی الحس اور باتدبیر علماء کے ہاتھوں میں ہے، جو نہ صرف ادبی تصنیفات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کررہے ہیں، بلکہ علمِ لسانیات کے حوالے سے املا و تلفّظ کی درستی کے ساتھ ساتھ الفاظ و محاورات کا محلِ استعمال اور قواعد کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے جیسا اہم کام بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اُردو زبان کے ابتدائی ادوار کے شاعر، شیخ احمد گجراتی نے جب کلمے کے تلفظ کے بگاڑ کے حوالے سے تنبیہ کی کہ ’’وزن کی درستی کی خاطر تلفّظ بگاڑنا ٹھیک نہیں، اور نہ ہی عبارت میں کسی قسم کی بے ربطی مستحسن ہے۔‘‘ تو انہیں اِس بات کا مطلق علم نہیں تھا کہ اُن کی تفہیم علمِ لسان کے قواعد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرجائے گی۔ 

بہرحال، اُردو اپنی نوعیت کی ایک منفرد زبان ہے، جو گرچہ ایک خودرو پودے کی طرح پروان چڑھی، لیکن اب اُس کا شمار دنیا کی تہذیب یافتہ زبانوں میں کیا جاتا ہے اور اِس کے ادب کا دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق ’’قواعدِ اردو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بیرونی زبانوں کا اثر صرف اسماء و صفات پر ہوا، ورنہ زبان کی بنیاد یہیں کی زبان پر ہے۔ تمام حروف فاعلی و مفعولی، اضافت، نسبت و ربط وغیرہ سب ہندی النسل ہیں۔ اِس کی ترقی و نشوونما کا تسلسل صدیوں نہیں بلکہ کئی ہزار سالوں پر محیط ہے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ اُردو زبان کی ترقی و نشوونما میں غالب حصّہ مقامی اور خطّے کی زبانوں کا ہے، جن میں قدیم سُومیری، زَند اُوستا، سنسکرت، یونانی، عربی، ترکی اور جدید فارسی کے ساتھ اُپ بھرنش یا وی بھاشایا وی بھرشٹ وغیرہ شامل ہیں۔ پھرجب مغلوں کا دورِ انحطاط شروع ہوا، تو فارسی گریز رجحانات سے نمٹنے کے لیے ہندی زبان کو فارسی زبان کے قالب میں ڈھالنے کی تحریک چلی، جسے حرفِ عام میں ’’فارسیت کی تحریک‘‘کہتے ہیں اور اُس تحریک میں اُردو کے نام وَر شعراء و ادباء مثلاً میر عبدالواسع، خان آرز، حاتم، میر، غالب، آتش و ناسخ شامل ہیں۔ اُن ہی میں سے کچھ نے فارسی کے قالب میں ڈھالی جانے والی زبان کے لیے ’’اُردو ‘‘کا لفظ نام کے طور پر استعمال کیا۔‘‘

ہمارے یہاں ایک طبقہ، جس میں کچھ علمائے لسان بھی شامل ہیں، مسلسل اِس بات کی مخالفت کررہا ہے کہ اُردو میں جو سائنسی اِصطلاحات و جدید الفاظ رواج پارہے ہیں، وہ چوں کہ خارجی عوامل کی تابع ہیں، اِس لیے اُنہیں اُردو کے صوتی و لسانی میکینزم میں داخل کرنے کے لیے مقامی تراجم کو رواج دیا جائے، لیکن اگر اُردو میں اُن سائنسی و جدید اِصطلاحات کے تراجم، عربی یا فارسی زبانوں کی مدد سے کیے جائیں گے، تو کیا یہ عمل درست ہوگا، کیوں کہ زبان کی ترقی و ترویج کا دارومداراُس زبان کی قبولیت پر ہوتا ہے، تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ ہم انگریزی و دیگر زبانوں کے سائنسی و صنعتی اصطلاحات کو اُن کی اصل حالت ہی میں اپنی زبان کا حصّہ بنالیں، جیسا کہ صدیوں پہلے انگریزوں نے اپنی زبان میں لاطینی اور یونانی الفاظ کو لسانی ضروریات کے تحت قبول کرلیا تھا۔ جس سے نہ صرف زبان وسعت پذیر ہوتی ہے، بلکہ اِبلاغیات میں بھی فصاحت آجاتی ہے اور ایک اِیسے دَور میں، جب کہ ہم انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی خبر رکھتے ہیں، زبان میں جائز اضافتیں قبول کرنے میں کیا دِقّت ہے۔ اگر آپ ’’لائوڈ اسپیکر‘‘ کا ترجمہ آلۂ متکبرِ الصوت کریں گے، یا فی زمانہ سماجی ویب سائٹس پر جو زبان و محاورہ استعمال ہورہا ہے، اُسے جبراً ترجمہ کرنے کی کوشش کی جائے گی، تو یقین جانیے، ہم اُردو میں گفتگو کرنے سے قاصر رہیں گے۔ مثال کے طور پر انگریزی لفظ کمنٹ کو تعلیق، پوسٹ کو منشور، گروپ کو مجموعہ، اِن باکس کو خطوط خانہ اور ٹیگ کرنے کو نتھی کرنا کہیں گے، تو عربی زدہ اُردو زبان تو باقی رہے گی، لیکن اس کی اِبلاغیات و فصاحت دَم توڑ جائے گی۔ لہٰذا اِس مسئلے پر نہایت سنجیدگی سے سوچنے اور اِس کا کوئی باضابطہ اور مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی اِستعداد کو بھی مدِنظر رکھیں اور اُس کے مطابق فیصلہ کریں کہ کیا ہم آنے والی نسلوں تک وہی تہذیبی و علمی وراثت منتقل کرنے کی سکت رکھتے ہیں، جس طرح ہمارے پیش روئوں نے ایک بالغ تہذیب اور وقیع علم سے ہمیں رُوشناس کروایا۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا واقعی اُردو کے عصری علمائے لسانیات کا مزاج مجتہدانہ ہے؟ کیوں کہ روایت سے نتھی ہوکر ہم شاید اپنی متعصبانہ سوچ کی آب یاری تو کرسکتے ہیں، لیکن اس سے زبان و ادب کی ترویج ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ علم اللسان کے ذمّے لسانی اِکائیوں کے درمیان نسبت تلاش کر کے میلانات و اِمکانات کو زیادہ سے زیادہ عصری رنگ دے کر مختلف لسانی اِکائیوں کو جوڑنا، ایک پُل کی مانند ہے، تاکہ زبان میں اِختلاط و تخلیط کا عمل جاری رہے۔ ایک اور اہم بات، جو ہمیں سمجھنی چاہیے کہ ہماری زبان (اُردو) کا خمیر کچھ ایسی خصوصیت لیے ہوئے ہے کہ ہمیں اِس میں اِجتہاد کے لیے کچھ خاص تگ و دو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، کیوں کہ اُردو خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ، ہماری ذمّے داری بہ حیثیت ماہر لسانیات اِتنی ہے کہ زبان و بیان کو نقص سے پاک رکھنے کی کوشش کی جائے اور ’’اُردویائے‘‘ ہوئے الفاظ و تراکیب کو مقامی و تہذیبی رنگ ڈھنگ دے دیا جائے، تاکہ زبان کا بیانیہ نامکمل محسوس نہ ہو۔فی زمانہ ترقی کی سَمت اِنسانی ہمک کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقت دُور نہیں، جب انسان ترقی کی اِس دو ڑ میں عصری تقاضوں کے لحاظ سے خود کو متروک سمجھنے لگے گا۔

تازہ ترین