• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشہ روزمیرے شائع ہونے والے کالم ”سرورپکوڑوں والا اور سول ایوارڈز “کے جواب میں مجھے بہت ساری کالز اور ای میلز موصول ہوئی ہیں ۔لیکن رانا عمران صاحب کی ای میل کالم کا تسلسل لگتی ہے میں چاہتا ہوں کہ آج کے کالم میں اس ای میل کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
علی بھائی مختلف شعبہٴ زندگی میں دیئے جانے والے سول ایوارڈز میں سے ایک ایوارڈ کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ اور آئی سی سی کی طرف سے بہترین امپائر کا ایوارڈ حاصل کرنے والے علیم ڈار بھی شامل ہیں ۔علیم ڈار دنیا ئے کرکٹ میں ایک ایماندار اور بہترین امپائر کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ہماری حکومت نے علیم ڈار کو سول ایوارڈ تو دے دیا ۔لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی شہریت اور وقار سے سبق حاصل نہیں کیا ۔یعنی ایمانداری اور انصاف کتنا بڑا اعزاز ہوتا ہے ۔علی بھائی میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ۔لیکن موجودہ حکومت نے جس طرح سول ایوارڈز کو اقرباء پروری کے لیے ریوڑیوں کی طرح بانٹے ہیں ۔میں تو کہتا ہوں ان ساری ایوارڈ یافتہ شخصیات کو اپنے ایوارڈ احتجاجاً واپس کر دینے چاہئیں جنہیں میرٹ پر یہ ایوارڈز ملے ہیں ۔آپ حیران ہونگے کہ گذشتہ سال ایک وفاقی وزیر کو نہ جانے کس خوشی اور کن خدمات پر ایوارڈ دیا گیا ۔لیکن انہی وزیر صاحب نے اپنے پی آراو (سرکاری ملازم ) کو بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھلوا دیئے اور اس مرتبہ انکے پی آر او کو بھی سول ایوارڈسے نواز دیا گیا ۔پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر فاروق ایچ نائیک، اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا ، رحمن ملک ، سلمان فاروقی ، فرحت اللہ بابر، شرمیلا فاروقی ، زمرد خان ان ساری شخصیات کو سول ایوارڈز دینے گئے ہیں ۔زمرد خا ن ایک ایسا نام ہے جس نے بیت المال کے حوالے سے سویٹ ہومز کے قیام کے لیے کام کیا ہے ۔لیکن باقی شخصیات کی خدمات پارٹی کے لیے تھیں ۔انہیں اعلیٰ قومی ایوارڈز دینا سمجھ سے بالاتر ہے ۔کراچی کی ایک سیاسی پارٹی کی ایک رکن اسمبلی خوش بخت شجاعت کو حسن کارکردگی کا ایوارڈ گذشتہ سال دیا گیا تھا ۔یہ درست ہے کہ شوبز کی دنیا میں انکا ایک نام ہے ۔لیکن اس بار انکے شوہر نامدار کو بھی جو ایک بینک کے ملازم تھے اور جو بینک نے انہیں ذمہ داری سونپی وہ انجام دیتے رہے، انہیں بھی ایوارڈ دے دیا گیا ہے۔ الطاف بھائی کو اسکانوٹس لینا چاہیے پیپلز پارٹی کے ایک اور لیڈر تاج حیدر کو بھی اعلیٰ سول ایوارڈ سے نوازا گیا ہے انکی خدمات سے بھی انکا ر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح پاکستان براڈ کاسٹنگ کا رپوریشن ریڈیو پاکستان کے سربراہ کو بھی یہ اعلیٰ ایوارڈ دے دیا گیا ہے ۔حالانکہ آپ وزارت اطلاعات ونشریات میں جا کر کسی افسرسے پوچھیں وہ آپ کو بتائیں گے کہ صدر کا قریبی دوست ہونے کی وجہ سے نہ صر ف انہیں ہر بار مدت ملازمت میں توسیع ملتی رہی بلکہ وہ وزارت کے کسی افسر یا وزیر کو اعلیٰ شخصیت سے تعلقات کی وجہ سے گھاس تک نہیں ڈالتے تھے ۔اسی طرح ثقافت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کے سربراہ کو بھی یہ اعلیٰ ایوارڈ اس لیے دیا گیا ہے کہ انہوں نے ثقافت کے فروغ کے لیے کام کیا ہے ۔حالانکہ انہیں اس ادارے کی سربراہی اس لیے دی گئی کہ وہ ثقافت اور لوک ورثہ کے فروغ کے لیے کام کریں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں زیادہ تنخواہ اور مراعات پر مدت ملازمت میں توسیع بھی دے دی گئی جو خود ایک ایوارڈ ہے لیکن علی بھائی طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کو جو گرافک ڈیزائنر ہیں، انہیں بھی اعلیٰ سول ایوارڈ دے دیا گیا ہے ۔علی بھائی میں آپ کو اس طرح درجنوں نام بتا سکتا ہوں جو میرٹ پر اس اعلیٰ ترین اعزاز کے قریب تک نہیں جاتے لیکن وہ سینے پر یہ ایوارڈ سجائے ان سینکڑوں لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔جنہوں نے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں یا اس ملک کیلئے انکی بے پناہ خدمات ہیں ۔
قارئین یہ ای میل آپکی خدمت میں پیش کر دی گئی ہے۔ آپ بہترین منصف ہیں ۔فیصلہ کر لیجیے ۔
تازہ ترین