• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر … پروفیسر اختر ہزاروی
مال و دولت اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جس کے ذریعے انسان کی بے شمار دینی اور دنیوی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔لیکن یہی ’’مال‘‘ امتحان اور آزمائش بھی ہے۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نے دنیوی مال و اسباب کو اپنا فضل قرار دے کرجائز زرائع سے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ انسان راحت وسکون، عزت ووقار اور خوشی ومسرت کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ اسلام میں مال و دولت کمانے کو نہ صرف پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا بلکہ رزقِ حلال کے لیے محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ بہت سے انبیاء اور صالحین ایسے گزرے ہیں جو دولت مند تھے۔ صحابہ کرامؓ اور آل بیت اطہارؓ میں بھی مالدار لوگ موجود تھے۔ کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی مالدار تھے اور بعض اسلامی ریاست کے قیام کے بعد مالی فراوانی کی وجہ سے امیر ہوئے۔ اسلام ہر فرد کو کم از کم اتنا مال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ اس کی بنیادی ضروریات پوری ہوں اور دوسروں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔ یہی مال جب اللہ کی معصیت اور نافرمانیوں میں استعمال کیا جانے لگے۔ا سراف وفضول خرچی کو شعار بنا لیا جائے توپھر یہ نعمت انسان کیلئے وبال جان بن جاتی ہے۔کبھی انسان مال ودولت کے نشے اور عیش وعشرت میں پڑ کر اللہ کو فراموش کرجاتا ہے اور کبر وغرور میں پڑ کر ظلم وزیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظام معیشت بہت متوازی ہے جس میں مالداروں کی دولت وثروت میں غریبوں کا بھی حق رکھ دیا گیا ہے تا کہ سماج میں کوئی محروم نہ رہے۔ معاشرہ صالح بنیادوں پر استوار رہے،جہاں نہ عیاشی واسراف کی بے اعتدالی ہو اور نہ فقرو افلاس کی مشکل صورتحال بلکہ دونوں طبقے ایک حد کے اندر رہیں ۔ قرآن پاک عیش وعشرت میں حد سے گزر کر سامان زندگی کے انبار لگانے کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے بلکہ اسے انسانی زندگی کیلئے ایک چیلنج قرار دیتا ہے۔ جو لوگ عیش وعشرت میں پڑ کر فساد فی الارض کا سبب بنتے ہیں،وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اپنی بے پناہ دولت کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ اپنی دولت اور جاہ ومنصب کے سہارے گھٹیا سے گھٹیا عمل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، وہ ہر اس آوازیا طاقت کو کچل دینا چاہتے ہیں جو ان کی پرتعیش زندگی میں رخنے ڈال سکتی ہو۔قارون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ بنی اسرائیل سے ہونے کے باوجود وہ فرعون کا ساتھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مخالف تھا۔ اس کی وجہ شہرت اس کی بے پناہ دولت تھی۔ مگر یہی دولت اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے عذاب میںمبتلا ہونے کا سبب بن گئی۔قرآن کا یہ واقعہ انسانوں کے دلوں میں پیوست دنیا پرستی کے جذبہ اور اس کے انجام کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ دنیا پرستی کا یہ مرض جو زمانہ قدیم سے انسانوں کو خدا کی نافرمانی میں مبتلا کرتا رہا ہے، آج پہلے سے کہیں زیادہ قوت کے ساتھ ہمارے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ یہ مرض عام لوگوں کے لیے تو آخرت میں محرومی کا سبب ہے ہی، مگر دنیا پرستی کا مرض جب کسی مسلم معاشرہ میں پھیل جاتا ہے تو اسے ایمان وعمل صالح کا ایک حقیقی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑتا۔ قرآن وحدیث میں مسلمانوں کو دنیوی مال کے اس فتنہ سے خبردار کر کیا گیا۔ اس سلسلے کی سب سے صریح روایت مسند احمد کی وہ حدیث ہے جس میں اس معاملے کو یوں بیان کیا گیا ہے: ʼʼہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مذہب سے وابستہ شخصیات لوگوں کو اس فتنہ سے بچاتے لیکن بد قسمتی یہ کہ اکثر و بیشتر (الا ماشاء اللہ)وہ خود اس کی لپیٹ میں آگئے۔نتیجہ یہ کہ اسلام کی حقیقی روح دلوں میں پیوست ہونے کی بجائے لوگ مذہب کو ایک تہذیبی ورثہ اور رسوم و عادات کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ایسا مذہب انسانوں کو نہیں بدلتا، بلکہ وہ انسانوں کے ماحول، مزاج اور عادات کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ جب رسول کریم ﷺ کی بعثت ہوئی تو دنیوی آسائشوں میں زندگی بسر کرنے والے خوش حال لوگوں نے رسول ﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے والے اور ایمان لانے والے کمزوروں کا مذاق اڑایا۔ان کی دولت وثروت اوران کی عیاشی وخوشحالی نے ان کے اندر کبرو غرور، خود بینی وخود پسندی اور نخوت پیدا کردیاتھا۔ ہر زمانے میں یہی ہوتا آیا ہے
کہ تزکیہ نفس اور روحانی بالیدگی کے بغیر دولت وثروت کے انبار انسان کا مزاج بگاڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنی بے پناہ دولت پر اترانے لگتا ہے اورخاص طور پر جبکہ یہ دولت ناداری وغربت کے بعد آئے اور اس کے حصول میں بھی حلال وحرام کی تمیز نہ رہی ہو۔ کئی تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ حد سے زیادہ دولت رکھنے والا یہ طبقہ جب اللہ کے حکم سے منہ موڑ لے تو پھرسماج میں فساد وبگاڑ کا سرچشمہ بنتا ہے۔ فتنہ وفساد بپا کرتا ہے۔ عیش وعشرت کی زندگی اسے بزدل بنا دیتی ہے اس کے اندر سے جدوجہد کا مادہ ختم ہوجاتا ہے اور وہ اپنی عیاشی کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیارہو جاتاہے۔قرآن پاک ارشاد فرماتا ہے ʼʼاور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو کچھ حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیںʼʼ(بنی اسرائیل)۔ بحیثیت مسلمان ہمارا پختہ عقیدہے کہ دنیا کی زندگی فانی ہے۔ ہم نے بہت جلد رب کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے ہر قول و عمل پر جواب دہ ہونا ہے۔ دنیا کی ساری نعمتیں بشمول مال و دولت اور عالیشان محلات یہیں رہ جائیں گے اور ہم نے داعی اجل کو لبیک کہہ جانا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس دولت کو ہم سامان راحت سمجھتے رہے وہی آخرت می منزلوں میںبے سکونی کا سبب جائے۔ لھذا ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں۔ اللہ کا شکر گزار بندہ بن کے زندگی گزاریں اور اطمینان کے ساتھ سرخرو ہو کر اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں۔ بقول کسے۔۔
یہ محل یہ مال و دولت سب یہیں رہ جائیں گے
ہاتھ آئے گی فقط دو گز زمیں مرنے کے بعد
تازہ ترین