• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ: کینسر کے لیے تیاردوا کا کورونا وائرس کے خلاف استعمال کا تجربہ جاری

برطانیہ میں ماہرین صحت نے ناروے میں کینسر کے علاج کے لیے تجرباتی طور پر تیار کی گئی دوا کا کورونا وائرس کے علاج لیے ابتدائی چھ امید افزا دوا کے طور پر استعمال شروع کردیا ہے۔  اس طریقہ علاج کو بیم سینٹینب کا نام دیا گیا ہے۔ 

اس حوالے سے امید ہے کہ برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ ٹرسٹ کے چھ اسپتالوں میں زیر علاج 120مریضوں کو آزمائشی طور پر اس ہفتے سے یہ دوا دینا شروع کردی جائے گی۔ 

یونیورسٹی آف آئیوا میں لیبارٹری تجزیہ میں یہ دوا جوکہ گولی کی شکل میں ہے انسانی جسم میں جاکر مدافعتی نظام کو بڑھاوا دیکر موثر بنائے گی اور اے ایکس ایل ریسپٹرز کو غیرموثر کردے گی تاکہ وائرس پھیپھڑے میں جاکر اپنی تعداد میں اضافہ کرکے اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔

 یہ دوا بنانے والی کمپنی برجین بائیو کا کہنا ہے کہ اس دوا نے کینسر کے مریضوں پر آزمائش کے دوران اچھے اور امید افزا نتائج مرتب کیے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دن میں ایک بار لی جاتی ہے اور اسکے ضمنی یا مضر اثرات بھی بہت کم ہیں۔ 

ناروے کے مغربی ساحلی علاقے برجین میں واقع اس بائیو ٹیک فرم کا کہنا ہے کہ یہ دوا بوڑھے اور کمزور افراد جوکہ شدید قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ان کے لیے موزوں ہے۔

 بیم سینٹینب اور پانچ دیگر امید افزا ادویات کو حکومت نے اپنے ایکورڈ پروگرام کے طور منتخب کیا ہے تاکہ کورونا وائرس کا علاج کیا جاسکے۔ 

برطانیہ کے محکمہ صحت کے ایک افسر نے ایک برطانوی اخبار کو بتایا کہ دو دیگر دواؤں میں میڈی 3506 اور ایکالا بروٹی نب کو شامل کیا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے دیگر تین دواؤں کے نام نہیں بتائے۔ 

میڈی 3506 فرگزیگا میں پایا جاتا ہے جوکہ کرونک اوبسٹرکٹیو پلمونری بیماریوں (COPD) اور شوگر سے متاثرہ گردوں کی بیماریوں کے علاج میں کافی مددگار ہوتا ہے۔ کالکیونس جسکا جینرک نام ایکالا بروٹی نب ہے، اور یہ کینسر کے علاج میں استعمال ہوتا ہے۔

 بیم سینٹینب اس ہفتے سے دوسرے آزمائشی مرحلے میں مریضوں کو دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا اور امید ہے کہ اس کے نتائج مہینوں میں سامنے آجائیں گے۔ 

برجین بائیو کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ گوڈفری نے اس حوالے سے کہا کہ ہم اس کے آزمائشی مراحل سےخوش ہیں جوکہ حکومت، سائنسدانوں اور صعنتوں کے درمیان پارٹنر شپ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے، اور پرامید ہیں کہ جلد ہی دنیا بھر میں جاری ان کوششوں میں کامیابی حاصل ہوگی۔

برطانوی وزیرصحت میٹ ہینکوک نے بھی اس تجربے کو امید افزا  قرار دیا ہے۔

تازہ ترین