• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج جب دنیا کے 215ممالک، علاقے اور خطے کورونا وائرس کے شکار اپنے لوگوں کی روزانہ کی بنیاد پر ڈیڈ باڈیز کی گنتی میں مصروف ہیں، ان تمام ممالک میں 27لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

2لاکھ کے قریب اموات اور سیریس کیسوں کی تعداد 60ہزار سے زیادہ ہے۔ یہاں برطانیہ میں بھی اموات 19ہزار تک پہنچ چکی ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں بعض ادارے اپنے تئیں مطمئن ہیں کہ ہمارے ہاں تو ابھی تک اموات کی شرح انتہائی کم ہے اور اللہ کا شکر ہے 250تک بھی نہیں ہوئیں اور 11ہزار کے قریب افراد ہی اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں لیکن ہمارے ان بے خبر زعما کو خبر ہو کہ بیچارا کورونا تو نوزائیدہ ہے۔

پاکستان میں تو دہائیوں سے اس سے کہیں زیادہ خطرناک، مہلک اور جان لیوا وائرس موجود ہیں اور آج اگر آپ کو پاکستان میں کورونا سے کم ہلاکتیں دکھائی دے رہی ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اعداد و شمار درست نہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں، یہ ایک وقت طلب بحث ہے۔

ہمارے ہاں کون کون سے وائرس اور آلودگی کی کیا کیا قسمیں دندناتی پھرتی ہیں، ہماری آتی جاتی حکومتوں نے کبھی اس مسئلہ پر غور نہیں کیا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی یا فضائی آلودگی کی وجہ سے 4کروڑ لوگ سالانہ متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں خصوصاً شہری علاقوں کی ہوا اس قدر آلودہ ہے کہ خود کو تکلیف دیے بغیر سانس بھی نہیں لیا جا سکتا۔ چنانچہ سانس کے انفیکشن کی وجہ سے ایک لاکھ 64ہزار لوگ سالانہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ 28ہزار افراد گھروں کے اندر موجود آلودگی اور 22ہزار فضائی آلودگی سے جان سے جاتے ہیں۔

گرین پیس آرگنائزیشن کی دنیا کے 200شہروں پر کئے گئے سروے کے مطابق 200میں سے 90آلودہ ترین شہر جنوب مشرقی ایشیا میں ہیں جبکہ فضائی آلودگی کے شکار ملکوں میں بنگلا دیش کے بعد پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جبکہ آلودہ شہروں میں گوجرانوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، لاہور، پشاور اور کراچی نمایاں طور پر شامل ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2019ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان فضائی اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ ملک میں ہونے والی کل اموات میں سے 22فیصد فضائی آلودگی، پینے کےصاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آئینی طور پر اپنے عوام کو صاف ستھری فضا مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے لیکن کبھی کسی موجودہ حکومت یا سابقہ حکومتوں نے یہ نہیں سوچا کہ حکومتوں کے اس قسم کے رویے سے خود حکومت کو 50ارب سالانہ ہیلتھ ایمرجنسی کی صورت معاشی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے 120ملین ڈالر کی لاگت سے ’’بلین ٹری سونامی‘‘ منصوبہ تو شروع کیا اور کچھ کام بھی ہوا لیکن افسوس یہاں بھی کرپشن کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

پاکستان میں فضائی آلودگی سے متعلق عالمی ادارۂ صحت نے بھی ایک انکشاف کیا ہے کہ جان لیوا فضائی آلودگی ہر سال پاکستان میں 60ہزار اموات کا باعث بنتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام سروے پاکستان سے متعلق نہیں، عالمی اداروں نے تو فضائی آلودگی کے حوالے سے پاکستان کو بدترین ممالک میں سے ایک قرار دے رکھا ہے۔

یہاں ہر سال 10لاکھ سے زیادہ اموات اس وجہ سے ہو رہی ہیں اور اس کے بعد بھارت ہے، جہاں 6لاکھ اموات فضائی آلودگی سے ہوتی ہیں۔

مجموعی طور پر پاکستان کا نمبر فضائی آلودگی میں چین، بنگلا دیش اور بھارت کے بعد چوتھا ہے۔ اس آلودگی کی وجہ سے پاکستان میں ہر شخص کی عمر اوسطاً ڈھائی سال کم ہو رہی ہے۔

پاکستان میں پاور پلانٹس، اینٹیں بنانے والے بھٹوں، فیکٹریوں، زہریلے دھویں اور خارج ہونے والے دیگر زہریلے مواد سے سالانہ ہزاروں ایسی اموات ہوتی ہیں جن کا کورونا کی طرح حکومت نہ تو کوئی اندراج کرتی ہے نہ علاج۔ نہ ہی ماحولیاتی آلودگی سے مرنے والوں کی کوئی لسٹ بنتی یا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ کورونا سے پہلے بھی پاکستان میں کئی قسم کی وبائیں آتی رہیں لیکن کبھی ان وبائوں سے مرنے والوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور نہ ہی کبھی میڈیا اور عوامی سطح پر کوئی آواز اٹھائی گئی۔

’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دنیا کا سب سے زیادہ پٹرول استعمال کیا جاتا ہے اور 2019میں کئے گئے ایک سروے میں واضح ہوا کہ صرف لاہور میں 11ملین افراد نے سر درد، آنکھوں میں جلن اور گلے میں سوزش جیسی بیماریوں کی شکایت کی جس کی صریح وجہ شہر میں پھیلی فضائی آلودگی تھی لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک اس صاف نظر آنے والی لیکن ’’سلو ڈیتھ‘‘ کو بھی درخور اعتنا سمجھا ہی نہیں گیا۔ تقریباً ہر پاکستانی شہری آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے۔

فیکٹریوں کے خارج ہونے والے دھویں سے متعلق کوئی قوانین ہیں نہ گاڑیوں کی اوور آل چیکنگ کا کوئی سسٹم، کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی مستقل خاطر خواہ بندوبست نہ سیوریج کا کوئی سسٹم اور اس پر مزید ستم یہ کہ صاف پینے کے پانی کی فراہمی بھی نہیں۔ ملاوٹ سے پاک دودھ میسر نہیں، کھانے کی خالص اشیا دستیاب نہیں، حتیٰ کہ زندگی بچانے والی ادویہ تک بھی دو نمبر سرعام فروخت ہوتی ہیں۔

سبزیاں سیوریج کے پانی سے کاشت ہوتی ہیں، گوشت مردہ جانوروں اور کتوں، گدھوں تک کا فروخت کیا جا رہا ہے غرض کہ جہاں فضا سے لیکر زمین تک اور پانی سے لیکر کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تک کچھ خالص نہیں اور لوگ پھر بھی زندہ ہیں، اس صورتحال میں یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ کورونا ہمارا کیا کرلے گا۔ ہم پاکستانیوں نے اس سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے حالانکہ ساری دنیا کا سلوگن یوں ہے کہ ’’ہمیں کورونا سے لڑائی نہیں کرنی بلکہ اس سے ڈر کر گھر بیٹھنا ہے تاکہ اس کی دست برد سے ہم اور دوسرے محفوظ رہیں‘‘۔ ان دگرگوں حالات میں پاکستان کی وزیر مملکت ماحولیات کو بھی سامنے آنا چاہئے جو پلاسٹک بیگز پر پابندی لگانے کے بعد زیادہ ایکٹیو نہیں رہیں۔

تازہ ترین