• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں ’’بابوں‘‘ کے ماننے والے تو بہت ہیں مگر سب اپنے اپنے ’’بابے‘‘ کے گن گاتے ہیں۔ بعض ناہنجار و خطا کار ایسے بھی ہیں جو ’’بابوں‘‘ کو خبطی سمجھتے ہیں اور انہیں ’’ویہلا بابا‘‘ کہہ کر خفت مٹاتے ہیں۔

پنجابی کے شاعر زُلفی کی مزاحیہ نظم ’’ویہلا بابا‘‘ میں دراصل ان ’’بابوں‘‘ کی حالتِ زار بیان کی گئی ہے جن سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ہی گھروں میں بیگار لی جاتی ہے مگر میں بڑھاپے کی دہلیز پر بیٹھے ان روایتی ’’بابوں‘‘ کی بات نہیں کر رہا بلکہ ان پہنچے ہوئے ’’بابوں‘‘ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ایک نظر ڈالتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ یہ نوجوان کیوں پریشان ہے اور کیا چاہتا ہے؟

اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب جیسے افراد غنیمت ہیں جنہوں نے معاشرے میں بابوں کا کردار اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پہنچے ہوئے بابے ایوب خان جیسے لبرل شخص کے دفتر میں گھسنے سے دریغ نہیں کرتے اور قدرت اللہ شہاب اس قدرت پر حیران رہ جاتے ہیں۔

’’بابا صاحبا‘‘ تو آپ کو یاد ہی ہوں گے جو 1965 کی جنگ میں راوی کے پُل پر سبز چوغہ پہن کر کھڑے ہو گئے تھے۔ جونہی کوئی بھارتی طیارہ اس پل کو تباہ کرنے کی نیت سے آتا اور بم گراتا، بابا جی اسے کیچ کر کے بھارت کی طرف اُچھال دیتے۔ بعض اوقات کئی شعبدہ باز ان ’’بابوں‘‘ کا روپ دھار کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ا

شفاق احمد نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’زاویہ‘‘ کے آغاز میں ایک بہروپیے کا قصہ بیان کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اورنگ زیب کے نزدیک فنونِ لطیفہ کی حیثیت لہو و لعب سے بڑھ کر نہ تھی اور وہ پازیب کی جھنکار کی نسبت تلوار کی جھنکار پر فریفتہ ہونے والا انسان تھا۔ ایک شخص نے دربار میں حاضر ہو کر کہا ’’شہنشاہ معظم! میرا نام کندن بہروپیا ہے اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں کہ شہنشاہ معظم، جن کو اپنے تجرِ علمی پہ بڑا ناز ہے، کو دھوکا دے سکتا ہوں، اور غچہ دیکر بڑی کامیابی سے نکل جانے کی صلاحیت رکھتا ہوں‘‘۔

اورنگ زیب نے اس کا دعویٰ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ توضیع اوقات ہے، میں تو شکار کو بھی کارِ بیکار سمجھتا ہوں۔ تم جو جو چیز میرے پاس لائے ہو اس کی ہرگز کوئی اہمیت نہیں۔ اس نے ایک بار پھر اصرار کیا، حضور! ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، شہنشاہ معظم کی دانش کا جواب نہیں لیکن میں بھیس بدلوں گا اور اگر آپ مجھے نہ پہچان سکے تو پانچ سو روپے عنایت کر دیجئے گا۔ اورنگ زیب نے اس کا چیلنج قبول کرلیا۔

دربار سے واپس آکر بہروپیا سوچنے لگا کہ ایسا کون سا سوانگ رچائوں کہ بادشاہ سلامت دھوکا کھا جائیں۔ اسے معلوم ہوا کہ آئندہ برس اورنگ زیب مرہٹوں کے خلاف یلغار کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کندن بہروپیے نے پہنچے ہوئے بابا جی کا روپ اختیار کیا اور مرہٹوں کی سلطنت کے پاس ڈیرے ڈال دیے۔ آتم تیاگ کی جستجو اور تپسیا کی سچی آرزو رنگ لانے لگی اور چار دانگ عالم اس بابا جی کے چرچے ہونے لگے۔ اس دوران اورنگ زیب کی فوجوں نے پیش قدمی کی تو مرہٹے قلعہ بند ہو گئے۔

لگاتار کوشش کے باوجود قلعہ فتح نہ ہو سکا تو کسی مشیر نے کہا ’’شہنشاہ معظم! یہاں پاس ہی ایک بابا جی کا ڈیرہ ہے جن کی روحانیت کا زمانہ قائل ہے اگر مناسب سمجھیں تو ان سے جا کر مدد مانگیں۔‘‘ اورنگ زیب باباجی کے پاس پہنچا اور درخواست کی کہ اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ تجویز کریں۔ بابا جی نے کہا پرسوں بعد نماز ظہر حملہ کرنا، ان شاء اللہ غلبہ پائو گے۔ فیصلہ کن حملے کی تیاریاں ہونے لگیں، لشکر کے حوصلے بھی یہ سن کر بڑھ گئے کہ اب تو فتح ان کا مقدر ہو چلی ہے۔

اس یقین کے ساتھ حملہ آور ہونے والے بھلا کیسے ناکام ہوتے، دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کی فصیلیں منہدم ہو گئیں اور معمولی مزاحمت کے بعد مرہٹوں نے شکست تسلیم کرلی۔ کامیابی کے بعد اورنگ زیب عالمگیر نے باباجی کے آستانے کا رُخ کیا اوراپنا عمامہ اتار کر نہایت ادب سے ملتمس ہوا ’’بابا جی! یہ سب آپ کی بدولت ہی ممکن ہوا‘‘ بابا جی نے اصلاح کی، نہیں! جو کچھ کیا اللہ نے کیا، ہم فقیر تو بس دعا ہی کر سکتے ہیں۔ اورنگ زیب نے دو پرگنوں کی پیشکش کی مگر بابا جی نے معذرت کر لی۔

چند روز بعد اورنگ زیب دربار میں متمکن تھا کہ وہ بابا جی آن پہنچے۔ بادشاہ سلامت تختِ شاہی سے اترے اور دوڑتے ہوئے بابا جی کے پاس جاکر کہا، ’’آپ نے تشریف لانے کی زحمت کیوں کی، مجھے بلایا ہوتا، میں خود حاضر ہو جاتا‘‘

بابا جی نے ہنستے ہوئے کہا، شہنشاہ معظم! یہ ہمارا فرض تھا کہ ہم خود حاضر ہوتے، جمع خاطر رکھئے میں کندن بہروپیا ہوں جو چند برس قبل آپ کے دربار میں حاضر ہوا تھا اور چیلنج دے کر گیا تھا۔ آپ دھوکا کھا گئے اور مجھے پہچان نہیں پائے۔

لائیے، پانچ سو روپے بطور انعام دیجئے۔ اورنگ زیب ہکا بکا رہ گیا اور کچھ توقف کے بعد گویا ہوا ’’مجھے پانچ سو روپے دینے پر اعتراض نہیں مگر جب میں دو پرگنے اور دو قصبے بطور تحفہ پیش کرنا چاہ رہا تھا تو تم نے لینے سے انکار کیوں کر دیا؟ تم یہ زمین قبول کر لیتے اور عیش و آرام سے رہتے؟‘‘ کندن بہروپیے نے جواب دیا، شہنشاہ معظم! جن بابوں کا روپ دھارا تھا، ان کی عزت مقصود تھی۔ وہ سچے لوگ ہیں اور ہم جھوٹے، یہ کیسے ممکن تھا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں۔

اسی کتاب میں آگے چل کر اشفاق احمد نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بابا کسے کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ٹھگ یا بہروپیے کس طرح بابوں کا بھیس بدل کر دھوکا دیتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے حالات کے پیش نظر ایک اور ’’بابا جی‘‘ کی آمد کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ان ’’بابا جی‘‘ کا جلال دیکھ کر لوگ ’’بابا رحمتے‘‘ کو بھول جائیں گے۔

تازہ ترین