• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے حکمران بھی گزشتہ پانچ برسوں سے جمہوریت کا حق ادا کرنے کیلئے عوام سے ایک خاص قسم کی بے تکلفی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔راجہ پرویز اشرف نے بطور وزیراعظم ازراہِ تفنن آٹھ ماہ میں اپنے صوابدیدی فنڈز سے 37/ارب روپے خرچ کر ڈالے۔ زرداری صاحب نے بے تکلفی کو چھیڑ چھاڑ تک محدود رکھا اور عوامی خزانے کو صرف180کھرب روپے کا نقصان پہنچایاحالانکہ وہ دل اور نظر کا حق ادا کرنے میں بہت آگے تک جا سکتے تھے۔ عوام کی اس جمہوری خدمت کیلئے پہلے قومی بینکوں پر دست درازی کی جاتی ہے۔ وہ ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں تب عالمی سود خوروں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ان قرضوں پر کچھ عظیم الشان جناتی منصوبوں کا سایہ بھی ڈال دیا جاتا ہے جن میں بھاری کمیشن الگ سے وصول کیا جاتا ہے۔ سرمائے کی اس بارات کو غیر ملکی بینک اکاؤنٹس میں روانہ کر کے حکمران رخصت ہو جاتے ہیں اور ان کے کرتوت قومی قرضے کی صورت عوام کو بھرنے پڑتے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت سرمایہ داریت اور قومی ریاستوں کے تصور سے پہلے قومی قرضہ نہیں ہوتا تھا یہ وہ جال ہے جس میں آج دنیا کا ہر فرد جکڑا ہوا ہے۔ زرداری حکومت کے آنے سے پہلے یہ قومی قرضہ22ہزار روپے فی کس تھا جو حکومت کے جانے کے بعد 88ہزار روپے ہو گیا ہے یعنی پوچھے بغیر ہر شخص کو88ہزار روپے کا قرض دار کر دیا گیا ہے جو ہمیں یعنی عوام کو بہر صورت ادا کرنا ہے۔ ہمیں تو چوری کی وہ رقم بھی ادا کرنی ہے جو عزت مآب راجہ پرویزاشرف کابینہ کے آخری اجلاس میں ہمارے ذمہ لگا گئے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بااثر لوگوں اور گیس کمپنیوں کے اہل کاروں نے ازراہِ خدمت پروری جو گیس چوری کی ہے، ہر مہینے لائن لوسز اور گیس چوری کی مد میں عوام کو وہ رقم بھی دو ارب روپے اضافی ادا کرنے ہوں گے۔ جمہوریت کے ان پانچ برسوں میں جس کی آئینی مدت16مارچ کو ختم ہوگئی عوام سے روٹی چھن گئی،کپڑے اتر گئے، مزید 3کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے چلے گئے جس کے بعد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 8کروڑ کے لگ بھگ ہو گئی۔ دودھ 36روپے سے 74روپے لیٹر ہو گیا، پیٹرول58روپے سے103روپے ہو گیا، چینی25روپے سے52روپے ہو گئی لیکن آخری 48گھنٹوں میں بھی توجہ دی گئی تو اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور ارکان پارلیمینٹ پر۔ جاتے جاتے ہماری اسپیکر قومی اسمبلی کو جو فرد سب سے زیادہ توجہ کا مستحق نظر آیا وہ خود ان کی اپنی ذات تھی لہٰذا انہوں نے ازراہِ غریب پروری اپنے آپ کو ایک پرائیویٹ سیکریٹری، ٹیلیفون آپریٹر، ویٹر، ڈرائیور، نائب قاصد، 1600ccکار، اس کا پیٹرول اور ایک لاکھ روپے ماہانہ اخراجات کی مد میں تا زندگی دان کر دیئے۔ علاوہ ازیں تاحیات مفت طبی علاج کی سہولت بھی ضروری سمجھی گئی۔ 432ممبران پارلیمینٹ کے الاؤنسز میں بھی سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ ہے جمہوریت عوام کی حکومت عوام کیلئے عوام کے ذریعے۔
جمہوریت کی اس حسن کارکردگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ جمہوریت پسندوں سے عرض کی جاتی ہے کہ ”حضور آنکھیں تو کھولئے شہر کو سیلاب لے گیا“جواب آتا ہے”خرابی جمہوریت میں نہیں اس نظام میں ہے، الیکشن کمیشن کو بااختیار کیجئے، دوچار مرتبہ فیئر الیکشن ہونے دیجئے پھر دیکھئے کیسی دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں“۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کڑوے کدّو کی جڑ میں پانی کی جگہ شربت دے دیا جائے پھر بھی اس کا پھل کڑوا ہی نکلے گا۔ امریکہ میں ڈیڑھ دو سو برس سے جمہوریت ہے، الیکشن منصفانہ ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن غیر جانبدار اور مضبوط ہے، ایماندار مخلص اور عوام کو جوابدہ قیادت منتخب ہوتی ہے، وہ سب کچھ ہے جس کیلئے ہم مرے جارہے ہیں لیکن اس جمہوریت نے امریکی عوام کو کیا دیا۔ دنیا کی مجموعی پیداوار میں امریکہ کا حصہ ایک چوتھائی ہے لیکن خبر آئی ہے کہ امریکہ میں ایک کروڑ ستّر لاکھ بچوں کو تین وقت کھانا میسر نہیں ہوتا یہاں لاکھوں بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ چار کروڑ ستّر لاکھ خاندانوں میں کھانا نہیں پکتا اور وہ خیراتی اداروں سے کھانا کھاتے ہیں، ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی خیراتی امدادی پروگرام کے تحت ملنے والا کھانا کھاتا ہے۔ یہ ہے وہ جمہوریت جسے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کر دے گی۔ امریکہ ہو یا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت عام آدمی کی یہی حالت ہے۔ بھارت کا قومی خزانہ بھرا ہوا ہے لیکن ایک شہری کی اوسط آمدنی محض32روپے روزانہ ہے جبکہ دیہات میں رہنے والے بیس روپے روزانہ کی انتہائی حقیر رقم میں گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق بھارت میں گزشتہ برسوں میں دو لاکھ ستّر ہزار کسان غربت سے تنگ آکر خودکشی کر چکے ہیں۔ پہلے وہ ساہوکاروں سے قرض لیتے تھے اور ان کے زرخرید غلام بن جاتے تھے اب وہ بینکوں سے قرض لیتے ہیں جو ان کا سب کچھ چھین لینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔
بات کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آرزو# لکھنوی کے لڑکپن کا ایک واقعہ سن لیجئے۔آرزو# کو ان کے محلے کے ایک بزرگ میرن صاحب نے سرِراہ روک کر پوچھا ”منجھو میاں!سنا ہے تم ماشاء اللہ شاعر ہو گئے ہو میں تو جب مانو گا جب تم اس مصرع پر گرہ لگا دو… اُڑگئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں…آرزو# نے برجستہ کہا…دامن اس یوسف کا آیا پرزے ہو کر ہاتھ میں…سو صاحبو! جمہوریت اگر سونے کی چڑیا ہے تو اس سونے کی چڑیا کے محض پَرغریبوں کے ہاتھ لگتے ہیں یا پھر تار تار دامن۔ اصل سونے کی چڑیا ان ارب پتیوں کے ہاتھ لگتی ہے جن کی دولت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ارب پتیوں کی تعداد میں مزید 210/افراد کا اضافہ ہوگیا ہے جس کے بعد ارب پتیوں کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار چار سو چھبیس ہو گئی ہے۔ مذکورہ امیر ترین لوگوں کے پاس اندازاً5.4کھرب ڈالر کی مجموعی ملکیت ہے یعنی امریکہ کی سالانہ پیداوار کی مجموعی قومی ملکیت کے ایک تہائی سے زیادہ حصے کے برابر۔ سرمایہ دارانہ سودی نظام کا یہ عفریت جمہوری نظام کے خوشنما فریب سے مل کر عوام کو دکھ درد اور پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں دیتا لیکن چند ہاتھوں میں دولت مرتکز کرتا جارہا ہے۔ اس وقت ساڑھے چارسو کے قریب افراد ایسے ہیں جن کی دولت اگر دنیا میں تقسیم کر دی جائے تو دنیا سے قحط غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ چلتا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو بقول ہیوگوشاویز”اگر مریخ پر پہنچے تو اسے بھی تباہ کردے“۔
تازہ ترین