• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وباؤں کے پس منظر میں لکھے جانے والے فکشن میں گیبرئیل گارسیا مارکیز کے ناول ’وبا کے دنوں میں محبت‘ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ عالمی ادبیات میں بعض ادیبوں نے وبا کو ایک تناظر کے طور پر استعمال کیا ہے جب کہ بعض دوسروں نے ایک تمثیل کی تشکیل میں وبا کو ایک استعارے کے طور پر برتا ہے۔ مارکیز نے زیرِ نظر ناول میں یہ دونوں کام کیے ہیں۔ اس نے ’کالرا‘ یا ہیضے کو ایک طبی مسئلے کی حیثیت سے بھی ناول میں جگہ دی ہے اور وبا کو ایک علامت کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ مارکیز کا یہ شہرئہ آفاق ناول 1985 میں ہسپانوی زبان میں شائع ہوا۔

تین سال بعد اس کاانگریزی ایڈیشن چھپا اور دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اس سے قبل مارکیزکے کئی افسانے اور ناول شائع ہو چکے تھے۔ 1967 میں چھپنے والے اس کے ناول ’تنہائی کے سو سال‘ نے تو چہار دانگِ عالم میں اس کو شہرت کی بلندیوں سے ہمکنار کر دیا تھا۔تب بعض نقادوں نے بجاطور پر یہ رائے قائم کی تھی کہ مارکیز نے ناول کی صنف کو از سرِ نو زندہ کر دیا ہے۔ 1982 میں جب اس کو ادب کا نوبل انعام ملا تو ہر کسی نے یہی کہا کہ اس وقت انعام کا مارکیز سے زیادہ اور کوئی حقدار نہیں ہو سکتا تھا۔

مارکیز کا سارا ہی فکشن گہرے سماجی مشاہدے ، تاریخ و سیاست کے قابلِ رشک فہم اور نت نئے تکنیکی تجربوں کا مظہر تھا۔ لاطینی امریکی فکشن میں جو زندگی کا وفور ، محبت کے تہ در تہ رموز تک پہنچنے کی جستجو اور رعنائی خیال کی وسعتیں سامنے آتی ہیں، مارکیز کی تخلیقات میں ان سب کی بہترین مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ’وبا کے دنوں میں محبت ‘ کی بنیادی کہانی اور نفسِ مضمون کیا ہے، کس انوکھے خیال کو ناول نگار نے ایک بڑے کینوس پر پھیلی ہوئی کہانی میں سمویا ہے، اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ 

پہلے ناول کی تکنیک اور اس کے پلاٹ کی بُنت میں ناول نگار کے کارِ ہنرمندی کا ذکر ضروری ہے۔ پانچ موضوعات یا themesکو ناول نگار نے اپنی کرافٹ کا حصہ بنایا ہے۔ اوّل، وقت کا تصور ہے۔ بظاہر ناول میں تقریباً نصف صدی کے عرصے کا انتخاب کیا گیا ہے، مگر ناول کی کہانی زمانی ترتیب کی پابند نہیں ہے۔ نصف صدی کے اواخر کے مہ و سال ناول کے پہلے ہی باب میں سامنے آ جاتے ہیں۔ پھر دوسرے باب سے کہانی ماضی کی طرف پلٹ جاتی ہے، لیکن مزید آگے چل کر ماضی سے حال اور حال سے ماضی کا سفریادوں کے سفینے پر جاری رہتا ہے۔

دوم، کہانی کے پلاٹ میں خطوں اور نامہ و پیام نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مارکیز کہیں بھی خطوں کی عبارت یا تفصیل نہیں دیتا، صرف یہ بتاتا ہے کہ ان کے ذریعے کیا سندیسے دیے گیے اور ان کا اثر کیا ہوا۔ ان خطوں نے کئی جگہ کہانی کو نیا موڑ دینے کا کردار ادا کیا۔ ایسا کر کے ناول نگار نے یہ ظاہر کیا کہ جو کچھ زبان سے ادانہیں ہو پاتا وہ نزاکتیں خطوں میں جگہ پا کر زیادہ گہرے اثرات مرتب کر دیتی ہیں۔ خطوں کی تحریر میں جذبوں کی تلاش اور ان کو مہمیز کرنے کا زبردست کام سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ ناول کے دو مرکزی کردار خطوں ہی کے ذریعے ایک دوسرے کو دریافت کرتے ہیں۔ پچاس سال قبل جس محبت کی بنیاد خطوں کے ذریعے رکھی گئی تھی، پچاس سال بعد خطوں کے ایک اور سلسلے نے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو استوار کیا۔

سوم، مارکیز کرداروں کی عمروں کا بھی حساب رکھتا ہے کہ پچاس سال پر پھیلی ہوئی کہانی میں کون ساکردار کس وقت شامل ہوا۔ وہ اپنے کرداروں کو عمر کی تقویم میں رکھ کر یوں دیکھنا چاہتا ہے کہ جذبات و احساسات اور ان میں آنے والی تبدیلیوں کو عمر کے آئینے میں دکھا سکے۔ مثلاً ناول کا مرکزی کردار فلورینٹینو اریزا (Florentino Ariza) اپنی محبوبہ فرمینا ڈیزا (Fermina Daza)کا پچاس سال انتظار کرتے ہوئے نہ صرف اس کے شوہر ڈاکٹر جووینل اَربینو (Juvenal Urbino)کی موت کا انتظار کرتا ہے، بلکہ خود اپنی عمر کا بھی حساب لگاتا رہتا کہ اب وہ کتنے سال کا ہو چکا ہے اور فرمینا سے فرقت کے دن ختم ہوئے تو وہ مزید کتنا زندہ رہ سکے گا۔

چہارم، ناول میں ایک اور موضوع جو پس منظر میں رہ کر کرداروں کے سماجی رویوںکو واضح کرتاہے وہ غربت اور امارت کے فاصلے ہیں۔ ناول میں پیش کردہ شہر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف عام لوگوں کی بستیاں ہیں، جب کہ دوسری طرف امراء کے عشرت کدے ہیں، ان کے سوشل کلب ہیں، اور اپنا طرزِ بودوماند ہے۔ طبقاتی فاصلے رشتوں کو مسمار کرتے ہیں۔ فرمینا کا باپ اس کا ہاتھ ایک معمولی سے آدمی فلورینٹینو کے ہاتھ میں دینے کے بجائے ایک کامیاب اور سماجی مرتبے کے حامل خوشحال شخص،ڈاکٹر جووینل اَربینو کے ہاتھ میں دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ کوئی اسّی سال کی عمر پانے کے بعد جب اربینو کی موت واقع ہوتی ہے ، تو فرمینا کو پہلی بار محسوس ہوتا ہے کہ اس نے جو طویل زندگی ڈاکٹر اَربینو کے ساتھ گذاری اور جس میں وقت گذرنے کے ساتھ محبت کا بھی کچھ تعلق استوار ہو چکا تھا، وہ در اصل اس کی اپنی زندگی نہیں تھی۔ جو کچھ اس کی پہچان بنی تھی وہ اس کے شوہر کی سماجی حیثیت اور اس کی شہرت کی مرہونِ منت تھی۔

پنجم، ناول کے پس منظر میں کام کرنے والا سب سے اہم موضوع ’کالرا‘ یا ہیضے کی وبا کا موضوع ہے۔ ناول کا لوکیل لاطینی امریکہ میں بحیرۂ کیریبیئن کا کوئی ساحلی شہر ہے، اور زمانہ ہے 1880 اور 1930 کے درمیانی پچاس سال کا۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو امرِ واقعہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں کیریبئین کے خطے میں تقریباً دو لاکھ افراد کالرا کی وبا کی نذر ہوئے تھے۔یہ وبا کسی ایک مخصوص علاقے میں مستقلاً پچاس سال تک برقرار نہیں رہی تھی بلکہ کیریبیئن کے مختلف ممالک مختلف اوقات میں اس کی زد میں آتے رہے۔ کیوبا میں 1833 میں بائیس ہزار افراد صرف سات مہینوں میںلقمۂ اجل نبے۔ اگلی وبا نے جمیکاکے چالیس سے پچاس ہزار لوگوں کی جان لے لی۔ بارباڈوس میں کوئی پانچ سال میں بیس ہزار لوگ مارے گئے۔

گارسیا مارکیز نے کیریبیئن کے علاقے میں وبا کی موجودگی کو ناول میں مختلف النوع انداز میں استعمال کیا ہے۔ کوئی کردار وبا کا علاج کرنے والا ڈاکٹر ہے، کسی کردار میں وبا کی حقیقی یا مبینہ علامتیں ہیں۔یہی نہیں وبا نے مختلف چیزوں کے لیے بہانہ بھی فراہم کر دیا ہے۔ یہ چیزوںپر پردہ ڈالنے کے کام بھی آ رہی ہے۔ ٹیکس چوروں کو وبا نے اچھا عذر فراہم کر دیا ہے۔ مارکیز نے ناول میں وبا کو دواور طرح بھی برتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں ناول کی بُنت سے ہٹ کر اس کی کہانی اور پلاٹ میں مضمر خیال کی طرف آنا ہو گا۔

کہانی بڑی سادہ ہے مگر کرداروں کے نفسیاتی رجحانات کے آئینے میں دیکھیں تو یہ کہیں زیادہ فکر انگیز جہتوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔ کہانی فلورینٹینو اریزا اور فرمینا ڈیزا کی داستانِ عشق سے شروع ہوتی ہے۔ دونوں جواں سال ہیں۔ فلورینٹینوپہلی ہی نظر میں فرمینا کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ یہ عشق اس کے لیے زندگی بھر کا ہمسفر بن جاتا ہے۔نامہ و پیام کے ذریعے فرمینا بھی فلورینٹینو کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ مگر فرمینا کے باپ کو یہ تعلق قبول نہیں۔ وہ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اربینو سے شادی پر مجبور کر دیتا ہے،جو پہلے پہل ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے فرمینا کے معائنے کے لیے آیا تھا کیونکہ شک تھا کہ اس میں کالرا کی علامتیں ظاہر ہو رہی تھیں۔

اَربینو سوسائٹی میں اونچا مقام رکھتا ہے۔ کالرا سے معاشرے کو محفوظ بنانے کی ذمہ داریاں بھی پوری کر رہا ہے۔ شادی کے بعد وہ اور فرمینا پچاس سال کے لگ بھگ ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی اولاد بھی ہوتی ہے۔ اربینو کے ساتھ طویل رفاقت کے سبب فرمینا محبت کے احساس سے بھی ہمکنار ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اَربینو کی موت کے بعد وہ ایک اور احساس سے دوچار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ان کا تعلق کسی گہرے خلوص سے عاری تھا۔

دوسری طرف فلورینٹینو جواں سالی کی محبت کی ناکامی کو کبھی قبول نہیں کرتا۔ اس کے دل میں سلگنے والی آگ زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہے۔ اس محبت کی وہ حفاظت کرتا ہے۔ اسی کو وہ اپنی منزل سمجھتا ہے۔ وہ اُس دن کے لیے زندہ ہے جب وہ بالآخر فرمینا کو حاصل کر لے گا۔ پچاس سال وہ اس انتظار میں رہتا ہے لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔ صرف اتنی ہوتی تو کہانی بہت سادہ تھی کہ پچاس سال بعد جب فرمینا ستّر سال سے اوپر اور فلورینٹینو اس سے بھی زیادہ عمر کو پہنچ چکا تھا، وہ مل جاتے ہیں۔ اور بڑھاپے ہی میں سہی، ان کے جذبات کی آسودگی کا سامان ہوجاتا ہے۔ اصل کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ جواں سالی میں دونوں کی محبت کی نامرادی فرمینا کی تو شادی پر منتج ہوتی ہے مگر فلورینٹینو جو ایک ٹیلیگراف آفس میں ملازم تھا، ایک دوست کے توسط سے ایک دوسری ڈگر پر چل نکلتا ہے۔ اس نے فرمینا کی جگہ پر کرنے کے لیے دوسری عورتوں سے تعلقات کی تلاش کا راستہ اختیار کر لیا۔ اگلے پچاس سال اس کے انہی تعلقات کے تحت آگے بڑھے۔ 

یہ بے راہروی کی زندگی تھی۔کجروی کے مہ و سال تھے، شدتِ جذبات نے لذت کوشی کا راستہ اختیار کر لیا۔کچھ تعلقات برسوں قائم رہے، کچھ وقتی ثابت ہوئے۔کچھ صورتوں میں پہل دوسری جانب سے ہوئی، کبھی آغاز فلورینٹینو کی کوشش کا حاصل تھا۔ عمروں کی بھی کوئی قید نہیں تھی، ہم عمر بھی تھیں، بیوہ بھی، اور جواں سال بھی۔ بارہ تیرہ نام تو خود ناول نگار نے بھی گنوائے ہیں۔ناول نگار نے فلورینٹینو کے اس طرزِ زندگی کو انتہائی شکل دیتے ہوئے اوراس کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے اُس کی اِس عادت کا بھی حوالہ دیا ہے کہ وہ ایک فہرست بھی اپنے پاس بناتا جا رہا تھا، جس میں عمر بھر کی 622 آشنائیاںدرج ہوچکی تھیں۔

محبت کی بھوک کی یہ صورت استعاراتی طور پر ایک داخلی وبا سے کم نہیں تھی اور اصل محبت اسی وبائی محبت کے جلو میں پروان چڑھ رہی تھی۔ اس نے اپنا مکان فرمینا کو ذہن میں رکھ کر آراستہ کیے رکھا۔ انسان اگر جسم اور بدن کا اور جنسی جذبات ہی کا نام ہوتا تو فلورینٹینونے زندگی کا ٹھیک ٹھاک انتظام کر لیا تھا۔ مگر انسان ان سب سے بلند بھی ایک چیز ہے، وہ بے ریا اور پر خلوص محبت ہی سے مکمل ہوتا ہے۔ یہ محبت فلورینٹینو کے دل میںآگ کی طرح سلگتی رہی مگر پچاس سال کے عرصے میں بہم ہونے والی رفاقتوں میں اس کی یافت نہیں ہو پائی ۔ ایک نا آسودہ خواہش، ایک تکمیل طلب جذبہ، ایک کسک، اور ایک بے کل رکھنے والا انتظار مستقل اس کے ساتھ رہا۔ بظاہر شہر میں اس کی شہرت ایک کجرو انسان کی تھی، مگر حقیقت میں اس کا دل ایک ایسی شاخِ غم کی حیثیت رکھتا تھا جو ہر موسم میں ہری رہی۔

بالآخر ڈاکٹر اَربینو کی حادثاتی موت نے راہ کشائی کی۔ فلورینٹینو کو جوں ہی اس کی اطلاع ملی اس نے آخری رسوم میں شرکت کے فوراً بعد فرمینا سے تجدیدِتعلقات کی خواہش ظاہر کی۔ ایک ایسے وقت جب کہ ابھی اس کے شوہر کو گذرے چند گھنٹے ہی ہوئے تھے فرمینا کے لیے اس طرح کی بات سننا سخت ناگوار ثابت ہوا۔ فلورینٹینو کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔پچاس سال میں فرمینا کے خیالات میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ ان سب سے واقف ہوئے بغیر وہ کس طرح فرمینا سے کسی فوری اور ڈرامائی فیصلے کی توقع کر سکتا تھا۔ فلورینٹینو نے ایک مرتبہ پھر خطوں کا سہارا لیا۔ ان خطوں میں وہ زندگی، خوشی، محبت اور موت جیسے موضوعات پر لکھ کر فرمینا کے خیالات کو ایک رخ دینے کی کوشش کرتا رہا۔

چند ماہ لگے کہ کچھ تو اِن خطوں کے ذریعے بننے والی سوچ اور کچھ ڈاکٹر اربینوکی موت کے بعد سامنے آنے والے اُس سے وابستہ مبینہ اسکینڈلز کے نتیجے میں، اور سب سے بڑھ کر اِس نئے احساس کے اجاگر ہونے پر کہ اس نے اپنی زندگی اپنی شناخت کے بغیر اور ڈاکٹر اربینو کی شہرت و منزلت کی بیساکھیوں پر گذاری ہے، فرمینا کو ماضی سے ذہنی رشتہ توڑنے اور از سرِ نو زندگی شروع کرنے پر آمادہ کر لیا۔اس وقت اس کی عمر بہتر سال ہو رہی تھی۔دوسری طرف جوں جوں فلورینٹینوکو یہ اندازہ ہو ریا تھا کہ فرمینا اب آہستہ آہستہ اس کی طرف مائل ہو رہی ہے، ویسے ویسے وہ اپنی دوسری شناسائیوں سے فاصلہ بڑھاتا چلا گیا، تآنکہ اس نے ان تعلقات کو یکسر ختم کر دیا ۔ وہ اور فرمینااب ہمسفر ہونے کو تیار تھے۔

ناول کے اواخر میں دونوں بوڑھے ، فلورینٹینو اور فرمینا، گمشدہ محبت کے اعادے اور نئی زندگی کے آغاز کے لیے ایک بجرے پر بحری سیر و سفر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ فلورینٹینو ایک معمولی زندگی سے شروع کر کے اب ’رِیورکمپنی آف کیریبٔین‘ کا صدر بن چکا ہے۔ اسی کمپنی کے بجرے پریہ آرزومند سیاحت ہو رہی ہے۔اس سفر میں پیرانِ ہفتادسالہ آسودگی ٔخاطر سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ پہلی مرتبہ انہیں اُس قرب کی دولت حاصل ہوتی ہے جس کے سوتے کسی واہمے یا کسی التباس سے نہیں، بلکہ محبت کے سچے جذبے سے پھوٹتے ہیں۔دس بارہ دن کا یہ بحری سفر ختم ہوتا ہے تووہ ساحل پر اترنے کے بجائے دوبارہ دریا کا رخ کرتے ہیں۔بجرہ ان کا اپنا ہے سو یہ ممکن ہے ۔ 

لیکن اس خیال سے کہ نئے مسافروں اور مال برداری کے بغیر یہ سفر ہو ، ایک ہی صورت ہے جو بجرے کا کپتان تجویز کرتا ہے یعنی بجرے پر زرد جھنڈا لہرا کر یہ اعلان کر دیا جائے کہ بجرے پر وبا کے مریض سفر کر رہے ہیں، سو محبت کا یہ سفر اب وبا کے پھریرے کے تحت جاری رہتا ہے۔یہ ختم ہوتا ہے تو فلورینٹینو کپتان کو ایک مرتبہ پھر واپس چلنے کو کہتا ہے۔ حیران اور ششدر کپتان پوچھتا ہے کہ پانی پر یہ آنے جانے کا سفر کب تک چلے گا۔ فلورینٹینو کا جواب فوراً آتا ہے: ’ہمیشہ ہمیشہ‘۔اس نے اس جواب کی پچاس سال تک حفاظت کی تھی۔

ناول تو یہاں ختم ہوا۔ مارکیز نے تین باتیں اپنے پڑھنے والوں تک پہنچائیں: ایک تو یہ کہ زندگی موت سے زیادہ قابلِ قدر ہے، اس کو ہر حال میں بچائے رکھنے کی ضرورت ہے۔دوسری یہ کہ زندگی کا حسن محبت سے عبارت ہے جو لذتِ محض سے مختلف اور بلند شے ہے۔ تیسری یہ کہ محبت کا جذبہ انسان کے خمیرمیںرچا بسا ہے، اور اس کا کوئی تعلق عمر کے کسی ایک یا دوسرے حصے سے مخصوص نہیں ہے۔رہا وبا کا تعلق، تو ناول میں اس کو اس کے حقیقی معنوں میں کبھی کسی ڈاکٹر اور کبھی مریض کے کردار کے حوالے سے استعمال کیا گیا ہے، لیکن اس کے دو اور بھی استعمال ہیں۔ 

فلورینٹینو کی پچاس سال پر پھیلی ہوئی جسمانی تلذذ کی زندگی بھی ایک بیماری ہی تھی ۔یہ بھی ایک وبا تھی جس نے اس کو اندر سے گھائل کر رکھا تھا، مگر اس نے اِس وبا کے دنوں میں بھی اپنی اصل محبت کی آبیاری جاری رکھی۔اور پھر جب یہ محبت بہار آشنا ہوئی تو اس کی بقا کے لیے بھی وبا کے زرد جھنڈے کا سہارا لیا گیا۔ یہ وبا کے زیرِ سایہ محبت کا نیا سفر تھا، جس کے کبھی نہ ختم ہونے کی خواہش فلورینٹینو کے دل میں جاگزیں تھی۔ 

تازہ ترین