لاہور گلشن اقبال پارک اس روز منی پاکستان کی علامت تھا، بلاامتیاز مذہب وفرقہ سب وہاں موجود تھے، مسیحی برادری بھی ایسٹر کا تہوار بنا رہی تھی اور اتوار کی تعطیل تھی وہ سب مسرت کی تلاش میں آئے تھے لیکن پھر ایک خوف ناک دھماکے میں موت اور اذیت کا عنوان بن گئے۔ اس جنگ کا حصہ بن گئے جس کا نام دہشت گردی ہے، جس کے شر کے بادل پوری دنیا پر منڈلا رہے ہیں، جس کے جبر سے خلق خدا پسی ہوئی ہے۔اس سے پہلےکے واقعات پر غور کریںتو ایک عجب صورتحال سامنے آئی ہے جس روز ایران کے صدر محترم حسن روحانی پاکستان کے دورے پر تشریف لاتے ہیں اس سے ایک دن پہلے بھارتی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری ظاہر کی گئی، ایرانی صدر تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ ایران کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال کی جارہی ہے۔ ایران میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ پاکستان کیخلاف سرگرم عمل ہیں، مزید اضافہ یہ سامنے آیا کہ ایک اور بھارتی ایجنٹ راکیش ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر پاکستان دشمن معاملات میں مصروف ہے، پھر جس روز پاکستان کا وفد پٹھان کوٹ واقعہ کی تحقیق کیلئے بھارت پہنچتا ہے اسی روز لاہور میں دھماکہ، اس بیرونی منظر نامہ کے علاوہ اندرون ملک بھی واقعات کی ایک پیہم یلغار ہے، ان کی ٹائمنگ پر غور کیجئے تو ہر طرف مزید سوالات ہی سوالات جنم لیتے ہیں، ممتاز قادری کی پھانسی کے 28ویں دن چہلم کا انعقاد، اس میں ہزاروں افراد کی شرکت، چہلم کے جلوس کی سیکورٹی پر چار ہزار سیکورٹی اہلکار تعینات تھے مگر مظاہرین بلا روک ٹوک ڈنڈے برساتے، کنٹینروں، گاڑیوں اور عمارتوں کو آگ لگاتے ڈی چوک پہنچ گئے، سیکورٹی فورسز عملاً مظاہرین کو منتشر کرنے سے معذوری کا اظہار کرتی رہیں۔ یہ حادثہ سے بڑھ کر حادثہ ہے۔یہ معاملات تفتیش کے متقاضی ہیں اور پس پردہ محرکات کی تفصیلات چاہتے ہیں لیکن ہمارے تحقیقاتی اداروں نے ابتدائی طور پر بڑے سہل انداز سے انہیں لیا ہے۔لاہور واقعہ کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کی شاخ جماعت الاحرار نے قبول کی ہے جو پاکستان میں افغانستان سے آپریٹ کی جاتی ہے، حملے کے بعد چونکہ میڈیا نے باہم مل کر خودکش، خودکش حملہ آور کی تکرار شروع کردی تھی، لہٰذا ہمارے تحقیقاتی اداروں نے بھی میڈیا کی اس دریافت کو قبول کرلیا،حالانکہ ایک خیال یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ تباہ کن مادہ بچوں کے ایک جھولے کے ساتھ نصب کیا گیا تھا لیکن اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی، پھر جائے وقوع سے ایک سربرآمد ہوا تو اسے فوراً خودکش حملہ آور کا سرقرار دیا گیا ، خودکش حملہ آور کا شناختی کارڈ بھی مل گیا، یہ عجیب حملہ آور تھا جو اپنا شناختی کارڈ بھی ہمراہ لے کر آیا تھامعاملات اتنے سادہ ہیں اور نہ حقیقت کا سراغ لگانا اتنا سہل بجا طور پر ابتدائی تحقیق کے نقائص کو محسوس کرلیا گیا، ان سے رجوع بھی کیا گیا، لیکن ایک ہی دن میں کراچی سے لے کر اسلام آباد اور لاہور کا یوں آتش بہ داماں ہونا کسی گہری سازش کا سراغ دے رہی ہے، جس میں بیرونی عناصر بھی ملوث ہوسکتے ہیں اور اندرونی بھی لیکن بیرونی عناصر کو نظرانداز کرکے صرف اندرونی طاقتوں کو فوکس کرنا تحقیق کی کوئی درست سمت نہیں، تقریباً دو سال سے آپریشن ضرب عضب جاری ہے، نیشنل ایکشن پلان بھی پورے ملک میں بروئے کار ہے جس کے تحت دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی گئی لیکن شاید یہ دعویٰ خوش فہمی پر مبنی ہے ورنہ 27؍مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک دن قرار نہ پاتا پنجاب میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا، بہت سے حلقے اس پر مدت سے اصرار کر رہے تھے، جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نوازشریف نے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھنے کا عزم اظہار کیا ہے، دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کے گہر ہونے تک۔