• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔جہاں تک عوام کی توقعات کا تعلق ہے تو اَلحمد لِلہ ”ہم سب اُمید سے ہیں“۔ اس ۵ سالہ مفاہمتی دور میں مُفاہمت کا ایسا دور دورہ رہا کہ منافقت سے ہر روز سرِ راہ ملاقات ہو جاتی رہی۔حکومت کی کارکردگی جیسی تیسی رہی اس کا فیصلہ تو عوام ہی کو کرنا ہے البتہ نگران حکومت کا قیام میرے نزدیک ایک حوصلہ افزا قدم ہے۔ میرے کالم کا قاری اس عمل کی حوصلہ افزائی کو شاید مایوس کن سمجھے لیکن وہ اگر ہمارے ”نگرانوں“ کی تاریخ سے روشناس ہو تو وہ ضرور میری رائے سے متفق ہوگا۔ میرے محترم ناراض قاری کی اطلاع کے لیے قومی اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے
نگران حکومت کے قیام کوآئین کا حِصہ بنایا تاکہ1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے آئینی بحران کا سدِباب کیا جا سکے۔ اب ذرا سدِباب کا جس طریقے سے ستیاناس کیا گیا وہ ملاحظہ ہو۔ خدا بخشے غلام اسحق خان جیسے عمر رسیدہ بااصول اور غیر جانبدار صدر کو جنہوں نے غلام مصطفی جتوئی اور معین قریشی کی قیادت میں دو جانبدار نگران حکومتیں یکے بعد دیگرے قائم کیں اور نہایت معصومیت سے مثبت نتائج حاصل کیے یعنی 1990ء میں بی بی کو نکالا اور نواز شریف کو لایا گیااو ر پھر 1993ء میں ان کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ 1996 میں فاروق لغاری (جنہیں بی بی اپنا بندہ اور وہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ سمجھتے تھے) نے بی بی کی دوسری سیاسی رخصتی پرمعراج خالد کو نگران وزیراعظم نامزد کر کے تیسری نگران حکومت بنانے کا شرف حاصل کیا ۔چوتھی نگران حکومت مشرف صاحب نے 2008ء میں میدان میں اتاری اور تمام اخلاقی اور جمہوری اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس وقت کے سینیٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو کو نگران وزیراعظم بنا ڈالا۔ مفاہمتی آرڈینیس کیونکہ رائج الوقت تھا اس لئے مفاہمتی ٹولہ مسندِ اقتدارپر بڑی آسانی سے آ بیٹھا اور اسی کے طفیل اپنی حکومت کی مدت اور قوم کی عدّت کی مدت مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ اب تو قبلہ آپ بھی سمجھ چکے ہونگے کہ یہ چاروں نگران حکومتیں اپنے خاص مقاصد کے لےئے قائم کی گےئں جس میں اُنہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ انگلش میڈیم حضرات کے لیے عرض ہے کہ نگران حکومت کو انگریزی میں ”CARE TAKER“کہتے ہیں اور اگر ان دو الفاظ کو ردّو بدل کر کے پڑھا جائے تو یہ”TAKE CARE “بنتا ہے جس کو یہ حکومتیں صدقِ دل سے عملی جامہ پہناتی رہیں۔
قارئین کرام۔ موجودہ نگران حکومت بیسویں ترمیم کی بدولت معرض وجود میں آئی جس میں نگران حکومت کے چناؤ کے طریقہ کارکو خاصا جمہوری اور شفاف رکھا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے جس ”فلوسِ نیت“ اور چھپ چھپاؤ کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اس
پر عوام کی کثیرتعداد خاصے وسوسے میں ہے۔ زیادہ تر کا اعتراض اس بات پر ہے کہ ہمارے قائدین کو کروڑوں افراد میں سے پانچ بھی بے داغ میسر نہ آئے جبکہ اتنے بے داغی امرود تو پانچ کلو کے ٹوکرے سے بھی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ دوسرا بڑا اعتراض ان دو اہم ترین شخصیات کی ضعیف العمری پر ہے جن پر بڑی مشکل سے ہاں تو ہوئی مگر وہ اپنی عمر کی سنچری مکمل کرنے کے نزدیک ہیں۔ میرے اپنے والدِ محترم جب ان نگران بزرگوں سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے تو وہ سیالکوٹ میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد رات میرے پاس گوجرانوالہ میں ٹھہرے۔ صبح ناشتے کی میز پر جب میں نے گذشتہ رات کی تقریب کے بارے میں دریافت کیا تو بڑی ندامت سے بولے”بیٹا اب حافظے کی حالت یہ ہے کہ کل رات بڑی مشکل سے گورنر پنجاب کو یہ کہتے کہتے رہ گیا کہ جناب آجکل آپ کہاں ہوتے ہیں“۔ اس لئے جب فخرو بھائی جنرل کیانی کو گھنٹے بھر کی ملاقات کے بعد نہ پہچان سکے تو یقین کیجیے کہ مجھے ان پر بہت پیار آیا۔ البتہ یہ پیار اس وقت محبت میں بدل گیا جب انہوں نے نگران وزیراعظم کے نام کا اعلان کاغذ سے پڑھنے کے علاوہ ایک معاون کی مدد سے کیا کیونکہ خدانخواستہ اگر وہ کھوسو کی بجائے بجارانی کہہ بیٹھتے تو بیٹھے بیٹھے انتخاب کی نگرانی صوبہ بلوچستان سے صوبہ سندھ میں منتقل ہو جاتی اور انتخابات کا عمل ابتدا ہی سے مشکوک ہو جاتا اور فخرو بھائی بھی میری طرح دھاندلی کی زد میں آ جاتے حالانکہ ان کی شخصیت بلا شک و شبہ ان کاموں سے بالاتر ہے ۔جہاں تک نگران وزیراعظم کا تعلق ہے وہ ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی زیادہ غیر سیاسی واقع ہوئے ہیں۔ غیر سیاسی ہونے کی انتہا دیکھئے کہ موصوف کو اپنے صوبے کے علاوہ کسی اور گورنر کا نام تک نہیں آتا تھا۔ عمر ساری تو کٹی قانون و عدلیہ کے ساتھ اور نگران وزیراعظم چنے جانے تک گذشتہ پانچ سالوں سے اُس کمیشن کے سربراہ رہے جو پیپلز پارٹی کے بر طرف جیالوں کی بحالی پر مامور تھا، جس کے نتیجے میں بر طرف ملازمین بحال اور موصوف خود خوش حال ہو بیٹھے۔جہاں تک وزرائے اعلی کا تعلق ہے تو خیبرپختونخوا کے علاوہ سب کے سب ”کھپّے“ کے زمرے میں آتے ہیں اور ان پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔مبصرین کے مطابق یہ لے دے، کچھ لو کچھ دو کے کلیے کے نتیجے میں برآمد ہوئی ہے۔قارئین کرام۔ ابھی تک کی بیان شدہ رام کہانی میں تو مایوسی کی ٹیم کا پلّہ بھاری نظر آتا ہے مگر میں پھر بھی اس عمل کو حوصلہ افزا اور خوش آئند سمجھنے پر قائم ہوں۔ وجہ سادہ سی ہے جب بھی کوئی کھلاڑی نئے رولز آف گیم کے تحت کھیلتاہے تو اس کو خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اچھے کھلاڑی کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلدنئے قواعد و ضوابط کے تحت اُس کھیل پر مثبت انداز میں عبور حاصل کر لیتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سیاست کو کھیل کود کے ساتھ ساتھ کوئلے کا کاروبار بھی سمجھتے ہیں یہ تو ایسا ہی ہو ا جیسے” کبڈی“ کا کھلاڑی کرکٹ کھیلنا شروع کر دے۔ میں پھر بھی قوی ”امید سے ہوں“ کہ یہ بزرگ عمر رسیدہ سہی لیکن ان کی بزرگی جو ہمارے لئے رحمت کے سائے سے کم نہیں ہے اپنے عمل سے ملک کو گندگی سے پاک کر کے ہمیں ایسے ستھرے ممبرانِ اسمبلی دیں گے جن پر ہم فخرو بھائی کے ساتھ ساتھ فخر کر سکیں گے۔البتہ فقط بز رگوں کی طرف دیکھتے رہنے سے کام نہیں چلے گا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان بزرگوں کے ضیعف ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام کر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں تو اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو گا۔
تازہ ترین